0
Saturday 9 Jan 2016 21:12

مزاحمت اسلامی اور دولت اسلامی میں فرق!! (پہلا حصہ)

مزاحمت اسلامی اور دولت اسلامی میں فرق!! (پہلا حصہ)
تحریر: صابر کربلائی

مزاحمت اسلامی یا اسلامی مزاحمت، اس کا آغاز تو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین پر غاصب اور ناجائز ریاست اسرائیل کے ناپاک وجود کے قیام کے ساتھ اسی روز ہوگیا تھا، جب فلسطینی مظلومین اور محرومین نے اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے غاصب اسرائیل کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا، حالات و واقعات اور تاریخ گواہ ہے کہ عالمی سامراجی قوتوں اور بوڑھے استعمار برطانیہ سمیت امریکی اور یورپی ممالک کی ایماء پر عالم اسلام کے قلب فلسطین میں خنجر (اسرائیل) کو گھونپا گیا اور پھر مظلوم ملت فلسطین کو دربدر کر دیا گیا۔ حتٰی مظلوم فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا، یہاں تک کہ جن لوگوں نے اپنے گھروں کو صیہونیوں کے حوالے کرنے سے انکار کیا، ان کے گھروں کو ایسی حالت میں مسمار کیا گیا کہ وہ گھروں میں موجود تھے اور ملبے تلے دبا دیئے گئے، اس طرح کی درجنوں کیا شاید سیکڑوں اور ہزاروں داستانیں موجود ہیں، جو سرزمین فلسطین پر 15 مئی 1948ء کو رونما ہوئیں اور نتیجے میں ہزاروں بے گناہ فلسطینی مرد و خواتین اور معصوم بچوں سمیت بزرگوں کا قتل عام ہوا اور ساتھ ہی ساتھ سات لاکھ سے زائد افراد کو ایک ہی روز میں ہجرت کرنا پڑی اور فلسطین کے پڑوسی علاقوں یعنی لبنان، اردن، شام اور مصر میں پناہ لینا پڑی۔

مقالہ کے پہلے حصے میں کوشش کی گئی ہے کہ اسلامی مزاحمت کے بارے میں گفتگو کی جائے اور تھوڑا سا اسلامی مزاحمت کے پس منظر کو بیان کیا جائے، جبکہ مقالہ کے دوسرے حصے میں دولت اسلامیہ اور مزاحمت اسلامی کے فرق کو بیان کیا جائے گا۔ اسلامی مزاحمت کا آغاز صیہونی کے ان مظالم کے خلاف اسی روز ہوگیا تھا، البتہ یہ مزاحمت معمولی نوعیت کی اور وسائل کی کم دستیابی کے باعث اسرائیلی جارحیت اور مظالم کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتور نہ ہوسکی، اسی اثناء میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے فلسطین کے بعد عربوں سے کئی جنگیں لڑیں حالانکہ عرب ممالک نے یہ جنگیں دراصل فلسطین کو صیہونی چنگل سے نجات دلوانے کے لئے لڑی تھیں، تاہم عرب ممالک کی افواج 1967ء میں اور پھر اسی طرح 1973ء کی عرب اسرائیل جنگوں میں پائیداری اور استقامت نہ دکھا سکیں اور نتیجے میں اسرائیل نے ایک طرف بیت المقدس پر قبضہ جما لیا تو دوسری جانب مصر میں سینا کا علاقہ، شام میں گولان کی پہاڑیاں، لبنان کے شعبا فارمز اور اردن کی وادی کو اپنے زیر تسلط لے لیا۔ یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ جن عرب ممالک اور ان کی افواج کی بہادری کے چرچے مائیں اپنے بچوں کو سنایا کرتی تھیں، یہ سب کے سب غاصب اسرائیل کے سامنے بے بس ہوچکے تھے۔

تمام تر صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے اپنے پہلے سے طے شدہ خفیہ منصوبے کو آشکار کرنے کا ناپاک عزم کر لیا، جی ہاں اسرائیل اپنی ناپاک ریاست کے وجود کی سرحدوں کو لبنان، شام، عراق، کویت اور مکہ مکرمہ سمیت مدینہ منورہ اور جنگ خیبر کے مقام تک پھیلا کر ایک ''گریٹر اسرائیل'' (عظیم تر اسرائیل'' بنانے کی تگ و دو میں لگ گیا،) اس حوالے سے اسرائیل نے اپنا پہلا حملہ فلسطین کے پڑوسی ملک لبنان پر کیا کہ جس کی جنوبی سرحدیں مقبوضہ فلسطین کے ساتھ منسلک ہیں اور اسی طرح لبنان کی سرحدیں شام کے ساتھ بھی ہیں جبکہ شام کی شمالی سرحدیں مقبوضہ فلسطین کے ساتھ منسلک ہیں، اسرائیل 1978ء میں لبنان میں آ دھمکا اور یہاں جنوبی علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرنا شروع کر دیا جبکہ 1982ء میں اسرائیلی جنگی طیاروں نے لبنانی دارالحکومت میں موجود فلسطینی مہاجرین کی بستیوں صابرا اور شاتیلا کو بدترین بمباری کا نشانہ بنایا اور اس حملے کے ساتھ ہی پورے لبنان پر اپنا قبضہ جما لیا۔ حالانکہ عرب ممالک کی افواج ماضی میں اسرائیل کے سامنے شکست کھا چکی تھیں، لیکن کچھ نوجوان ایسے بھی موجود تھے، جو اس شکست کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور انہی نوجوانوں نے ہمیشہ غاصب صیہونی ریاست کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کو زندہ رکھا، یہ نوجوان خود فلسطین، مصر، عراق، اردن، شام، اور لبنان جیسے ممالک سے تعلق رکھتے تھے، لیکن ان کے اندر اسرائیل کے خلاف مبارزہ کا انگیزہ موجود تھا اور وہ فلسطین پر غاصبانہ تسلط کے خلاف تھے، پس انہوں نے جس راستے کا انتخاب کیا اسے مزاحمت کہا جاتا ہے، جس نے بعد میں اسلامی مزاحمت کا نام پایا۔

اسلامی مزاحمت کے ان سپوتوں نے اسرائیل کے خلاف ہر اس محاذ پر خود کو سرگرم عمل کر لیا، جہاں وہ سمجھتے تھے کہ اسرائیل کو کسی بھی طرح اور کسی بھی وقت معمولی سے معمولی اور زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جاسکتا ہے، وہ یہ کام انجام دیتے تھے، اسلامی مزاحمت کے ان فرزندوں نے اپنی جان کی قربانیاں پیش کیں، اپنے پیاروں کو اس راہ میں قربان کر دیا، خود صیہونی زندانوں میں اپنی زندگیوں کو قربان کیا، حتٰی اسلامی مزاحمت کے ان جانبازوں نے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا، لیکن فلسطین کی آزادی کو اپنا شعار اولین بنائے رکھا اور عہد کر لیا کہ قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی اور مظلوم فلسطینیوں کو غاصب صیہونی ریاست سے نجات دلوا کر ہی دم لیں گے۔ اس حریت کے راستے میں جہاں مسلمان نوجوانوں نے اپنا کردار ادا کیا، وہاں مسیحی، درز اور دیگر برادریوں سے تعلق رکھنے والے درد دل کے مالک حریت پسند بھی انہی جوانوں کے شانہ بشانہ رہے، حالانکہ اسلامی مزاحمت جو 1948ء سے 1980ء تک انتہائی کم وسائل اور کم نوعیت کے ساتھ جاری رہی، لیکن اس مزاحمت نے اسرائیل کو متعدد مرتبہ پریشانی اور دشواریوں میں گھیرے رکھا، اسلامی مزاحمت کا ایک نیا باب عین اس وقت کھلا جب 1982ء میں ایک طرف اسرائیل نے پورے لبنان پر قبضہ کر لیا تھا اور دوسری طرف اس واقعہ سے قبل سرزمین ایران میں اسلامی انقلاب کے سورج کی کرنیں طلوع ہوئیں۔

اسلامی انقلاب کے عظیم رہنما حضرت امام خمینی (رہ) نے انقلاب کی کامیابی کے پہلے روز ہی اس بات کا اعلان کیا کہ ایران میں آنے والا اسلامی انقلاب مظلوموں اور محروموں کا انقلاب ہے اور فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی بازیابی کے لئے ہر ممکنہ مدد اور تعاون کیا جائے گا۔ یوں تو لبنانی اور شامی نوجوان لبنان اور شام سے جا کر فلسطینی جوانوں کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف سرگرم عمل رہتے تھے، لیکن اس مرتبہ دشمن خود چل کر لبنان کی سرزمین پر آچکا تھا، لہذٰا اسلامی مزاحمت کے ان سپوتوں نے طے کر لیا کہ لبنان کو اسرائیل کا قبرستان بنا دیا جائے، پس ان جوانوں نے اسرائیل کے خلاف منظم جدوجہد شروع کر لی، دوسری جانب اس منظم گروہ جسے دنیا بعد میں حزب اللہ لبنان کے نام سے جاننے لگی، کی کارروائی کا فلسطینی جوانوں پر بھی اثر پڑنے لگا، ایک طرف فلسطینی جوان اور دوسری طرف لبنانی جوان اپنی اپنی سرزمینوں پر مشترکہ دشمن کے خلاف ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے کہ اٹھارہ سالہ جدوجہد میں غاصب اسرائیل کو 2000ء میں لبنان پر قبضہ ختم کرنا پڑا اور راہ فرار اختیار کرنا پڑی، لبنان اب پوری طرح آزاد ہوچکا تھا اور وہی اسرائیل کہ جس نے ماضی میں کئی عرب ریاستوں کو بیک وقت شکست دی تھی، آج پہلی مرتبہ تاریخ میں شکست خوردہ واپس لوٹ رہا تھا، دوسری طرف فلسطین میں اس فتح مبین کا جشن منایا جا رہا تھا، اور یہ پہلی مرتبہ تھا کہ اسلامی مزاحمت کے ان جانبازوں کی کامیابیوں کا پہلا باب کھلا تھا، جو ہمیشہ جاری و ساری رہنے والا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب لبنان میں حزب اللہ بن چکی تھی اور فلسطین میں اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے حماس وجود میں آچکی تھی اور یہ ساری برکتیں دراصل انقلاب اسلامی کی بدولت شروع ہوئی تھیں۔

اسلامی مزاحمت کی کامیابیوں کا باب کھلا تو اسرائیل سمیت دنیا کی کوئی طاقت اسلامی مزاحمت کے ان فرزندوں کو نہ روک سکی، کیونکہ اس کے بعد اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر یہ کوشش کی کہ کسی طرح لبنان پر اپنا کھویا ہوا تسلط واپس پا لیا جائے اور اسلامی مزاحمت کے باب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کیا جائے، تاہم اسرائیل نے 2006ء میں لبنان پر حملہ کیا، اس مرتبہ باقاعدہ جنگ لڑی گئی اور اس جنگ کا دورانیہ 33 روز رہا، جبکہ اس سے قبل اسرائیل نے عرب ممالک سے جتنی بھی جنگیں لڑیں تھیں، ان کا دورانیہ یا تو 6 روز تھا یا پھر چند گھنٹوں میں فیصلہ ہوگیا تھا، لیکن اس مرتبہ 33 روز گزرنے کے بعد اسرائیل کو یہ احساس ہوا تھا کہ اس کا بہت بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوچکا ہے اور وہ پورے لبنان پر تو کیا صرف لبنان کے سرحدی علاقوں میں بھی داخل ہونے کے قابل نہیں ہے، اس بدترین شکست کے بعد اسرائیل نے 2008ء میں فلسطینی پٹی غزہ کو نشانہ بنایا اور یہاں بھی 22 روز اپنا سر ٹکرانے کے بعد بڑے جانی نقصان کے ساتھ ذلت و رسوائی لے کر رخصت ہوا، اسی طرح اسرائیل نے 2012ء اور 2014ء میں بھی فلسطینیوں پر جنگیں مسلط کیں، تاکہ کسی طرح اپنے ادھورے مشن کی تکمیل کرسکے، لیکن اسلامی مزاحمت کے ان فرزندوں نے، خواہ وہ لبنان میں حزب اللہ کی صورت میں ہوں یا پھر فلسطین میں حماس کی صورت میں موجود ہوں، اسرائیل کو ہمیشہ بدترین شکست سے ہی دوچار کیا اور اپنی کامیابیوں کے باب رقم کرتے چلے گئے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 511468
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش