0
Monday 11 Jan 2016 15:10

سعودی وہابی فِتنہ

سعودی وہابی فِتنہ
تحریر: طاہر عبداللہ

شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں
اللہ سے کرے دُور تو تعلیم بھی فتنہ
اِملاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کیلئے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہء تکبیر بھی فتنہ

سرکاری طور پر سعودی عرب میں 98 فیصد مسلمان ہیں، جس میں سے 15 فیصد اہل تشیع تیل کی دولت سے مالامال مشرقی علاقوں میں آباد ہیں، مگر اُن کے ساتھ پورے سعودی عرب میں امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اور انہیں تیسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ 2009ء کی رپورٹ کے مطابق مذہب، تعلیم، انصاف اور باقی تمام شعبہ جات اور ملازمت میں ایک منظم انداز میں امتیاز برتا جاتا ہے۔ شیعیت دشمنی کی انتہا ہے کہ ملک بھر میں وہابی ازم کا پرچار کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں شیعہ اسلام کو یہودی سازش کا نتیجہ اور موت کا سزاوار قرار دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شیعہ طالب علم وہابی ٹیچر کی اِس گستاخی کا جواب دے تو 5 سو سے 8 سو کوڑے اور 2 سے 4 سال قید کی سزا دی جاتی ہے۔ شیعہ مسلمانوں کے خلاف حکومتی سطح پر کتابیں شائع اور تقسیم کی جاتی ہیں۔ 10 محرم کو چھٹی تو کجا شیعہ طلباء اور ٹیچرز کو شرکت کی اجازت تک نہیں دی جاتی۔ سعودی عرب میں شیعہ افراد جج نہیں بن سکتے، ملٹری اکیڈمی میں داخلہ نہیں لے سکتے، حتٰی کہ پائلٹ نہیں بن سکتے بلکہ سکول پرنسپل تک نہیں بن سکتے۔ شیعہ دُشمنی کی انتہا یہ ہے کہ عدالتوں میں شیعہ افراد کی گواہی تک قبول نہیں۔ اِس طرح کے زہر آلود اُموی ماحول میں اگر کوئی مردِ مومن، حکومت مخالف ہو اور ساتھ شیعہ بھی ہو تو پھر اُسے جینے کا کوئی حق نہیں، جیسا کہ شیخ نمر نے اپنی تقریر میں سکیورٹی افسر کی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا "آپ شیعہ لوگوں کو جینے کا حق نہیں ہے، اگر ہمارا بس چلے تو ہم تمام شیعوں کا خاتمہ کر ڈالیں۔" ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سلطنت سعودی عرب کا ناقص نظامِ انصاف بڑے پیمانے پر سزائے موت دیئے جانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ ملزموں کو وکیلوں کی سہولت مہیا نہیں کی جاتی، لوگوں کو پولیس حراست کے دوران تشدد سے حاصل کئے جانے والے اعترافی بیانات کی بنا پر موت کی سزادے دی جاتی ہے اور ججوں کو بھی صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں، جس کی بنا پر عدالتی فیصلوں میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ بہت سے واقعات میں موت کی سز بند کمروں میں غیر منصفانہ اور سرسری سماعتوں کے بعد سنا دی جاتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ سعودی عرب جہاں انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، وہی ملک اقوام متحدہ کے انسانی حقوق پینل کا سربراہ ہے۔

شیخ نمر باقرالنمر وہ مرد مجاہد تھے جنہوں نے شیعہ قوم کے ساتھ ہونے والے اِسی ناروا اور امتیازی سلوک کے خلاف آوازِ احتجاج بلند کی اور ملک میں آئینی و اصلاحی اصلاحات کا پرزور مطالبہ کیا۔ جس کی پاداش میں اُنہیں 2جنوری کو شہید کر دیا گیا اور اُن کا جسد خاکی بھی ورثاء کے حوالے نہ کیا گیا۔ باقر النمر ملک کے مشرقی علاقوں اور بحرین میں خاصا اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ باقر النمر سعودی عرب کے مشرقی شیعہ اکثریتی صوبے قطیف کے شہر العوامیہ میں 1959ء میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد بزگوار علی بن ناصر النمر اپنے علاقے کے معروف عالم اور خطیب تھے۔ انقلاب ایران کے فوراً بعد ایرانی شہر قم میں دس سال تک دینی تعلیم حاصل کی اور کچھ عرصہ شام میں گزارا۔ واپسی پر آبائی شہر میں دینی تعلیم و تدریس میں مصروف ہوگئے۔ شہر میں مرکزی نماز جمعہ قائم کی اور خطیب مقرر ہوئے۔ آپ عراقی مجتہد آیت اللہ محمد شیرازی اور محمد تقی المدرسی سے مذہبی رہنمائی لیتے تھے۔ آپ نے جنت البقیع کی تعمیر نو کیلئے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور ہر سال آٹھ شوال کو مظاہروں اور مجالس کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ سعودی حکمرانوں کو مذہبی بنیادوں پر روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کو ترک کرنے اور شیعہ عوام کو اُن کے جمہوری اور مذہبی حقوق دیئے جانے پر زور دیتے رہے۔2007ء میں مظاہروں پر پابندی لگا دی گئی، اگلے سال اُن کی زبان بندی کر دی گئی۔ وہ مسلح جدوجہد کے خلاف تھے، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور گولی کی طاقت سے زیادہ الفاظ اور احتجاج کی طاقت پر یقین رکھتے تھے۔ 2003ء سے لیکر 2008ء تک اُنہیں پانچ بار گرفتار کیا گیا اور مہینوں جیل میں رکھا گیا۔ اُنہیں نماز جمعہ پڑھانے سے منع کیا گیا، نہ رُکنے پر اُس مسجد کو مسمار کر دیا گیا، آپ اُسی مسمار شدہ مسجد کی جگہ پر نماز پڑھاتے رہے۔

اُن کی گرفتاری سے قبل اُن کے بھتیجے علی محمد باقرکو 15سال کی عمر میں گرفتار کیا گیا۔ اُن پر بغاوت، شاہ کی نافرمانی، فسادات کرانا، سکیورٹی اہلکاروں پر پٹرول بم پھینکنا اور ڈکیتی جیسے الزامات لگا کر پھانسی سنا دی گئی، جس پر عالمی اداروں نے آواز حق بلند کی ہوئی ہے، کیونکہ بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن پر سعودی حکومت نے دستخظ کر رکھے ہیں، جس میں 18سال سے کم عمر بچوں پر مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔ شیخ باقرالنمر کو آخری بار فائرنگ کرکے شدید زخمی حالت میں 8 جولائی 2012ء میں گرفتار کیا گیا اور اُن پر بے پناہ تشدد کیا گیا۔ 45 دن تک بھوک ہڑتال کرنے، مظاہروں اور عالمی سطح پر شدید ردعمل کے باوجود اُن کو رہا نہ کیا گیا۔ اِسی دوران شیخ نمر کی زوجہ انتقال کرگئیں، لیکن پے رول پر رہا نہ کیا گیا۔ 2014ء میں نمائشی اور ربڑ سٹمپ عدالت نے مجاہد عالم دین اور آمریت مخالف رہنما کو بے بنیاد الزامات کے تحت موت کی سزا سنا دی گئی۔ اُن کے خلاف مقدمہ کی تمام تر سماعت کو خفیہ رکھا گیا اور میڈیا کو شرکت کی اجازت نہ دی گئی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ دنیا بھر کی 17 مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں نے سعودی بادشاہ سے رحم کی اپیل کی اور پھانسی کی سزا پر عمل درآمد روکنے کا مطالبہ کیا، لیکن سعودی حکام نے تمام انسانی اور اخلاقی اقدار کو پامال کرتے ہوئے اِس عالم ربانی کو شہید کر دیا۔ آیت اللہ باقر نمر سعودی شخصیت نہیں تھے بلکہ وہ ایک عظیم عالمی شخصیت تھے، جنہیں صرف تنقید کے جرم میں ذبح کیا گیا۔ ان کی بے جرم و بے خطا گردن زنی کرکے ایک اور غیر انسانی، غیر اسلامی اور غیر اخلاقی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔

اِس باخبر اور تیز گلوبل ویلج میں سعودی عرب چاہے کہ اُس کے مذموم اور منحوس کام کی کسی کو خبر نہ ہو اور کوئی مذمت تک نہ کرے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ شیخ نمر کی شہادت پر ایران اور دُنیا بھر میں پایا جانے والا ردِعمل فطری، انسانی اور اخوت و بھائی چارے کا مظہر ہے۔ اِسی بات کی تائید میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
اُخوت اِس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیروجواں بیتاب ہوجائے

سعودی عرب عالمِ اسلام کا نمائندہ ملک کیسے ہوسکتا ہے، جو سب سے بڑی بلڈنگ بنا کر دنیا کا پہلا ملک بننا تو پسند کرتا ہے، لیکن خواتین کو چندماہ پہلے صرف بلدیاتی الیکشن میں ووٹ کا حق دے کر دُنیا کا آخری ملک بن جانے میں شرم و عار محسوس نہیں کرتا۔ انصاف اور عدل کی حکمرانی کا شور کرنے والا ملک رائف بداوی کو سعودی حکومت کے خلاف لکھنے پر دس سال قید، ایک ہزار کوڑے اور پونے دو لاکھ پاؤنڈ جرمانہ کی سزا تو دے دیتا ہے، لیکن سعودی کفیل اگر بھارتی ملازمہ کستوری منی کا ہاتھ ہی نہیں بلکہ پورا بازو کاٹ دے تو عدالت عظمٰی کی زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ تین صدیاں حکمرانی کرنے کے دعویدار سعودی حکمران سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کرنے اور جیل کے حالات پر تنقید کرنے والے اصلاح پسند مصنف زہیر کتبی کو چار سال قید، پندرہ سال لکھنے اور پانچ سال تک بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی اور 26،600 ڈالر جرمانہ کی سزا تو دے دیتے ہیں، لیکن بھارتی دارالحکومت دہلی سے ملحق شہر گڑ گاؤں میں سعودی سفارت کار کی جنسی درندگی کا نشانہ بننے والی دو نیپالی خواتین کی انصاف طلب چیخوں کی گونج کو بھارت میں ہی دبا دیا جاتا ہے۔ خادم حرمین شریفین کی ڈفلی بجانے والے حکمران شاعر اور آرٹسٹ اشرف فیاض کا توہین مذہب کے الزام میں سر تو قلم کر دیتے ہیں لیکن اگر امریکی ریاست کیلی فورنیا میں سعودی شہزادہ مجید عبدالعزیز السعود تین ملازم خواتین پر جنسی تشدد کرے تو تین لاکھ ڈالر کے بانڈ کے عوض حکومتی سطح پر معاملہ رفع دفع کرا دیا جاتا ہے۔

ایک مقتدر عالمی شخصیت کو قتل کرنے کے ردِعمل میں اگر ایک عمارت کو جزوی طور پر جلا دیا جاتا ہے تو چور مچائے شور کا مصداق سعودی عرب اِس پر واویلا و شور مچا دیتا ہے اور عالمی لیول پر اپنی حمایت میں اِیران سے سفارتی تعلقات منقطع کرا دیئے جاتے ہیں۔ کیا سعودی حکمران بتا سکتے ہیں کہ پری پلان سانحہ منٰی میں شہید ہونے والے ہزاروں حاجیوں پر اُس نے کتنے ملکوں اور شہید حجاج کے خاندانوں سے افسوس کا اظہار اور معذرت کی، بلکہ جھوٹ کی انتہا کرتے ہوئے دنیا بھر کے میڈیا کو غلط اعداد و شمار بتائے گئے۔ سوائے ایران اور سابق پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بھانجے کے، درجنوں ملکوں کو لاشے تک واپس نہیں کئے گئے۔ یہی وہ سنگدل حکمران تھے جنہوں نے 1987ء میں سینکڑوں حجاج کو مکہ کی سڑکوں پر بزرگ شیطان امریکہ کے خلاف مرگ بر امریکہ کی رمی کرنے کی پاداش میں گولیوں سے بھون ڈالا تھا اور خانہ کعبہ پر قبضے کا مکروہ الزام لگا دیا تھا۔ اب پروپیگنڈہ اور الزام یہ ہے کہ ایران اُن کے ملکی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ کیا سعودی حکمران بتا سکتے ہیں کہ ایک آزاد اور خود مختار عرب ملک یمن میں سعودی عرب اور اُس کے عرب افریقی اتحادی کیا کھیل کھیل کر رہے ہیں؟ دشمن کی دیوار گرے، چاہے اپنے اوپر ہی کیوں نہ گرے، کی عملی مثال سعودیہ پر صادق آتی ہے۔ پچھلے سال جس کا بجٹ خسارہ صرف 8 ارب ڈالر تھا، اِس سال وہ 2 کھرب 98 ارب ڈالر کے خسارہ بجٹ کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔

بصیرت سے عاری اور بصارت کے اندھے حکمران شیعہ اور ایران دشمنی میں غیر انسانی، غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈے اپنا کر قومی سرمایہ ضائع پہ ضائع کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ٹوٹل زرمبادلہ کے ذخائر صرف 21 ارب ڈالر ہیں اور سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے صرف اندرونی بغاوت کو کچلنے اور کرسیءِ اقتدار کو مضبوط بنانے کیلئے 25 ارب ڈالر اپنی عوام کا منہ بند کرنے پر خرچ کر دیئے۔ اسی طرح ایران اور روس کی مضبوط معیشت کو نقصان پہنچانے اور سیاسی مفاد حاصل کرنے کے چکر میں تیل کی قیمت گرا دی گئی، چاہے سعودی عوام کیلئے تیل 50 فیصد مہنگا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ حوثی زیدی عسکریت پسند جو اہل سنت مسلک سے زیادہ قریب ہیں، اُن سے جنگ اِس لئے واجب کر دی گئی کہ ایک تو وہ بیدار ہوچکے ہیں، دوسرا اُن کی اخلاقی اور سیاسی حمایت ایران کرتا ہے۔ مظلوم فلسطینی بھائیوں کو پسِ پشت ڈال کر اسرائیل سے دوستی اُستوار کی گئی، کیونکہ فلسطین کا سب سے بڑا حمایتی اور امدادی ملک ایران ہے، جو عالمی سطح پر یوم القدس کا پرچار کرتا ہے اور اسرائیل کا دشمن ہے۔ سیاسی اور مذہبی مفادات کی خاطر مذہب و مسلک کی آڑ میں گھناؤنا کھیل رچایا جا رہا ہے۔ خادم حرمین شریفین کا لبادہ اوڑھ کر عالم اسلام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ وہ کیسے حرم مکہ کے خادم ہوسکتے ہیں جن کے فوجی حج اسود پر فوجی بوٹ رکھے تصویر بنوا رہے ہوں۔ وہ کیسے عاشقان رسول ؐہوسکتے ہیں جو روضہ رسول ؐکو چومنا تو درکنار روضہ رسول ؐکی جانب رُخ کرکے دُعا مانگنے پر عاشقانِ رسولؐ سے پاسپورٹ تک چھین لیتے ہیں۔ خدا جانے کہ یہ کھیل کب تک کھیلا جائے گا اور عوام کب تک دھوکہ کھاتی رہے گی۔؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ سعودی وہابی حکمران اب سلطنت بچانے کی ناکام کوششیں کر رہے ہوں، کیونکہ سعودی عرب تین اطراف سے ایرانی اتحادی حکومتوں اور ملیشاؤں کے نرغے میں گھر چکا ہے اور وہابی مفادات و نظریات کو تمام دُنیا نے پہچان لیا ہے، کیونکہ دُنیا بھر کے تمام دہشت گرد گروہ نہ صرف وہابی نجدی نظریات کے حامل ہیں بلکہ اِنہیں کے پروردہ ہیں۔

اب 7 ہزار شہزادوں کی شاہی اُمیدوں اور 30 ہزار شاہی افراد کے شاہی چونچلوں کو تحفظ بخشنے کیلئے اِس طرح کے غیر اسلامی اور غیر انسانی اقدامات کرنے کے علاوہ اُس کے پاس کوئی اور راستہ اور چارہءِ کار نہیں بچا، کیونکہ اندرونی و بیرونی دباؤ شاہی دروازوں پر انقلابی دستک دے رہا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کمزور اور خوفزدہ ملک ہی اپنی بقا کی خاطر اتحاد بناتا ہے اور اِسی لئے تو سعودی عرب کی وہابی چھتری تلے اسلامی شیعتی نظریات و مفادات کو کچلنے کی خاطر بننے والے 34 ملکی اتحاد نے پہلا وار چند دن پہلے اپنے اتحادی ملک نائیجیریا میں کیا۔ جہاں ایک ہزار سے زائد شیعہ مسلمانوں کو فوجی گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ ملک نائیجیریا کے شیعہ قائد شیخ ابراہیم یعقوب زکزکی کو مع زوجہ اور آخری فرزند محمد کے ساتھ شدید زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا، جن کا تاحال کوئی علم نہیں۔ اِس بربریت میں اُن کے تین جوان سال فرزند اور اسلامی تحریک نائیجیریا کے نائب بھی شہید ہوگئے۔ یاد رہے کہ ایک سال پہلے اُن کے تین فرزند پہلے بھی شہید ہوچکے ہیں۔ اب اتحادی سربراہ سعودی عرب نے اپنی سلطنت میں شیعہ قوم کے قائد آیت اللہ شیخ باقرالنمر کا سر قلم کرکے داعش کی طرح اسلامی دنیا کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ چند ماہ پہلے سانحہ مکہ میں ایران کے 464 حجاج کو پری پلان شہید کیا گیا، جس میں چار سفیر اور کئی نامور شخصیات شامل تھیں۔ ہوسکتا ہے کہ اگلا وار شام اور عراق میں داعش کو کچلنے کے نام پر مغربی اتحادیوں کے تعاون سے فضائی حملے یا فوج بھیج کر کیا جائے۔ اللہ کرے پاکستان کی شریف حکومت اور شریف فوج نے جو موقف اپنایا ہے، وہی حقیقت بھی ہو، اندرخانے کوئی اور بات نہ ہو۔ شریف حکومت پر تو شبہ ہوسکتا ہے، کیونکہ سرخ رومال اور ریال کے اُن پر زندگی بھر کے اور زندگی بچانے کے احسانات ہیں، لیکن شریف فوج سے قوم کو قوی اُمید ہے کہ وہ نہ صرف اِس فرقہ وارانہ بنیاد پر بننے والے اتحاد سے دور رہے گی بلکہ آرمی کے دشمن دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ شیعہ دشمن دہشت گردوں کو بھی فوجی عدالتوں کے ذریعہ پھانسی کے تختے پر ضرور لے جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 511817
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش