0
Tuesday 29 Dec 2015 14:50
17 ربیع الاول ولادت باسعادت فخر دوعالم حضرت محمد مصطفی (ص) کی مناسبت سے

رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
تحریر: ناصر شکریان

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت انتہائی وسیع اور عالیرتبہ پہلووں پر مشتمل ہے جو روحانیت کے لحاظ سے سدرۃ المنتھی اور معراجی پرواز میں قاب قوسین او ادنی کے مرتبے پر فائز تھی۔ خداوند متعال نے آپ (ص) کے اخلاق کے بارے میں فرمایا: انك لعلي خلق عظيم [قلم / 4]۔ "بالتحقیق آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں"۔ خداوند متعال نے قرآن کریم میں نبی اکرم (ص) کو ہر عصر اور ہر نسل کے انسانوں کیلئے اسوہ اور نمونہ قرار دیا ہے۔ لیکن اسلامی معاشروں نے اس قدر عظیم ذخیرے کا مالک ہونے کے باوجود اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ خداوند متعال نے پوری امت مسلمہ پر زور دیا ہے کہ وہ پیغمبر اکرم (ص) کی شخصیت کو اپنے لئے رول ماڈل قرار دیں لہذا ہر مسلمان شخص کو چاہئے کہ وہ نبی اکرم (ص) کی شخصیت کے ہر پہلو کا بغور مطالعہ کرے اور انہیں اپنی زندگی کا اسوہ قرار دے۔ تحریر حاضر میں ہم پیغمبر اکرم (ص) کی سیرت میں "رحمت للعالمین" کے مفہوم کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ 
 
رحمت کا معنی و مفہوم:
مفسرین کے درمیان معروف ہے کہ "رحمان" کی صفت عام رحمت پر دلالت کرتی ہے جس میں تمام انسان چاہے وہ مسلمان ہوں یا کافر، نیک ہوں یا بد سبھی شامل ہیں۔ خدا کی نامحدود رحمت سب پر سایہ کئے ہوئے ہے۔ تمام انسان زندگی اور ایسی ہی بے شمار نعمتوں سے بہرہ مند ہیں۔ لیکن "رحیم" کی صفت خدا کی خاص رحمت کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں صرف خدا کے صالح اور خاص بندے شامل ہیں۔ لہذا رحمان ہر جگہ مطلق جبکہ رحیم مقید صورت میں ذکر ہوتی ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "الرحمان بجمیع خلقہ الرحیم بالمومنین خاصۃ"۔ ترجمہ: "(خدا) اپنی تمام مخلوق کی نسبت رحمان جبکہ صرف مومنین کی نسبت رحیم ہے"۔ [تفسیر المیزان، جلد 1، صفحہ 24]۔
 
رحمت الہی انتہائی وسیع معنی و مفہوم کا حامل ہے۔ خداوند متعال فرماتا ہے: "رحمتی وسعت کلِّ شی" ترجمہ: "میری رحمت کی وسعت ہر چیز پر مشتمل ہے"۔ [سورہ اعراف / آیہ 156]۔ اسی طرح ارشاد خداوندی ہوتا ہے: "کتب ربکم علی نفسہ الرحمہ"۔ ترجمہ: "تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو واجب کر رکھا ہے"۔ [سورہ انعام / آیہ 54]۔ رحمت کے دو پہلو ہیں: 1۔ روحانی اور 2۔ مادی۔ بعض اوقات رحمت انسان کے روحانی پہلو سے متعلق ہے اور بعض اوقات اس کی مادی زندگی سے متعلق ہے جبکہ بعض موارد میں رحمت انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی دونوں پر اپنا سایہ قائم کر لیتی ہے۔ قرآن کریم میں رحمت الہی کے کئی مصادیق ذکر ہوئے ہیں۔ ہدایت، دشمن سے نجات، برکت والی بارش، دوسری نعمتیں جیسے نور اور ظلمت، شب و روز اور اکثر موارد میں بہشت اور قیامت کے دن خدا کی عنایات اور نعمتیں رحمت کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ اسی طرح گناہوں کی مغفرت، توبہ کی قبولیت، عیوب پر پردہ ڈالنا، گذشتہ غلطیوں کا ازالہ کرنے کا موقع فراہم کرنا وغیرہ بھی خدا کی رحمت اور مہربانی کے نمونے کے طور پر ذکر ہوئے ہیں۔ 
 
نبی اکرم (ص)، پیغمبر رحمت:
خدای رب العزت نے حضرت محمد مصطفی (ص) کو "رحمت للعالمین" کے عنوان سے مبعوث فرمایا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: "و ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین"۔ [سورہ انبیاء / آیہ 107]۔ جس طرح "رحمانیت خداوند" ہر زمانے اور ہر علاقے کے انسانوں پر سایہ کئے ہوئے ہے اور اس میں نہ صرف خدا کے پیروکار اور مومنین شامل ہیں بلکہ دنیا کے تمام انسان چاہے وہ اچھے ہوں یا برے، مسلمان ہوں کا کافر سبھی شامل ہیں، اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) کی رحمت بھی انتہائی وسیع ہے اور دنیا کے تمام انسان اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ آج کی دنیا جو ظلم و ستم اور فساد و تباہی سے پر ہو چکی ہے اور اس کے کونے کونے میں جنگ کی آگ شعلہ ور ہے اور طاقتور قوتیں مستضعفین کے حقوق پامال کرنے میں لگی ہوئی ہیں، ایسے وقت میں رحمت للعالمین کا مفہوم ہر وقت سے زیادہ کھل کر سامنے آتا ہے۔ اس سے بڑی اور رحمت کیا ہو سکتی ہے کہ رسول اکرم (ص) نے بشریت کو ایسا دین متعارف کروایا ہے جو اس تمام ظلم و ستم، جہالت، اور فساد کے خاتمے کا مفید نسخہ ثابت ہو سکتا ہے۔ نبی اکرم (ص) کی طرف سے لائے گئے الہی پیغام میں ارشاد ہوتا ہے: " و لقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر ان الارض يرثها عبادي الصالحون"۔ ترجمہ: "ہم نے تورات کے بعد زبور میں لکھا ہے کہ بالتحقیق میرے صالح بندے زمین کے حقیقی وارث قرار پائیں گے"۔ [سورہ انبیاء / آیات 105، 106]۔ 
 
اسی طرح آیہ مبارکہ "و ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین" میں "عالمین" کا لفظ اور استثناء (الا) کا استعمال اور لفظ "رحمت" کا نکرہ آنا انتہائی وسیع مفہوم رکھتا ہے جس کے مطابق اس رحمت میں ہر زمانے اور عصر کی کائنات کی تمام اشیاء حتی ملائکہ اس رحمت سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ جب یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص) نے جبرائیل سے پوچھا: "ھل اصابک من ھذہ الرحمہ شیئی؟"۔ ترجمہ: "کیا تمہیں بھی اس رحمت میں سے کچھ نصیب ہوتا ہے؟"۔ تو جبرائیل نے جواب دیا: "جی ہاں، میں اپنی عاقبت کے بارے میں پریشان تھا لیکن آپ (ص) کی ذات بابرکت کی وجہ سے جو کائنات کی تمام موجودات کیلئے رحمت ہیں میری یہ پریشانی رفع ہو گئی"۔ [تفسیر مجمع البیان، سورہ انبیاء، آیہ 107]۔ خود رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں: "انّما بعثت رحمۃ"۔ ترجمہ: "بالتحقیق میں رحمت کے طور پر مبعوث ہوا ہوں"۔ [سیرہ نبوی (ص)، جلد 3، صفحہ 75]۔ دنیا کے تمام انسان چاہے وہ مسلمان ہوں یا کافر اس رحمت میں شامل ہیں کیونکہ دین مبین اسلام سب کی نجات کا باعث ہے۔ اب اس دین سے استفادہ کرنا یا نہ کرنا خود افراد پر منحصر ہے اور کسی کی جانب سے دین مبین اسلام سے صحیح طور پر بہرہ مند نہ ہونا رسول اکرم (ص) کی رحمت کے محدود ہونے کو ثابت نہیں کرتا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہر قسم کے وسائل اور ماہر اطباء پر مشتمل ایک اسپتال موجود ہو اور بعض افراد اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شفایاب ہو جائیں جبکہ بعض دوسرے اسپتال سے رجوع نہ کرنے کے باعث محروم رہیں۔ بعض افراد کے رجوع نہ کرنے سے اس اسپتال کے عمومی فائدے پر کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ 
 
رسول اعظم (ص)، الہی رحمت و محبت کے مظہر:
پیغمبر اکرم (ص) کی رحمت اور محبت درحقیقت خداوند متعال کی نامحدود رحمت اور محبت کی تجلی ہے۔ اس دنیا اور آخرت میں انسانوں کو نصیب ہونے والی رحمت نبوی (ص) دراصل اس الہی رحمت کی پرتو ہے جو تمام اسلامی احکام حتی حدود اور جہاد میں جلوہ گر ہے۔ اسلام کے تمام قوانین انسان اور انسانی معاشرے کیلئے سراسر رحمت اور برکت کا باعث ہیں۔ جس طرح خدا کی رحمت دو قسم کی ہے یعنی رحمانیت اور رحیمیت اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) کی رحمت بھی دو قسم کی ہے۔ قرآن کریم کی آیات سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ نبوت درحقیقت عالم بشریت پر خدا کی رحمت اور لطف و عنایت کا مصداق ہے۔ اگر انبیاء علیھم السلام نہ ہوتے تو انسان اپنی فلاح و نجات کا راستہ ہر گز نہیں پا سکتے تھے۔ اسی وجہ سے پیغبر اکرم (ص) کی اوصاف میں سے ایک صفت مومنین سے محبت بیان کی گئی ہے۔ ارشاد خداوندی ہوتا ہے: "و بالمومنین رئوف رحیم"۔ ترجمہ: "(رسول خدا ص) مومونین سے مہربان اور ان سے محبت کرنے والے ہیں"۔ [سورہ توبہ / آیہ 128]۔
 
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں پیغبر اکرم (ص) کی رحمانیت کا ذکر بھی ہوا ہے اور رحیمیت کا بھی۔ یعنی ایک طرف تمام انسان، چاہے وہ کافر ہوں یا مسلمان رحمت نبوی (ص) میں شامل ہیں اور دوسری طرف مومنین کیلئے ایک خاص قسم کی رحمت نبوی (ص) ہے جو صرف انہی سے مخصوص ہے۔ خداوند متعال قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تم کیوں ایسے نبی پر ایمان نہیں لاتے جو حتی کفار کیلئے بھی باعث رحمت ہے، یہ انتہائی احمقانہ فیصلہ ہے۔ رسول اکرم (ص) کی عملی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے دروازے پر آنے والے کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے تھے۔ ایک دن ایک شخص نے اپنی بیوی کو آنحضور (ص) کے پاس بھیجا اور ان سے درخواست کی کہ ادھار کے طور پر اپنا پیراہن دے دیں۔ پیغمبر رحمت (ص) نے اپنا پیراہن اس کو دے دیا۔ اس موقع پر یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی: " ولا تبسطها كل البسط"۔ ترجمہ: "خدا کے راستے میں حد سے زیادہ انفاق مت کریں"۔ [سورہ اسراء / آیہ 29]۔ 
 
پیغمبر رحمت (ص)، عذاب الہی سے بچاو کا باعث:
خداوند متعال فرماتا ہے: "وَما كان الله ليعذبهُم وَ أَنتَ فيهم"۔ ترجمہ: "جب تک آپ (ص) ان میں موجود ہیں خدا ہر گز ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا"۔ [سورہ انفال / آیہ 33]۔ رسول اکرم (ص) کا بابرکت وجود گنہکاروں اور کفار پر عذاب الہی نازل ہونے میں رکاوٹ ہے۔ شیعہ اور اہلسنت کی کتب میں حضرت علی علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی گئی ہے: "كان في الارض امانان من عذاب اهله وَ قَد رَفَعَ اَحَدهما فَدونكم الا خره فتمسكوا به وَ قراء هذه الايه"۔ ترجمہ: "زمین پر عذاب الہی سے بچنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک رسول خدا (ص) کا بابرکت وجود جو اب رحلت فرما چکے ہیں اور دوسرا استغفار جس سے آپ لوگ رجوع کر سکتے ہیں۔ پھر مذکورہ بالا آیت کی تلاوت فرمائی"۔ [نہج البلاغہ / حکمت 88]۔ اپنی امت کیلئے عذاب الہی سے نجات کا باعث ہونے کا اعزاز صرف نبی اکرم (ص) کو حاصل ہے کیونکہ آپ (ص) سے پہلے جتنے بھی انبیاء آئے ان کی امتیں عذاب الہی سے محفوظ نہیں تھیں۔ اسی طرح رسول اکرم (ص) کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ آپ (ص) نے کسی پر نفرین نہیں کی اور نہ ہی کسی پر عذاب الہی نازل ہونے کی درخواست کی۔ جبکہ آپ (ص) سے قبل تمام انبیاء نے اپنی قوم کے سرکش اور منکر افراد پر عذاب الہی نازل ہونے کی درخواست کی تھی۔ جب بھی مسلمانوں میں سے کوئی شخص آنحضور (ص) سے یہ درخواست کرتا تھا کہ وہ خدا سے مشرکین پر عذاب نازل کرنے کی درخواست کریں تو آپ (ص) فرماتے تھے: "میں رحمت بن کر آیا ہوں نہ عذاب بن کر"۔ [سیرہ نبوی (ص)، صفحہ 132]۔ اور مشرکین کی ہدایت کیلئے دعا فرماتے تھے۔ 
 
فتح مکہ کے موقع پر جب رسول اکرم (ص) مجاہدین کے ہمراہ شہر مکہ میں داخل ہوئے تو سب پر تاکید کی کہ مشرکین کی توہین، ان کے اموال کی لوٹ مار اور ان پر ظلم و ستم سے پرہیز کیا جائے۔ آپ (ص) نے اس موقع پر فرمایا: "الیوم يوم المرحمه، اذھبوا انتم الطلقا"۔ ترجمہ: "آج کا دن رحمت اور مہربانی کا دن ہے، جائیں آپ سب لوگ آزاد ہیں"۔ [تفسیر نمونہ، جلد 10، صفحہ 66]۔ پیغمبر اکرم (ص) حتی اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی اپنی امت کے گنہکار افراد کیلئے پریشان تھے۔ جب ملک الموت آپ (ص) کی روح قبض کرنے کیلئے حاضر ہوا تو آپ (ص) نے فرمایا صبر کرو، میرے بھائی جبرائیل کو آنے دو۔ جب جبرائیل تشریف لائے تو آپ (ص) نے فرمایا کیوں دیر سے آئے؟ جبرائیل نے عرض کی یا رسول اللہ (ص) میں بہشت کو سجانے میں مصروف تھا۔ آپ (ص) نے فرمایا پہلے مجھے یہ بتاو کہ میری امت کا کیا بنے گا؟ جبرائیل خدا کے حضور جا کر واپس لوٹے اور کہا کہ خداوند متعال سلام کہتا ہے اور فرما رہا ہے کہ آپ (ص) کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کا حق دے دیا گیا ہے۔ [سیرہ نبوی (ص)، صفحہ 132]۔ 
 
امام علی علیہ السلام رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "میں (ص) قیامت کے دن شفاعت کے مقام پر کھڑا ہوں گا اور اس قدر گہنکاروں کی شفاعت کروں گا کہ خدا کہے گا: اے محمد (ص) کیا اب راضی ہو؟ میں جوب دوں گا: جی ہاں، راضی ہوں"۔ [تفسیر نمونہ، جلد 27، صفحہ 99]۔ قیامت کے دن تمام انسان اور انبیاء یہ کہ رہے ہوں گے کہ میرا کیا بنے گا؟ لیکن نبی اکرم (ص) کہ رہے ہوں گے میری امت، میری امت۔ 
 
پیغمبر اکرم (ص)، عفو و درگذر کا مظہر:
رسول خدا (ص) عام افراد کے ساتھ انتہائی خوش اخلاقی اور مہربانی سے پیش آتے تھے اور اگر کسی شخص کی جانب سے آپ (ص) کے حق میں کوئی گستاخی ہو جاتی تھی تو اسے نظرانداز کر دیتے اور دوسروں کی غلطیوں کو معاف فرما دیتے تھے۔ آپ (ص) کبھی بھی کسی کے بارے میں کینہ یا دشمنی اپنے دل میں نہیں رکھتے تھے اور ہر گز کسی سے انتقام لینے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ آپ (ص) کی عظیم روح ہر قسم کے نفسانی تمایلات اور ذاتیات سے بالاتر تھی اور وہ عفو و درگذر کو انتقام پر ترجیح دیتے تھے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "رسول خدا (ص) سب سے زیادہ سخی اور معاف کرنے والے تھے اور لوگوں سے برتاو میں بہت بزرگواری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ وہ (ص) معذرت خواہی کرنے والے کی معذرت قبول کرتے تھے۔ کبھی بھی برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ دوسروں کی بداخلاقی اور توہین کے مقابلے میں انتہائی بزرگواری اور متانت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ جب کوئی ان سے بداخلاقی کرتا تھا تو آپ (ص) اپنے اصحاب کو دستور دیتے کہ اسے کچھ عطا کر دیا جائے"۔ [سنن النبی (ص)، صفحہ 75]۔ 
 
جنگ احد میں جب آنحضور (ص) کے چچا حضرت حمزہ کے جنازے کی توہین کی گئی اور اسے مثلہ کر دیا گیا تو آپ (ص) نے مجاہدین کو انتقام کے طور پر مشرکین کے جنازوں کی بے حرمتی سے روک دیا۔ حتی جب مکہ فتح ہو گیا تب بھی اپنے چچا کا جگر چپانے والی ابوسفیان کی بیوی ہند سے انتقام نہیں لیا۔ اسی طرح قلعہ خیبر کی فتح کے بعد بعض یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ انہوں نے رسول اکرم (ص) کیلئے کھانا بھیجا اور اس میں زہر ملا دیا۔ آپ (ص) کو جب معلوم ہوا تو آپ (ص) نے انہیں سزا نہیں دی۔ یہودی عورت جو آپ (ص) کے منہ میں زہر ڈالنا چاہتی تھی کو بھی معاف کر دیا۔ غزوہ تبوک سے واپسی پر بعض منافقین نے آپ (ص) پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اسی وقت آسمان پر بجلی چمکی اور رسول خدا (ص) نے ان سب کے چہرے دیکھ لئے لیکن ان کو ظاہر کرنے اور انہیں سزا دینے سے پرہیز کیا۔ [سیرہ نبوی (ص)، صفحہ 127]۔ 
 
عبداللہ بن ابی مدینہ کا مشہور منافق تھا اور وہ ہمیشہ پیغمبر اکرم (ص) کے خلاف افواہیں اور جھوٹی خبریں اڑاتا رہتا تھا۔ کئی بار اصحاب نے آپ (ص) سے چاہا کہ اسے سزا دیں لیکن آپ (ص) نے ایسا نہ کیا اور جب وہ بیمار پڑ گیا تو آپ (ص) اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے۔ اکثر اوقات مسلمان آپ (ص) سے کہتے تھے کہ مشرکین کو بددعا دیں کہ ان پر عذاب نازل ہو۔ آپ (ص) نہ صرف انہیں بددعا نہیں دیتے تھے بلکہ ان کے حق میں دعا کرتے تھے۔ رسول خدا (ص) فرماتے ہیں: " ارحموا من في الارض يرحمكم من في السماء"۔ ترجمہ: "زمین والوں پر رحم کرو تاکہ آسمان والا تم پر رحم کرے"۔ [مستدرک الوسائل، جلد 9، صفحہ 159]۔ 
خبر کا کوڈ : 508783
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش