0
Monday 28 Dec 2015 23:41

وہ جو اصلِ لفظ بہار ہے

وہ جو اصلِ لفظ بہار ہے
تحریر: سید اسد عباس

ماہ ربیع الاول کی پربہار اور نورانی ساعتیں ہمیں اپنی آغوش میں لئے ہوئے ہیں۔ امسال، اس ماہ میں ہمیں کئی ایک خوشیاں نصیب ہوئیں۔ ماہ ربیع الاول ماہ دسمبر سے یوں مخلوط ہوا کہ عالم انسانیت کی نابغہ روزگار شخصیات کے روزہائے ولادت یکے بعد دیگرے ہمارے دلوں کے لئے بہار بن کر اترے۔ ایک روایت کے مطابق ایک دن شافع محشر کے روز ولادت کی خوشی تو اگلے دن حضرت عیسٰی روح اللہ سے منسوب کرسمس کا تہوار، عموماً کرسمس کے ہمراہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے روز ولادت کی خوشی بھی پاکستانیوں کا مقدر ہوتی ہے، تاہم اس برس یہ تینوں خوشیاں یوں یکے بعد دیگرے آئیں کہ عید سا ماحول بن گیا۔ خداوند کریم دنیا کے تمام انسانوں کو ہمیشہ خوش و خرم و آباد رکھے، خصوصاً اس گھرانے کی خوشی کا کوئی اہتمام فرمائے، جسے گذشتہ تیرہ سو سال سے غموں نے گھیر رکھا ہے۔ وہاں خوشی بھی غم کے رنگ میں اترتی ہے اور در و دیوار کو مزید سوگوار کر دیتی ہے۔ اس گھرانے کی جستجو کو آپ کے تخیل کی پرواز کے سپرد کرتے ہوئے اپنے موضوع کی جانب پلٹتا ہوں۔ مختلف روایات کے مطابق ماہ ربیع الاول کے نویں، بارھویں یا ستھرویں روز عالم انسانیت میں سے ایک ایسے فرد نے آنکھ کھولی، جس کی آمد کے وعدے ابتدائے عالم سے ہادیان دین کے ذریعے دہرائے جا رہے تھے۔ تمام تر آسمانی کتابوں میں جس کے ظہور کا تذکرہ موجود تھا۔ رب کائنات نے جسے خلق عظیم کا مالک کہا، جس نے خود اپنی بعثت کے مقصد کو اخلاق کی تکمیل کے عنوان سے متعارف کروایا۔ سورہ جمعہ میں اعلان ہوا کہ یہ وہ شخص ہے جو اللہ کی نشانیوں کو تلاوت کرتا ہے، نفوس کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

قارئین کرام! میری نظر میں رسول اکرم ؐ کے مقام و مرتبہ اور پیغام کو سمجھنے کے لئے دین مبین کی حقیقت سے آگاہی ازحد ضروری ہے۔ اسلام یا کسی بھی مذہب کو اس کے خارجی مظاہر کے ذریعے سے سمجھنا جیسا کہ آج کل معاشرے میں رائج ہے، درست نہیں ہے۔ اسلام درحقیقت، حقیقت وجود و حیات اور کائنات کی روحانی تعبیر پر ایمان کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اصلاح سے مربوط قواعد و ضوابط، قوانین اور احکام اور ان کی پاسداری کا مجموعہ ہے، جن کی دعوت انبیائے کرام علیہم السلام نے مختلف ادوار میں دی اور جنھیں مرحلہ وار تکمیل کے مراحل تک پہنچایا گیا۔ یہ وہی منہج ہے، جس کی جانب ابراہیم خلیل اللہ، موسٰی کلیم اللہ، عیسٰی روح اللہ اور دیگر انبیائے کرام نے اپنی اپنی مخاطب اقوام کو متوجہ کیا۔ اسی لئے نبی کریم ؐ کی دعوت میں ماقبل کے انبیاء کی نبوت پر ایمان کو لازم قرار دیا گیا۔ ہم عموماً اسلام کی تاریخ رسالت ماب ؐ کی بعثت کے بعد سے شروع کرتے ہیں، جو یقیناً غلط ہے۔ اسلام یعنی سلامتی و تسلیم حق کی وہ راہ جو اللہ کو پسند ہے کہ اس پر چل کر بندے اس تک پہنچیں اور جسے حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے ہی متعارف کروا دیا گیا تھا۔
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی
اس آیہ کریمہ میں خداوند کریم اپنے حبیب کے ذریعے فقط مسلمانوں سے نہیں بلکہ عالم انسانیت سے مخاطب ہے، اس اعلان کے مخاطب آدم اول تا آدم آخر تمام انسان ہیں۔ اگر انسان طول تاریخ میں پیش آنے والے سیاسی، سماجی، اقتصادی و معاشی مسائل اور آنے والے ترقی یافتہ دور کے نت نئے مسائل جو ہمارے وہم و گمان سے بھی باہر ہیں، کا اندازہ لگا کر اس جملے کو پڑھے تو اسے بآسانی احساس ہوسکتا ہے کہ کتنا عظیم کام ختم المرسلینؐ کے ذریعہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔

عقل انسانی بجا طور اس ہستی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ انسانیت سے محبت کا تقاضا بھی ہے اور علم کی ضرورت بھی۔ انسانی تجسس یقیناً اس بات کا متلاشی ہے کہ وہ کون سی خصوصیات و صلاحیات تھیں، جنہوں نے ایک انسان کو اس مقام اور درجے پر پہنچایا کہ وہ اللہ کا کامل و اکمل نمائندہ اور اسوۃ حسنہ بن کر اس کے دین کی تکمیل کرنے والا بنے۔ روحانی ترقی کا متلاشی ہر انسان اس راہ سے گزرے بغیر ہرگز تکامل نہیں پاسکتا۔ انہی تقاضوں کے پیش نظر اس عظیم ہستی کے قول و فعل کو پرکھنے اور سمجھنے کا عمل مطالعہ سیرت کے عنوان سے علوم انسانی میں شامل ہوا۔ سترہ ربیع الاول جو بعض روایات کے مطابق رسالت ماب (ص) کا روز ولادت ہے، اسی روز فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی عالم ہستی میں آنکھ کھولی، یوں یہ پورا ہفتہ ہی خوشیوں سے لبریز رہا۔ کاش امت مظلوم کو عراق، یمن، بحرین، شام، لبنان، فلسطین، کشمیر، برما، لیبیا، قطیف، افغانستان اور نائجیریا کے جریحے نہ لگے ہوتے۔ ان دکھوں کے ہمراہ خوشی کرنا بہت عجیب لگتا ہے۔ لاکھوں خانماں برباد انسان، ہزاروں مجروحین، سینکڑوں جنازے اس پر یہ درد کہ مارنے والا کوئی اور نہیں بلکہ کلمہ گو مسلمان ہیں، ناقابل برداشت ہے اور کسی بھی خوشی کو غم میں بدلنے کے لئے کافی ہے، تاہم ان ہستیوں کی یادگاروں کو زندہ رکھنا اور منانا بھی ازحد اہم ہے، جنہوں نے انسانیت کو راز زندگی سے متعارف کروایا اور اخروی سعادت کی راہیں کھول کھول کر بیان کیں۔ کاش امت مسلمہ ان شخصیات کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اپنے دکھوں کا مداوا کرسکتی۔
خبر کا کوڈ : 508712
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش