0
Wednesday 23 Dec 2015 19:13

پاراچنار دھماکے کا ذمہ دار کون، لشکر جھنگوی، طالبان، مقامی تحصیلدار یا بحت جمال؟

پاراچنار دھماکے کا ذمہ دار کون، لشکر جھنگوی، طالبان، مقامی تحصیلدار یا بحت جمال؟
تحریر: قاری عبد الحسین

13 دسمبر 2015ء کو پاراچنار میں عیدگاہ مارکیٹ کے سامنے اہلسنت عیدگاہ کے قریب خالی جگہ پر کباڑ کے عارضی بازار میں اس وقت ایک زور دار دھماکہ ہوا، جب سردیوں سے بچنے کیلئے انتہائی نادار لوگ بڑی تعداد میں اپنے اور اپنے بچوں کیلئے نئے کپڑے اور جوتے وغیرہ خریدنے سے قاصر ہونے کیوجہ سے، مستعمل اور پرانے کپڑے، جوتے اور کُرتے خریدنے میں مصروف تھے۔ جسکے نتیجے میں 27 انتہائی نادار افراد شہید جبکہ 60 سے زائد افراد مجروح ہوئے۔ دھماکے سے متعلق خـبرنگاروں، کالم نگاروں اور تبصرہ نگاروں نے اپنی منشاء کے مطابق تو کالم لکھ کر اخباروں کے صفحات کو سیاہ کر دیا، تاہم اصل ذمہ دار اور قاتلوں سے لوگوں کو مطلع نہ کرسکے۔ دوسری جانب قومی اور بین الاقوامی دہشتگرد تنظیموں نے ذمہ داری بھی قبول کرلی، لیکن ان ذمہ داریوں میں بظاہر کوئی ربط دکھائی نہیں دے رہا، کیونکہ سب سے پہلے لشکر جھنگوی نے شامی حکومت کا ساتھ دینے کا الزام لگا کر ذمہ داری قبول کرلی۔ اسکے بعد تحریک طالبان نے بھی غیر مربوط سی ذمہ داری قبول کرلی۔ ان دونوں بیانات کے درمیان کوئی باہمی ربط دکھائی نہیں دے رہا۔ اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں جہاں کہیں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، تحریک طالبان اور دیگر کالعدم تنظیموں کی ڈیوٹی ایسے بزدلانہ واقعات کی ذمہ داری قبول کرنا ہے۔

دھماکے کا پس منطر:
دھماکے سے ہفتہ یا 10 دن پہلے ایسے اتفاقات و حادثات سامنے آچکے تھے، جن سے اس دھماکے کے اصل ذمہ داروں اور 27 غریب شہداء و مجروحین کے قاتلوں کی صحیح نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ ایسے حادثات واقعات کا ذکر قارئین کی خدمت میں ترتیب وار پیش کرتے ہیں۔
پہلا واقعہ:
اربعین امام حسینؑ کے موقع پر دنیا بھر کی طرح پاراچنار اور گرد و نواح میں بھی یزید اور یزیدیت سے برات کا اظہار کیا گیا، مگر پاراچنار کے نواحی علاقے بوشہرہ، جہاں طالبان، داعش اور لشکر جھنگوی کے نمائندے سال بھر موجود رہتے ہیں۔ چنانچہ 1987ء، 1996ء اور 2007ء کی لڑائیوں میں اصل کردار اسی علاقے کے لوگوں نے ادا کیا ہے۔ اس علاقہ (بوشہرہ) کا سربراہ حاجی بحت جمال ہے، جو کہ مرکزی مسجد پاراچنار (اہلسنت) اور علاقے میں سپاہ صحابہ کا سرپرست بھی ہے۔ یزیدیت مردہ باد نعروں کے ردعمل میں بوشہرہ کے باشندوں نے بحت جمال کی سربراہی میں حکومت (تحصیل دار محال) کے ساتھ ایک خصوصی میٹنگ کی۔ حکومت نے یکطرفہ کارروائی کرکے اس معاملے کا نوٹس لیا اور بعض عزاداروں کو گرفتار کرلیا اور باقی سے مالی چیک پوسٹ پر ضمانت حاصل کی گئی، تاکہ بعد میں یزیدیت مردہ باد کے نعرے نہ لگنے پائیں۔ تاہم حسینی جوانوں نے فوری طور پر ردعمل دکھا کر بوشہرہ کے قریب احتجاجی جلوس کا اہتمام کیا۔ جس میں یزیدیت مردہ باد پر مشتمل بینرز اور پوسٹر اٹھاکر یزیدیت مردہ باد کے نعرے لگانے کا ارادہ تھا، تاہم بعد میں بخت جمال سمیت بوشہرہ کے بعض مصلحت پسند افراد نے پشیمان ہوکر اپنے اس فعل پر پشیمانی کا اظہار کیا، لیکن یہ پیشمانی دل سے نہیں تھی بلکہ یہ ایک نئے حربے کی تیاری تھی، یعنی پاراچنار کے اہل تشیع کو خون میں لت پت کرنا تھا۔

دوسرا واقعہ:
جس جگہ یہ دھماکہ ہوا، یہ علاقہ کافی عرصہ پہلے شیعہ سنی کے مابین متنازعہ رہا ہے۔ کوئی ساٹھ ستر سال قبل جب علاقے میں شیعہ اور سنیوں کے مابین برادرانہ تعلقات استوار تھے۔ اہلسنت کے مطالبے پر اہل تشیع نے قبرستان کے لئے اپنے اہل سنت بھائیوں کو چھ جریب زمین وقف کی تھی۔ لیکن اہل سنت کے ایک پٹواری نے 6 کے سامنے ایک صفر کا اضافہ کرکے 60 کر دیا، جس کا پتہ اہل تشیع کو دو تین دہائی بعد ہوگیا اور پھر اس مسئلے پر شیعہ اور سنیوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ تاہم اہل تشیع کے اس وقت کے پیش امام مرحوم شیخ علی مدد نے پاراچنار کے امن کو برقرار رکھنے کی خاطر 6 سے 60 جیریب مان کر یہ فیصلہ کیا کہ اس علاقے کو صرف مردے دفنانے کے لئے استعمال کیا جاسکے گا اور یہ کہ اس میں کسی قسم کی آبادی اور چھت بنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس معاہدے پر فریقین نے دستخط کر دیئے۔ پھر 2007ء کے دوران جب اہل تشیع اور طالبان کے درمیان خوفناک جنگ چھڑ گئی۔ جس میں اہلسنت نے بھی طالبان کا ساتھ دیا، اور نتیجے میں طالبان اور انکے معاونین کو شکست ہوئی۔ بعض مقامات پر اہل تشیع کو بھی شکست ہوئی۔ چنانچہ جیلمئے، چاردیوال میں شیعوں جبکہ پاراچنار اور بعض دیگر مقامات سے اہلسنت کو بے دخل ہونا پڑا۔

خیال رہے کہ 1983ء میں صدہ سے اہل تشیع کو مکمل طور پر بے دخل کیا جاچکا تھا۔ چنانچہ تاحال وہاں کسی شیعہ کو آبادی کی اجازت حاصل نہیں۔ حالانکہ وہاں پر شیعہ اراضی، قبرستان حتٰی کہ مساجد و امام بارگاہ موجود تھی۔ اسے مکمل طور پر مسمار کرکے وہاں مارکیٹیں اور پمپ بنائے گئے، جبکہ اہل تشیع نے پاراچنار میں موجود اسی علاقہ (جہاں دھماکہ ہوا ہے) بغیر کسی نقصان پہنچانے کے صرف عارضی طور پر کباڑ کی عارضی دوکانیں لگا رکھی ہیں، جبکہ اسکے قریب مغرب کی جانب حاجی نصر اللہ خان کے خاندان کی ایک مارکیٹ زیر تعمیر ہے۔ جسکی کھدائی سے حاصل شدہ مٹی کو اس متنازعہ علاقہ کے نشیبوں میں ڈال دیا گیا ہے، حالانکہ اس سے قبل حتٰی کہ پاراچنار میں اہلسنت کی موجودگی میں بھی ایسی مٹی یہاں ڈالی جاتی رہی ہے۔ اسکے ردعمل میں بوشہرہ سے تعلق رکھنے والے بحت جمال کے بیٹے نے زیر تعمیر مارکیٹ مالکان جس میں ایم این اے ساجد طوری کے بھائی بھی شامل ہیں، کو متنبہ کیا تھا کہ مارکیٹوں کو جلدی مکمل کرکے ہمارے قبرستان سے گندگی کو صاف کریں۔ اس پر مارکیٹ مالکان اور بحت جمال کے بیٹے اور نمائندے کے مابین تلخ کلامی بھی ہوئی تھی۔ یہ واقعہ دھماکے سے 5 دن پہلے کا ہے۔

تیسرا واقعہ:
دھماکے سے صرف 3 دن پہلے اہل تشیع کی نبض معلوم کرنے کی غرض سے بوشہرہ سے یہ پروپیگنڈہ کرایا گیا کہ پاراچنار شہر میں جہاں اس وقت کوئی سنی رہائش پذیر نہیں، اہلسنت (تکفیری) 12 وفات کا جلوس نکالیں گے۔ اس پر شیعوں نے اپنا ردعمل دکھاتے ہوئے بوشہرہ کے ذمہ دار لوگوں کو یوں تنبیہہ کیا کہ جب تک صدہ میں اہل تشیع کو جلوس کی اجازت نہیں دی جاتی، پاراچنار میں کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ خیال رہے کہ کرم ایجنسی میں اصل اہلسنت نہیں بلکہ سب کے سب تکفیری ہیں۔ جن کا عقیدہ یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کا جلوس بدعت ہے اور یہ کہ صدہ میں کوئی شیعہ نہیں، سب کے سب سنی تکفیری ہیں۔ لیکن وہاں جلوس نہیں نکالا جاتا۔

نتیجہ:
مذکورہ بالا حالات و واقعات میں اہلیان بوشہرہ اور انکے بلکہ پورے کرم کے تمام شدت پسندوں کا سرغنہ بحت جمال سمیت اور دیگر شدت پسند کو جب ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو انہوں نے اس کے چند ہی دن بعد اسی جگہ پر، جس پر شیعہ اور سنیوں کے مابین تنازعہ چلا آرہا تھا، ایک زوردار دھماکہ کروا دیا، جس میں 27 انتہائی نادار اور غریب اہل تشیع شہید جبکہ 60 سے زائد زخمی ہوگئے۔

دھماکے میں پولیٹیکل حکام کے ملوث ہونے کے شواہد
:
تاہم بعض سرکاری ذرائع کے مطابق دھماکے میں ٹی ایم پاراچنار (تحصیلدار محال) نیز پی اے کرم کا بھی ہاتھ ہے۔ ان ذرائع کے مطابق ٹی ایم مولانا فضل الرحمان کا بندہ تھا، اسی نے اس کا یہاں تبادلہ کرایا تھا اور یہ کہ دھماکے کے فوراً بعد اسکا تبادلہ ہوا۔ ایک اطلاع کے مطابق اسکی کال ٹریس ہوئی ہے، جس سے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ دھماکہ کرنے والوں کو اسکا مکمل تعاون حاصل تھا۔ تاہم اسکی اعانت بخت جمال کے ملوث ہونے کی نفی نہیں کرتی۔ ممکن ہے کہ بخت جمال اور تحصیلدار محال کا ایک ساتھ دھماکے میں ہاتھ ہو۔
مذکورہ بالا واقعات قارئین کے سامنے رکھ کر فیصلہ قارئین حضرات پر چھوڑتے ہیں کہ کیا اس دھماکے کے ذمہ دار لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان ہیں یا بوشہرہ کا بحت جمال؟ یا پھر مقامی حکومت کا ایک ذمہ دار شخص تحصیلدار محال؟ خیال رہے کہ اوپر دی گئی تصویر، گورنر خیبر پی کے سردار مہتاب عباسی کے دورہ پاراچنار کے دوران، اس وقت لی گئی ہے جب وہ 13 دسمبر 2015ء کے حالیہ دھماکے میں ہونے والے شہداء کے ورثاء میں امدادی پیکیج تقسیم کر رہے تھے۔ تصویر میں بالکل واضح ہے کہ شہداء کا قاتل بحت جمال پرمسرت انداز میں بیٹھ کر تماشا دیکھ رہا ہے اور اسکے قریب پاراچنار کے مرکزی امام بارگاہ کی انجمن حسینیہ کے سیکرٹری ملک سراج حسین بھی بیٹھے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اپنا واضح دشمن دکھائی نہیں دے رہا بلکہ ہم اب بھی اپنوں ہی میں ایک دوسرے کے گریبان میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 506756
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش