0
Sunday 20 Dec 2015 22:35

اسی عطار کے لونڈے سے دوا

اسی عطار کے لونڈے سے دوا
تحریر: نادر بلوچ

یمن جنگ میں دس ممالک پر مبنی فوجی اتحاد کے بعد سعودی عرب کے اچانک 34 ممالک پر مبنی نئے فوجی اتحاد کے اعلان نے بہت سارے سوالات کو اٹھا دیا ہے۔ تجزیہ نگار حیران ہیں کہ اس نئے اتحاد کی ضرورت کیوں پڑی؟ اگر دہشتگردی سے ہی نمٹنا ہے کہ تو دہشتگردی کے براہ راست شکار شام، لیبیا، عراق، ایران اور افغانستان اس اتحاد سے باہر کیوں ہیں۔ ایران، عراق اور شام تینوں ملکوں کی فوجیں گراونڈ پر داعش سمیت دیگر دہشتگردوں سے لڑ رہی ہیں، ایسے میں انہیں شامل نہ کرنا خود بخود کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس اتحاد کو امریکہ نے یہ کہہ کر خوش آمدید کہا ہے کہ امریکہ سنی فوجی اتحاد کا خیر مقدم کرتا ہے، یعنی اس اتحاد کی تشکیل ہی فرقہ وارنہ بنیاد پر کی گئی ہے۔ اہم سوال تو یہ بھی ہے کہ سعودی عرب، اردن، قطری، مصری اور اماراتی پہلے ہی داعش کیخلاف نام نہاد امریکی اتحاد کا حصہ ہیں، جو اس وقت شام میں دہشتگردوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کا دعویٰ بھی کر رہا ہے تو پھر سعودی عرب کو اچانک نئے اتحاد کی اچانک کیا سوجھی۔؟

معروف برطانوی اخبار گارڈین لکھتا ہے کہ ’’حیرت کی بات ہے کہ اس اتحاد کا اعلان امریکی ٹی چینل کے پرائم ٹائم میں کیا گیا ہے، امریکی صدر اوباما کی سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں کمی دیکھی گئی ہے، جبکہ مغربی دنیا وہابی سوچ اور فکر کو ہی دہشتگردی کی کارروائیوں کا اصل سبب سمجھتی ہے۔ یمن جنگ میں سعودی عرب نے اپنے اتحاد سے انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیریں ہیں۔‘‘ دوسری جانب سعودی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے اس اتحاد کا خیر مقدم کیا گیا ہے، مغربی سفارکاروں کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کی تفصیلات اب بھی جواب طلب ہیں۔ ادھر پیرس میں موجود سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اتحاد سے متعلق سوالوں کا مبہم جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ اتحاد ضرورت پڑھنے پر زمینی کارروائی بھی کرسکتا ہے۔ ایک اور سعودی آفیشل نے کہا ہے کہ عرب دنیا میں قیادت کے فقدان کے باعث دہشتگردی کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے، جسے سعودی عرب نے محسوس کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلے یہ اتحاد تشکیل دیا ہے۔

گارڈین اخبار مزید لکھتا ہے کہ وہ سعودی عرب جو عراق اور شام میں حکومت مخالف قبائلیوں اور دہشتگردوں کو سپورٹ کرتا ہے اور ان کے خلاف لڑنے والوں کو شیعہ دہشتگرد قرار دیتا ہے، وہ دہشتگردی کی کوئی واضح تعریف کر پائے گا؟ یا پھر فرقہ وارنہ کارروائیاں نظر آئیں گی۔ عراق کے ماہر حیدر الخوئی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’’یہ اتحاد ایک مذاق سے بڑھ کر کچھ نہیں۔‘‘ گلف ریسرچ سنٹر کے رکن مصطفٰی علینی کہتے ہیں کہ سعودی یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا انہیں داعش کا ذمہ دار سمجھ رہا ہے، جبکہ وہ خود حقیقت میں اس کا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگرد اپنی کارروائیوں کی نوعیت بدلتے رہتے ہیں، کبھی خودکش دھماکے کرتے ہیں تو کبھی کار بم دھماکے کرکے کارروائیاں انجام دیتے ہیں، ان سے نمنٹے کیلئے فوجی اتحاد ضروری سمجھا گیا ہے۔

کئی مغربی تجزیہ نگار یہ نتیجہ بھی لے رہے ہیں کہ حالیہ اتحاد کی ضرورت سعودی عرب نے اس لئے محسوس کی ہے کہ ایران سے عالمی پابندیاں ہٹ جائیں گی، ایسے میں ایران ریاض کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ مائیکل اسٹیفن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ ایران کا اثر و رسوخ اب مشرق وسطٰی ہی نہیں بلکہ نائجیریا تک بڑھ چکا ہے، جس کو روکنا ضروری ہے، یہی اس اتحاد کی وجہ نظر آتی ہے۔ عسکری ماہرین فرقہ وارنہ بنیاد پر بنائے گئے اس اتحاد کو انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اتحاد سے فرقہ واریت کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کہتے ہیں کہ سعودی اتحاد عجیب ہے، حزب اللہ کو کمزور کرنا ہو تو داعش دوست بن جاتی ہے، لیکن اگر آپ پر حملہ کریں تو دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ اتحاد بظاہر ایران مخالف لگ رہا ہے، خطے کے ممالک دہرے معیار کے حامل ہیں۔

پاکستان کے تجزیہ نگاروں اور اپوزیشن رہنماوں نے بھی اس اتحاد پر کڑے سوالات اٹھائے ہیں، پاکستان کی جانب سے اس اتحاد میں شمولیت کے اعلان پر پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس حساس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کرائی جائے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ یہ گمان نہیں جانا چاہیے کہ پاکستان ایران مخالفت میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس سے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ اہم یہ بات ہے کہ بعض مذہبی جماعتیں جو ریاض کے قریب تر سمجھی جاتی ہیں، وہ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کو مکمل صحیابی کا ضامن گردان رہی ہیں، جس کے سبب پوری مسلم دنیا جہم بن گئی ہے۔ لاکھوں مسلمان لقمہ اجل بن چکے ہیں تو مسلم ممالک کا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی خوشحالی کے تمام ذرائع اور اسباب تباہ کرکے انہیں بھکاری بنایا جا رہا ہے۔ ایسے میں اسی عطار کے لونڈے سے صحیابی کی امید لگانا، لاحول ولا قوۃ۔
خبر کا کوڈ : 506626
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش