4
1
Sunday 27 Dec 2015 14:30

علاقائی بالادستی کیلئے صہیونی، سعودی تڑکا

علاقائی بالادستی کیلئے صہیونی، سعودی تڑکا
تحریر: عرفان علی

10 دسمبر 2015ء کو خبر رساں ادارے رائٹر نے بیروت کی ڈیڈ لائن سے خبر دی۔ یہ خبر پوری دنیا میں نشر ہوئی اور ایران کی منافقین خلق کی ویب سائٹ پر 13 دسمبر سے موجود ہے۔ بعض پاکستانی اخبارات نے بھی اس خبر کو اہمیت دی۔ خبر کے مطابق شام میں لڑنے کے لئے ایران پاکستان سے جوان بھرتی کر رہا ہے۔ ٹھیک تین روز بعد یعنی 13 دسمبر ہی کو پارا چنار میں بم دھماکے میں متعدد شیعہ مسلمان شہید کر دیئے گئے، جس کی ذمے داری لشکر جھنگوی کے ایک گروہ نے قبول کرلی۔ اس خبر میں فقط دو افراد سے بات چیت شامل کی گئی ہے اور دونوں کا تعلق واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ سے ہے، جو امریکا میں پہلا باقاعدہ صہیونی تھنک ٹینک سمجھا جاتا ہے اور جس کی بنیاد امریکا میں صہیونیت کے خادم امریکی یہودی سفارتکار نے رکھی تھی۔ رائٹ ویب پر اس کا تعارف یوں لکھا ہے : Washington Institute for Near East Policy, a spin-off the American -Israeli Public Affairs Committee is an influential beltway think-tank whose members have advocated a host of hawkish, pro-Israel policies over the years. It is considered a core member of Israel Lobby, a constellation of policy and advocacy groups devoted to pushing an Israel-centric US agenda in the Middle East. Many of WINEP current and former scholars have been closely assosciated with neo-conservatism............
(http://www.rightweb.irc-online.org/profile/washington_institute_for_near_east_policy) accessed on December 27, 2015

اس تھنک ٹینک کی ایران، عراق اور شام کے بارے میں جو پالیسی ہے، وہ بھی اس ویب سائٹ پر بیان کی گئی ہے۔ مذکورہ بالا انگریزی جملوں کا مفہوم سادہ ترین الفاظ میں یہ ہے کہ یہ اسرائیلی لابی سے تعلق رکھتا ہے اور اسی کے مفاد میں ہر کام کرتا ہے۔ ایران کی نیوکلیئر ڈیل کے خلاف بھی اس نے مہم چلائی اور عراق اور شام میں امریکی مداخلت پر زور دیتا ہے۔ رائٹر کی خبر اسی تھنک ٹینک کی ذہنی اختراع تھی۔ مطلب یہ کہ سچ جھوٹ کی آمیزش کے ساتھ عالم اسلام میں فرقہ وارانہ ذہنیت سازی کی جائے۔ اس خبر میں افغانی شیعہ مسلمانوں کی تنظیم فاطمیون، پاراچنار پاکستان کے شیعہ مسلمانوں کی تنظیم زینبیون کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ لیکن ایک اور تنظیم نبویون کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ کیا ہم اور آپ جانتے ہیں کہ نبویون نامی تنظیم کون ہے اور شام میں کیا کر رہی ہے۔

فاطمیون ہو یا زینبیون، نبویون ہو یا قدس فورس، یہ سبھی حرم آل رسول اللہﷺ کے دفاع کے لئے شام جانے پر مجبور ہوئے، کیونکہ حرم آل رسول اللہ ﷺ پر تکفیری دہشت گردوں نے میزائل اور راکٹ برسائے، وہاں بم دھماکے کئے اور صرف مزارات اہلبیت نبوت ﷺ پر نہیں بلکہ بزرگ صحابہ کرام کے مزارات کو بھی ڈھا دیا اور قبور کی بے حرمتی کی۔ یہ تکفیری دہشت گرد گروہ علی الاعلان محمد بن عبدالوہاب نجدی کے مکتب فکر کے پیروکار ہیں، جو کہ وہابیت کے نام سے موسوم ہے اور جو سعودی عرب کی بادشاہت کا سرکاری مذہب ہے۔ محمد بن عبدالوہاب ال نجدی کو برطانوی جاسوس لارڈ ہمفرے نے نئے مسلک کی بنیاد رکھنے کی تربیت دی تھی۔ لشکر جھنگوی سمیت بہت سے دیوبندی گروہ ایسے ہیں جو سعودی بادشاہت کی تربیت کے نتیجے میں نام کے دیوبندی ہیں، لیکن اندر سے وہابی تکفیری ہوچکے ہیں اور علی الاعلان مسلمانوں کو کافر و مشرک قرار دیتے ہیں۔

یہاں یہ حقیقت بھی یاد رہے کہ پاراچنار میں خودکش حملے کرنے والوں نے صوبہ خیبر پختونخوا میں رحمان بابا، پاکستان کے دارالحکومت میں شاہ عبداللطیف کاظمی ال معروف بری سرکار، صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں داتا دربار، پاک پتن میں بابا فرید گنج شکر، کراچی میں عبداللہ شاہ غازی آل امام حسن ؑ کے مزارات مقدسہ سمیت کئی بزرگان دین کے مزارات پر خودکش بمباروں کے ذریعے یا نصب کردہ بموں کے ذریعے حملے کئے۔ کئی مسلمان شہید ہوئے اور ان شہداء کی اکثریت سنی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ مطلب یہ کہ تکفیری صہیونیت زدہ وہابی نجدی مسلک کے پیروکار ہیں اور بزرگان دین اور ان کے مزارات کو مقدس سمجھ کر احترام کرنے والے سنی و شیعہ دونوں قسم کے مسلمان ہیں۔ یعنی یہ جنگ سنی شیعہ نہیں ہے بلکہ صہیونیت زدہ سعودی بادشاہت، اس کے اتحادی ایک صف میں کھڑے ہیں اور صہیونیت اور اس کے اتحادیوں کے دشمن و مخالفین دوسری صف میں یکجا ہیں اور اس کا ثبوت پاکستان کے عام شہری بھی ہیں، لیکن خاص طور پر ایران، عراق اور شام کے شہری اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں کیونکہ وہ اس جنگ میں خود عملی طور پر شریک ہیں۔

رائٹر اور اس کو انٹرویو دینے والے صہیونی تھنک ٹینک کے نام نہاد اسکالرز سمیت سبھی صحافیوں کو حقیقت کے سارے رخوں کو مدنظر رکھ کر تجزیہ و تبصرہ کرنا چاہیے۔ نبویون کا تذکرہ بھی کرنا چاہئے جو کہ ایران کے سنی مسلمانوں کی تنظیم ہے اور جو شام میں حرم آل رسول اللہ ﷺ و صحابہ کرام کے مزارات کے دفاع کے لئے بر سرپیکار ہے۔ اس تنظیم نے بھی راہ حق میں شہید پیش کئے ہیں۔ سلمان برجستہ اور عمر ملازہی نام کے دو شہداء ہیں، جنہیں شہدائے اہلسنت از دفاع اسلام ناب محمدی قرار دیا گیا ہے۔ ان کے جنازے بھی بڑی شان و شوکت سے اٹھائے گئے تو کیا عالمی ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر رائٹر نے کیوں ان کی خبر جاری نہیں کی اور نبویون نامی تنظیم کا تعارف کیوں نہیں کروایا جا رہا۔ عالمی صف بندی میں جو دو گروہ اس وقت ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہیں، وہ پوری دنیا کے سامنے آشکار ہیں۔ یمن میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والی سعودی حکومت کی نیابتی جنگ لڑنے والے عراق اور شام میں ایک ہی صف میں ہیں اور حال ہی میں سعودی دارالحکومت ریاض میں نئی ڈکٹیشن لے چکے ہیں، لیکن آج دنیا بھر کے مسلمان بزرگان بلا تفریق رنگ و نسل و مسلک ایران میں جمع ہیں، جہاں ہفتہ وحدت مسلمین کی مناسبت سے تین روزہ عالمی کانفرنس برائے اتحاد امت مسلمہ ہو رہی ہے۔ یہ ہے دوسری صف بندی جس میں سنی و شیعہ مسلمان شریک ہیں۔

جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ طالبان دور میں شیعہ مسلمان ان کے ساتھ تھے یا کسی صوبے کا گورنر شیعہ تھا، مالیخولیا کی کیفیت کا شکار یہ افراد ذہنی مریض ہیں یا سعودی صہیونی اتحاد کے ٹکڑوں پر پلنے والے اسلام دشمن بے ضمیر انسان نما شیطان۔ جس ملک ایران میں اس وقت 19 اراکین پارلیمنٹ موجود ہیں، جس ملک عراق کا صدر، اسپیکر قومی اسمبلی، نائب صدر اور نائب وزیر اعظم سمیت کئی وزراء سنی مسلمان ہیں اور جس ملک شام کا وزیراعظم، اسپیکر، وزراء اور اراکین پارلیمنٹ کی غالب اکثریت سنی عرب مسلمان ہیں، ان تین ملکوں کے اتحاد پر فرقہ واریت کا جھوٹا الزام لگا کر کس کا دفاع کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کے اس جعلی اسلام کا کہ جس کی بادشاہت جس تیل پر پل رہی ہے، وہ بھی شیعہ مسلمانوں کا ہے۔ وہ سعودی بادشاہت کہ جہاں ایک بھی وزیر یا اعلٰی حکومتی پوزیشن میں شیعہ عرب مسلمان نہیں اور جہاں پارلیمنٹ ہی نہیں کہ جہاں کسی غیر وہابی سنی یا شیعہ مسلمان کو نمائندگی دی جائے۔ بحرین میں شیعہ اکثریت کو شہریت سے محروم کیا جا رہا ہے اور قطر میں آج بھی امریکی سینٹرل کمانڈ کا اعلانیہ دفتر قائم ہے اور بحرین میں پانچواں بحری بیڑی یا نیول ہیڈ کوارٹر۔ ان معروضی حقائق کی بنیاد پر یہ کہنا چاہیئے کہ یہ اس خطے پر بالادستی کی سامراجی صہیونی جنگ میں سعودی تڑکا لگایا جا رہا ہے۔ مسالک کی درست تشخیص کریں کہ کس مسلک نے یہ دہشت گردی کی، جس کا تذکرہ اس تحریر میں یہ ناچیز کرچکا ہے۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور سے لے کر سانحہ حیات آباد و شکار پور سمیت سارے سانحات میں کون ملوث ہیں!

کیا آج غیرت مند مسلمان یہ تماشا دیکھیں کہ بزرگان دین کے مزارات بموں کے ذریعے زمین بوس کر دیئے جائیں۔ سرفراز نعیمی جیسے سنی بریلوی مسلمان عالم کو خودکش دھماکے میں شہید کر دیا جائے۔ حد تو یہ ہے کہ اولاد رسول امام علی نقی ؑ و امام حسن عسکری ؑ کے مزارات مقدسہ کو زمین بوس کر دیا گیا۔ حرم مقدس جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا پر بارہا راکٹ اور بم برسائے گئے۔ کیا حرم آل رسول اللہ ﷺ کا دفاع ہر مسلمان پر واجب نہیں؟ تو کیا ہوا اگر پاراچنار سے کوئی غیرت مند مسلمان یہ واجب کام انجام دینے گیا؟ عراق کے حشد الشعبی یعنی عوامی لشکر میں سنی بھی ہیں شیعہ بھی، عرب بھی ہیں اور عجم بھی۔ یہی صورتحال شام کے محاذ پر ہے۔ سعودی ایجنٹ دہشت گردوں اور جعلی ریاست اسرائیل کے اصلی نسل پرست صہیونی دہشت گردوں نے ریف دمشق میں اسرائیل دشمن سمیر ال قنطار کو شہید کیا ہے۔ لیکن چند ہی دنوں میں سعودی اتحاد کو علوش جیسے بدنام زمانہ تکفیری دہشت گرد کی لاش کا تحفہ مل چکا ہے۔ صف بندی کی درست شناخت کریں تو حقیقت واضح ہوچکی کہ امام خامنہ ای کی قیادت میں عالم اسلام اور مستضعفین کا ایک ایسا اتحاد قائم ہوچکا ہے کہ اب برطانوی ایم آئی سکس کی شیعت ہو یا سی آئی اے و موساد کی پروردہ سنیت یا وہابیت ہو، ان کا سیاہ چہرہ دنیا پر آشکار ہوچکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 508390
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Ahsan Shah
United Kingdom
Teeth breaking reply to Orya
Pakistan
Thanks
Naqvi
Iran, Islamic Republic of
سلام عرفان بھائی، اچھا تجزیہ و تحلیل کیا ہے، خدا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔
Pakistan
بہت عمدہ تحریر ہے
ہماری پیشکش