3
0
Wednesday 23 Dec 2015 23:19

سزا اختلاف پر نہیں، حق سے دوری پر ملے گی

سزا اختلاف پر نہیں، حق سے دوری پر ملے گی
تحریر: سید اسد عباس

جنگ جمل کے دوران لشکر امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے ایک نوجوان نے مخالف لشکر میں حضرت طلحہ و زبیر جیسے بزرگوں کو دیکھنے کے بعد امیر المومنین سے سوال کیا، کہ ہم دونوں لشکروں میں سے حق پر کون ہے؟ امیر کائنات نے نوجوان کی ذہنی الجھن کا ادراک کرتے ہوئے اسے اس مخمصے سے نکالا۔ آپ نے ایک ہی جملے میں عدل کا وہ اساسی قانون فراہم کیا کہ اگر امت اس پر عمل کرتی تو کبھی افتراق کا شکار نہ ہوتی۔ آپ نے فرمایا:
اعرف الحق تعرف اھلہ
حق کو پہچانو تم خود بخود اہل حق کو پہچان لو گے۔

امت مسلمہ کے مسائل میں سے اکثر کا بنیادی سبب اسی نوجوان کی مانند سوچنا ہے۔ اگر ہم لوگ امیر المومنین کے اس فرمان اور کلیہ کو اپنا لیتے تو ہماری بہت سی مشکلات خود بخود حل ہوسکتی تھیں۔ اب معاشرے کے پڑھے لکھے افراد اگر اپنے معیار حق کے مطابق ایک گروہ کو حق اور دوسرے کو باطل قرار دے چکے ہوں تو پھر وہ اسی طرح کی علمی جواہر ریزی کریں گے، جیسی ہمارے نہایت محترم صحافی جناب اوریا مقبول جان نے گذشتہ دنوں ایکسپریس نیوز کے کالم ’’کیا ہمیں اختلاف امت کے جرم کی سزا ملنے والی ہے‘‘ میں کی، تاہم افسوسناک یہ ہے کہ ایسا سب کچھ دین کا ہمدرد اور خیر خواہ بن کر کیا جائے۔

امت مسلمہ کے مابین اختلافات مختلف نوعیت کے ہیں، جن میں سیاسی، فقہی، نظری، عقیدتی اختلافات قابل ذکر ہیں۔ یہ مسائل چودہ سو سال سے بعینہ چلے آرہے ہیں اور کوئی بھی گروہ دوسرے کے موقف کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ کرنا بھی نہیں چاہیے، اختلاف نظر ہر شخص کا حق ہے، اختلاف خواہ امام مالک اور امام ابو حنیفہ میں ہو یا بنو عباس اور بنو امیہ میں، اختلاف اشاعرہ کا معتزلہ سے ہو یا جبریہ کا خیریہ سے، اختلاف اختلاف ہوتا ہے۔ علمی سطح پر اختلاف علم میں اضافے کا باعث ہوتا ہے، اسی اختلاف نظر کے بارے میں نبی رحمت نے فرمایا تھا کہ میری امت میں اختلاف (نقطہ نظر کا مختلف ہونا) رحمت ہے۔ مگر محترم اوریا مقبول جان نے ان اختلافات سے کچھ نہیں سیکھا، وہ تاریخ کے کسی گوشے میں بیٹھے ہیں اور ہر گزرنے والے قافلے کو اس مخصوص گوشے کے زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ میں اس بحث میں ہرگز نہیں پڑنا چاہتا کہ کون سی حکومت درست تھی اور کون سی غلط، کیونکہ اگر امت مسلمہ چودہ سو سال سے خلافت کے مسئلے کو حل کرنے سے قاصر رہی ہے تو اسے نئے جھنجٹ میں مبتلا کرنا میری نظر میں قطعاً درست نہیں ہے۔ اب جو اپنے گمان میں یہ جانتے ہوئے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ عباسی حکمرانوں کی روش کے خلاف تھا، انہیں حق گردانتے ہوئے اس مسئلے کو وثوق کے ساتھ اپنے کالم میں موضوع سخن بنا رہا ہے، اس کی فکری صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لئے سقراط کی ڈگری کی ضرورت نہیں ہے۔

جب مبنٰی ہی غلط ہو تو پھر انسان اس موضوع پر آگے کیا بڑھے۔ یہ دعویٰ کہ صفویوں نے عراق سے کچھ ملاؤں کو بلا کر ایک خاص فقہ ترتیب دی اور نافذ کی خود اپنے اندر کئی سوالات رکھتا ہے۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا وہ ملا پہلے سے اس فقہ کے عالم تھے یا ایران آکر انہوں نے اس نئی فقہ کو ایجاد کیا؟ ویسے میرے علم میں ایسی کوئی فقہ ہے نہیں، جو صفوی دور میں ترتیب پائی ہو، اگر اوریا صاحب کا اشارہ فقہ جعفریہ کی جانب ہے تو ان کی اطلاع کے لئے عرض کرتا چلوں کہ اس فقہ کو رائج معنوں میں باقاعدہ طور پر مرتب کرنے والے امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن امام علی کرم اللہ وجہہ ہیں، جبکہ تکمیل کے مراحل تک پہنچانے والوں میں ان کی اولاد کے افراد منجملہ امام موسٰی کاظم، امام رضا، امام محمد تقی، امام علی نقی، امام حسن عسکری، امام مہدی علیھم السلام نیز اصحاب کا اہم کردار ہے۔

صوفیاء کے قتل کی کہانی بھی بڑی مضحکہ خیز ہے، ایران میں سیاسی اختلافات کے دوران میں وہاں مختلف مسالک کے لوگ قتل ہوتے رہے۔ یہ درست ہے کہ ایران یا دنیا کے کسی بھی خطے میں بننے والی کسی بھی حکومت کو کوئی بھی شخص منصوص من اللہ نہیں کہا جا سکتا، نہ ہی کوئی ایسا دعویٰ کرتا ہے۔ ہر حکومت کو اس کے عمل اور کردار سے پہچاننا چاہیے، خواہ حکومت بنو امیہ و بنو عباس کی ہو یا دنیا میں قائم کوئی اور بادشاہت۔ اگر حکومت کا عمل عدل و انصاف پر مبنی ہے اور اس میں عوام خوشحال ہیں تو خواہ وہ زید کی ہو یا بکر کی، وہ اسلامی حکومت ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو بھلے لاحقے اور سابقے جتنے بڑھا دیئے جائیں، کوئی حکومت یا نظام اسلامی نہیں ہوسکتا۔ بہرحال حیرت اس بات پر ہوئی کہ صوفیاء کا قتل عام کیا گیا، میرے خیال میں اوریا صاحب نے سادات کا برصغیر میں ورود نہیں پڑھا، اگر وہ مطالعہ فرما لیتے تو انہیں اندازہ ہوتا کہ برصغیر پاک و ہند میں آنے والے تمام تر عرفاء جنہوں نے اس ملک میں دین اسلام کی تبلیغ کی، کا تعلق ملک فارس سے ہی تھا۔ تاریخ ایران کا گہرا مطالعہ رکھنے والے حضرات بخوبی آگاہ ہوں گے کہ اسماعیلی، قاچاری، صفوی حتٰی کہ ہلاکو خان کی حکومت کے بعد کے ادوار میں عرفاء بالخصوص اور سادات کو بالعموم بلاتخصیص مذہب و مسلک فارس، جو آج کے ایران، آذربائیجان، افغانستان وغیرہ پر مشتمل تھا، میں نہایت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ برصغیر پاک و ہند میں بھی جاری رہا۔ آج پاکستان میں سادات اور عرفاء کے گھرانوں کے پاس موجود جاگیریں اسی دور کے عطا کردہ انعامات ہیں۔

بہرحال اوریا صاحب نے امت مسلمہ کو مسالک کے تڑکے سے بچاتے بچاتے اپنے آرٹیکل کو مسلک کا خوب تڑکا لگایا اور وہ جنگ جس سے امت کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے، خود اس میں کود کھڑے ہوئے اور ایک جرنیل کی مانند بھرپور معرکہ لڑا۔ اس تحریر کو قلمبند کرنے سے قبل میں نے کوئی ہزار دفعہ سوچا کہ اس فرقہ وارانہ تحریر پر اظہار نظر کرنا یقیناً فرقہ واریت کو ہوا دینے کے مترادف ہے، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے، لیکن آخر یہی سوچا کہ کم از کم ہمارے نوجوانوں کا حق ہے کہ ان تک حقائق ضرور پہنچیں اور وہ اسلامی تاریخ اور واقعات کو ایک آنکھ سے دیکھ کر اس کے بارے میں کوئی یکطرفہ فیصلہ صادر نہ کر دیں۔ ذاتی طور پر میں اس قبیل کے لوگوں سے ہوں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ تاریخ کے مختلف چوکوں پر چوکیاں لگا کر بیٹھنے سے امت مظلوم کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو رہا ہے بلکہ بیرونی دشمن کے تناظر میں اس چوکی سازی سے نقصانات روز افزوں بڑھ رہے ہیں۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ تاریخ سے عبرت پکڑی جائے اور اپنے حال کو اس کے تناظر میں بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ اگر اوریا صاحب کی مزید باتوں پر اظہار نظر کروں تو یقیناً میں ان کے مخالف گروہ کی صف میں کھڑا نظر آوں گا، جو کہ میں نہیں کرنا چاہتا، تاہم اتنا ضرور کہتا ہوں کہ جدید تاریخ اسلام انقلاب اسلامی ایران سے نہیں بلکہ بچی کھچی خلافت عثمانیہ کے زوال سے شروع ہوتی ہے، کبھی اس زوال کے پیچھے چھپے کرداروں پر بھی روشنی ڈالیں تو بہت سے مسائل خود ہی نکھر جائیں گے۔ خداوند کریم اپنے حبیب کے صدقے ہمیں حق کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 507451
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ماشاءاللہ
ali imran
Pakistan
Nice, intime effort.
Shamim
Pakistan
.Mashalla very nice article Asad
ہماری پیشکش