0
Thursday 31 Dec 2015 23:03

الرمادی کی فتح، عراق سے داعش کے مکمل خاتمے کی جانب اہم قدم

الرمادی کی فتح، عراق سے داعش کے مکمل خاتمے کی جانب اہم قدم
تحریر: عبدالباری عطوان

عرب روزنامہ "رای الیوم" انٹرنیٹ ایڈیشن کے ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے عراق میں صوبہ الانبار کے مرکز "الرمادی" پر عراقی فورسز کے قبضے کو داعش کے خلاف جنگ میں عراق کی ایک اہم کامیابی قرار دیا، جس کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ ان کے مقالے کا اردو ترجمہ اسلام ٹائمز کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
اس میں کوئی شک نہیں کہ دو سپر پاورز، امریکہ اور روس، اور اسی طرح مشرق، مغرب، شمال اور جنوب سے تقریباً سو ممالک نے نئے سال کے آغاز تک عراق اور شام میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو ختم کرنے اور اسے اس گروہ کی مکمل نابودی کا مقدمہ قرار دینے پر اتفاق کر رکھا ہے۔ اس معاہدے کا آغاز عراق آرمی کی ٹریننگ اور اسے اسلحہ کی فراہمی اور اس کے بعد پیش مرگ کرد فورسز کی تقویت سے ہوا، جس کے نتیجے میں "سنجار" کا کوہستانی سلسلہ، "تکریت" اور "بیجی" داعش کے قبضے سے چھڑا لئے گئے اور اسی طرح داعش کے زیر قبضہ تیل کے کنووں اور تیل سپلائی کرنے والے کنٹینرز پر بمباری کے ذریعے اس دہشت گرد گروہ کی معیشت پر کاری ضرب لگائی گئی۔ اگر داعش کے 20 اہم کمانڈرز کے ہمراہ "ابو عمر الشیشانی" کی گرفتاری اور الرمادی کی آزادی کے دوران اس تکفیری دہشت گرد گروہ کے ایک ہزار سے زائد جنگجووں کی ہلاکت پر مبنی خبروں میں صداقت ہو تو یہ واقعاً داعش کیلئے ایک بڑی شکست ہوگی اور عام طور پر شہروں کی آزادی کیلئے انجام پانے والے آپریشنز میں ہلاکتوں کی تعداد اس قدر ہوجاتی ہے۔

عراق آرمی اور سکیورٹی فورسز نے الرمادی کے معرکے میں اپنی وہ خود اعتمادی اور طاقت دوبارہ حاصل کر لی ہے جسے وہ موصل اور الرمادی پر داعش کے قبضے، ہزاروں عراقی فوجیوں کے بھاگ کر داعش سے مل جانے، کسی مزاحمت کے بغیر موصل کا داعش کے ہاتھ لگ جانے اور بعض حکومتی اہلکاروں کی غداری کے بعد کھو چکی تھیں۔ تکفیری دہشت گرد عناصر کے مقابلے میں پسپائی نے عراق آرمی پر تنقید کے دروازے کھول دیئے تھے اور حتٰی امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے اس بارے یہاں تک کہہ دیا کہ: "عراق آرمی میں لڑنے کا جذبہ نہیں پایا جاتا۔" گویا یہ معلوم نہیں کہ داعش سے الرمادی شہر کی آزادی میں امریکی مسلح افواج کی شرکت کس حد تک تھی، لیکن اس وقت عراق میں امریکہ کے 5 ہزار فوجی موجود ہیں جبکہ امریکی صدر براک اوباما نے ایک ماہ قبل اعلان کیا تھا کہ وہ اسپشل فورسز کے نئے دستے عراق بھیجیں گے۔ الرمادی کی آزادی کیلئے انجام پانے والے آپریشن میں امریکی ائیر فورس نے بھی کردار ادا کیا ہے۔

دوسری طرف داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کا نیا ریکارڈ شدہ بیان سامنے آیا ہے، جو انتہائی غیر متوقع ہے کیونکہ اس میں البغدادی نے اسرائیل کو مخاطب قرار دے کر اسے حملوں کی دھمکی دی ہے۔ ابوبکر البغدادی کے اس اقدام سے معلوم ہوتا ہے کہ داعش کے گرد گھیرا تنگ ہوچکا ہے اور البغدادی اپنے جنگجووں پر دباو کا احساس کر رہا ہے۔ اس نے اس آڈیو ٹیپ میں کہا: "ہم نے ایک لمحہ بھی اسرائیل کو فراموش نہیں کیا اور انشاء اللہ اسے فراموش نہیں کریں گے۔ انشاء اللہ بہت جلد آپ سنیں گے کہ مجاہدین نے آپ کا محاصرہ کر لیا ہے۔" یہ پہلی بار ہے کہ ابوبکر البغدادی نے اسرائیل کے بارے میں بات کی ہے اور اسے شدید حملوں کی دھمکی دی ہے۔ میری نظر میں گذشتہ تین برس کے دوران داعش کی جانب سے اس بہانے سے کہ "قریبی دشمن" پر پہلے توجہ دینی چاہیئے اور "دور کے دشمن" کی باری بعد میں آئے گی، مسئلہ فلسطین سے چشم پوشی کرنے کی وجہ سے اس دہشت گرد گروہ پر اسرائیل سے وابستگی کے الزامات عائد ہونا شروع ہوگئے تھے۔ سوشل میڈیا پر اس رائے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ داعش کو امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔

دارالحکومت بغداد کی چابی تصور کئے جانے والے شہر "الرمادی" پر عراقی فورسز کی عظیم فتح کے بعد اکثر ماہرین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ: کیا یہ کامیابی داعش کے خاتمے اور اس کے زوال کی الٹی گنتی شروع ہو جانے کا باعث بنے گی؟ فی الحال کسی بھی خوش فہمی کا شکار ہونا قبل از وقت ہوگا، اگرچہ فاتح افواج کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ الرمادی میں خوشی کا جشن منائیں۔ لیکن فاتح قوتوں کو جان لینا چاہیئے کہ اگر وہ اس کامیابی سے مغرور ہو جائیں اور داعش کے پھیلاو کی حقیقی وجوہات اور عوامل سے غافل ہو جائیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کی یہ خوشی زیادہ عرصہ قائم نہیں رہے گی۔ داعش جنگجووں کی جانب سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے اپنی پوری طاقت کو عراق میں آخری مورچے کے طور پر موصل میں جمع کرنے کے باعث اس شہر سے داعش کا قبضہ چھڑوانے کا معرکہ "معرکوں کی ماں" قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ معرکہ کچھ دنوں بعد ہی شروع ہو جائے گا، لیکن یہ جنگ کوئی آسان جنگ نہیں ہوگی اور جتنے کم عرصے میں الرمادی فتح ہوا ہے، اتنی کم مدت میں موصل فتح نہیں ہوگا۔ ایک اور اہم سوال بی پلان سے متعلق ہے، جو روسی اور امریکی اتحادوں نے سامنے رکھا ہوا ہے اور وہ اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے داعش کے خاتمے کا انتظار کر رہے ہیں۔ داعش کے خاتمے کے بعد اس کی طاقت اور مقام کی متبادل قوت کون سی ہوگی؟ یہی سوال داعش کے بارے میں پوچھا جاسکتا ہے کہ داعش کے پاس اپنے خلاف گھیرا تنگ ہونے اور وجود خطرے میں پڑ جانے کی صورت میں حکمت عملی کیا ہوگی۔؟

لیبیا، عراق اور یمن کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ امریکہ نے عراق میں قبضے، نابودی، قتل و غارت اور سیاسی نظام کی تبدیلی کے بعد کوئی جامع منصوبہ تیار کر رکھا ہوگا۔ امریکہ سے وابستہ دوسرے ممالک اور حکومتوں کا بھی یہی حال ہے۔ داعش کے خاتمے کے بعد پیش آنے والے واقعات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ شدت پسندانہ اقدامات، دہشت گردی، خفیہ سرگرمیاں، حملوں کا دائرہ وسیع کرنا اور انتقامی کارروائیوں میں اضافہ۔ دوسری طرف الرمادی، الرقہ اور موصل میں داعش کی ممکنہ شکست جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں، کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوگا کہ داعش مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔ ایک جاپانی صحافی نے میری نئی کتاب “Islamic State The Digital caliphate” کے بارے میں مجھ سے انٹرویو لینے کیلئے لندن میں ملاقات کی اور پوچھا: "کیا وجہ ہے کہ امریکہ اعراب اور مسلمانوں کی سرزمین پر قبضہ کرنے کے بعد انہیں اقتدار سے دور کرنے اور سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔؟" اس نے مزید کہا: "دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے جاپان پر قبضہ کرنے کے بعد اس کی تعمیر نو کا کام کیا اور جاپان کی بکھری ہوئی فوج کو بھاری معاوضہ دیا اور ان کیلئے پینشن مقرر کی۔ کیا وجہ ہے کہ امریکہ نے یہ کام عراق پر قبضہ کرنے کے بعد عراق اور عراقی فوجیوں کے ساتھ نہیں کیا۔؟" میں نے اس کے جواب میں کہا:"کیونکہ امریکہ عرب شہریوں اور مسلمانوں سے متنفر ہے اور انہیں اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ کیا سابق امریکی صدر جرج بش جونیئر کے یہ الفاظ نہیں کہ میں نے عراق پر قبضے کیلئے مسلح افواج کو بھیج کر اعراب اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کا آغاز کیا ہے۔؟ اسوقت بھی امریکہ کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر اسی پالیسی کا اظہار کیا ہے اور امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ میں ہونیوالی سروے رپورٹس کے مطابق اسے اپنے حریفوں پر برتری حاصل ہے اور یہ امریکی معاشرے کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ جو کچھ نظر نہیں آرہا وہ اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے جو نظر آرہا ہے۔" 
خبر کا کوڈ : 509339
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش