0
Thursday 14 Jan 2016 20:31

گلگت بلتستان ایک تاریخی موڑ پر

گلگت بلتستان ایک تاریخی موڑ پر
تحریر: سید محمد علی شاہ الحسینی

گلگت بلتستان پاکستان کا ایک انتہائی اسٹریٹجک علاقہ ہے، جو پاکستان کو چین سے جوڑتا ہے۔(1) سنگلاخ پہاڑی سلسلوں اور دسویں قدرتی خوبصورت مناظر سے آراستہ یہ علاقہ اپنے بینظیر قدرتی حسن کے باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اس خطے میں 7 ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے، جبکہ دنیا کے تین بڑے گلیشیئر بھی اسی خطے میں ہی واقع ہیں۔(2) دیوسائی جیسا دنیا کا بلند ترین اور خوبصورت ترین میدان بھی یہاں واقع ہے۔ یہاں بے پناہ معدنیات پائی جاتی ہیں۔ ان سے اگر بھرپور استفادہ کیا جائے تو گلگت بلتستان کا کوئی گھرانہ حد غربت سے نیچے نہیں رہے گا۔ یہاں اتنے آبی ذخائر ہیں کہ اگر ان کو بروئے کار لایا جائے تو پورے پاکستان کے لئے وافر مقدار میں بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ دفاعی حوالے سے یہ علاقہ پورے پاکستان کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریا، دریائے سندھ بھی یہاں سے گزرتا ہے۔ یہاں کی عوام بہت ہی شریف النفس، دیندار، بااخلاق، بامروت، شجاع، ایک دوسرے کے کام آنے والے، ہمدرد اور بہت ہی ایماندار ہیں۔ یہاں کے لوگ اچھے مسلمان اور مہمان نواز بھی ہیں۔ جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔(3) جس کا واضح ثبوت یہاں کی جیلوں میں مجرموں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہونا ہے۔ پورے پاکستان میں پرامن ترین یہی علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ بلتستان میں تو  آج تک کوئی ایک شخص بھی فرقہ واریت کی بھینٹ نہیں چڑھا۔ یہاں تمام مکاتب فکر کے لوگ برادرانہ زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں پر ایک  سوال ذہن میں آسکتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ خود بخود ممکن  ہوا؟ نہیں نہیں بلکہ یہ سب کچھ علماء کی محنتوں اور ان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے لوگوں کے دلوں میں حقیقی اسلام کی روح پھونکی اور ایک دوسرے کے حقوق بیان  کئے۔ جس کا پھل آج ہمیں امن و امان اور باہمی محبت کی صورت میں مل رہا ہے۔

1965ء کی جنگ ہو یا 1971ء کا معرکہ 1999ء کی گارگل وار ہو یا شمالی وزیرستان آپریشن، اکبر بگٹی کو گرفتار کرنے کا معاملہ ہو یا لال مسجد سے تکفیری دہشتگردوں کو شکست دینے کا مرحلہ۔ غرض ہر مشکل موڑ پر یہاں کے جوانوں نے مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا اور آخری دم تک دشمن کے مقابلے میں مردانہ وار سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ملک کا دفاع کرتے رہے اور کبھی بھی کسی دشمن کے مقابلے میں شکست تسلیم نہیں کی۔ یہاں کے عوام نے (اپنی دینی حمیت اور ملی جذبے کی خاطر) اپنی مدد آپ کے تحت 1948ء میں خود لڑ کر آزادی حاصل کی۔ (پاکستان کے اسلام کے نام سے موسوم ہونے اور دینی بنیادوں پر تشکیل پانے کے باعث، اسی  دینی جذبے کے تحت بغیر کسی شرط کے) اور اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔(4) بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسے خوش آئند قرار دے کر بہ سر چشم تسلیم  کرلیا، لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہماری تقدیر کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی بانی پاکستان انتقال کرگئے۔ شاید آج بھی وہ اپنی قبر میں ہماری مظلومیت کا رونا رو رہے ہوں۔ اس کے بعد سے ہماری مظلومیت کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ نہ ہمیں 1973ء کے آئین میں کوئی قانونی حیثیت دی گئی اور نہ ہی بعد کے ادوار میں ہم اپنا تشخص پاسکے، جبکہ 73ء کے آئین میں کشمیریوں کو اپنا مستقل حق مل گیا۔

البتہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہاں کے لوگوں کو کچھ ریلیف اور مراعات ملیں، لیکن قانونی حیثیت دینے کے حوالے سے انھوں نے بھی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ ہمیں نظرانداز کرنے کا یہ سلسلہ بغیر کسی وقفے کے جاری رہا، پھر بھی ہم مملکت خداداد پاکستان سے اپنی دلی ہمدردی اور محبت کا اظہار کرتے رہے، لیکن ایوان اقتدار پر قابض حکمران مسلسل ہماری محبت کو ٹھکراتے  ہی رہے۔ ہماری مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ جب کارگل وار میں ہمارے جوانوں نے شجاعت حیدری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحد پار کرکے کارگل کے بہت بڑے علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ صلح کے بعد فوجی تبادلے کی باری آئی تو ہمارے وہ فوجی جوان جو انڈین فوج کے ہاتھوں اسیر ہوگئے تھے، تو اس وقت کے  وزیراعظم نے (جو اس وقت بھی وزیر اعظم ہیں) ان جوانوں  کے  پاکستانی فوجی ہونے سے انکار کرکے انیںن کشمیری مجاہدین  قرار دے دیا۔ بعد ازاں جب ان کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور پرویز مشرف یہاں کے حکمران بنے، تب انھوں نے ہمارے جوانوں کی شجاعت و بہادری اور قربانی کے جذبے کا مشاہدہ  کرکے انھیں مکمل رجمنٹ کی حیثیت دے دی اور انہی کے دور میں  گلگت بلتستان کونسل کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ بھی  ملا۔ (البتہ صرف نام کی اسمبلی رہی، لیکن کوئی اختیار انہیں بھی حاصل نہیں ہوا)۔ بالفاظ دیگر پرویز مشرف بھی ہمیں قانونی حیثیت دینے میں ناکام رہے بلکہ ان کے دور میں بھی کچھ متنازعہ باتیں چلیں، لیکن ہماری عوام کی بیداری کے باعث وہ بھی ہمیں متنازعہ قرار نہیں دے پائے۔

بعدازاں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی، تب انھوں نے آئینی حیثیت دینے کا نعرہ  بلند کیا۔ آخرکار 9 اگست 2009ء کو پاکستان کے صدر کے جاری کردہ آرڈیننس کی مدد سے اس علاقے کو خود مختاری دی گئی اور شمالی علاقہ جات کی جگہ اب گلگت بلتستان نام دے دیا گیا۔(5) لیکن پھر بھی وہ ہمیں قومی اسمبلی اور نہ ہی سینیٹ میں کوئی نمائندگی دی گئی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آخر ہماری شرافت کا امتحان کب تک جاری رہے گا؟ ہمارے خلوص کو کب تک ٹھکرایا جاتا رہے گا؟ ہمیں کب تک آئینی حیثیت سے محروم رکھا جائے گا۔؟ جوں جوں 2015ء کے انتخابات قریب ہوتے گئے، سارے سیاسی حلقوں میں گہما گہمی پیدا ہوتی گئی۔ بڑے بڑے ایجنڈے بھی پیش کئے جانے لگے، بہت سارے سبز باغ بھی دکھائے جانے لگے۔ بالخصوص موجودہ حکومت نے یہاں کی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے جیتنے کی صورت میں ہم آپ کو مکمل آئینی حق دیں گے۔ ہماری عوام پرامید تھی، لیکن ان کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی سناٹا چھا گیا۔

اتنے میں پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا۔ تب چینی حکومت نے اس  معاہدے کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے مشروط قرار دے دیا۔ اس طرح  آئینی حیثیت کا تعین موجودہ  حکومت کی ایک مجبوری بن گیا۔ ہماری صوبائی اسمبلی نے آئینی حیثیت کے لئے اپنی طرف سے مسودہ تیار کرکے وفاق کو بھی ارسال کر دیا تھا اور  ہماری سادہ لوح عوام اور نمائندے بھی پرامید بیٹھے تھے، اتنے میں استور سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالسمیع نے ایک حقیقت سے پردہ اٹھا دیا کہ "گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی وزیراعلٰی نے تجویز پیش کر دی  ہے۔"﴿6﴾ اب یہاں پر چند سوالات جنم لیتے ہیں: کیا ہمارے سیاسی نمائندوں کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ یہاں کے وزیراعلٰی اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں؟ کیا گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کے حوالے سے جو مسودہ تیار کیا گیا تھا، اس سے وزیراعلٰی بے خبر تھے؟  کیا وزیراعلٰی نے اپنی پارٹی ممبران کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا؟ ہماری سیاسی پالیسی قانون ساز اسمبلی میں بنتی ہے یا کہیں اور؟ کیا ان کو گلگت بلتستان کا وزیراعلٰی ہونے کے حوالے سے ہماری نمائندگی میں دشمن کے خلاف ہمارا دفاع کرنا چاہیے تھا یا کشمیری اور بعض مذہبی حلقوں کا ایجنٹ بن کر ہمارے خلاف فریق۔؟ اس وقت جب گلگت بلتستان کی تقدیر کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے تو ایسے حساس موڑ پر ان کا یہ  بیان دینا "داریل تنگیر میں طالبان چھپے ہوئے ہیں"﴿7﴾ اور ان کا یہ کہنا کہ "گلگت بلتستان کے کچھ علاقے متنازعہ نہیں، انہیں آئینی حیثیت دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔"﴿8﴾ یہاں ان کی مراد کیا ہے؟ کیا گلگت بلتستان کے کسی ہمدرد شہری سے ایسا بیان صادر ہوسکتا ہے۔؟

اب یہاں مزید چند سوالات جنم لیتے ہیں: کیا یہ اس کی اپنی فکر اور سوچ ہے یا وفاق اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے، کیونکہ یہ احتمال بھی دیا جاسکتا ہے کہ شاید حکومت چاہتی ہو کہ صرف چین اور یہاں کی عوام کو ٹرخانے کی خاطر ایک مختصر پیکیج گلگت بلتستان کو دے کر عوامی مخالفت کو روک سکے۔ یعنی عوامی توجہ اصل مسئلے سے ہٹاکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہو۔ یوں عوام بھی خاموش ہوجائیں اور انہیں آئینی حق بھی نہ دینا پڑیں۔ دوسرا حتمال یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ جناب وزیراعلٰی پر سیاسی عہدے سے زیادہ مسلکی تعصب حاکم ہے، لہذا وہ اپنے ہم مذہبی دھڑوں کو خوش کرنے کی خاطر گلگت بلتستان کا سودا کر رہے ہیں۔ تیسرا احتمال  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوامی جذبات اور بیداری کا امتحان لینا ہو، تاکہ اسی کے مطابق آگے کے لئے لائحہ عمل طے کرسکیں۔ بنابریں اس حساس مرحلے میں ہمارے علماء، دانشور، سیاسی نمائندے اور عوام سب کو نہایت ہی گہری سوچ کے ساتھ مل کر آگے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اب اتنے حقائق سامنے آنے کے بعد وزیراعلٰی خود سے انکی تائید کریں یا تکذیب، اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی، کیونکہ ہرصورت میں اتنا تو ضرور واضح ہوگیا کہ یہ شخص کسی صورت گلگت بلتستان کا وزیراعلٰی قرار پانے کی اہلیت نہیں رکھتا، البتہ کسی کا ایجنٹ ضرور ہوسکتا ہے۔

حقیقت جو بھی ہو، ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوراً اس متعصب وزیراعلٰی کو ہٹا کر کسی ہمدرد اور قومی و ملی جذبے سے سرشار شخصیت کو اس کی جگہ مقرر کرے۔ علاوہ ازیں ہم حکومت وقت کو یہ بھی آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ  ہمارے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے، ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا ہے۔ ہم 67 سال غیر آئینی وقت گزار چکے ہیں، اب مزید غیر قانونی رہنا ہمارے لئے کسی صورت ممکن نہیں۔ پھر بھی اگر حکومت وقت ہمیں مکمل آئینی حق کے طور پر مکمل صوبے کی حیثیت نہ دے تو اگلے مرحلے میں عوام ایک جداگانہ ریاست کے لئے قدم بڑھانا شروع کرسکتی ہے۔ تب اس سیلابی ریلے کو روکنا حکومت کے بس سے باہر ہوگا۔ لہذا آئینی حیثیت کے بغیر اب ہمارا زندہ رہنا ایسا ہی ہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی کا زندہ رہنا۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ایوان اقتدار پر قابض افراد ہماری ان باتوں پر ہمدردانہ غور و فکر کرکے ہماری آئینی حیثیت کا تعین کریں۔ آج تو کشمیر اسمبلی میں بھی گلگت بلتستان صوبے کے خلاف قرارداد منظور ہوگئی۔(9) جب بھی ہم کسی اہم موڑ پر پہنچ جاتے ہیں، تب کشمیری حکومت ہماری راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے، جبکہ ہم نے ان کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ اگر آپ ہمیں کشمیر کا حصہ سمجھتے ہیں  تو 73ء کے آئین میں اپنا حق لیتے وقت ہمیں بھی ذرا یاد کرکے وہاں ہمارا نام بھی شامل کرتے۔ ہم نے ان کے حقوق کے خلاف نہ اس وقت آواز اٹھائی اور نہ ہی آج اٹھا رہے ہیں، کیونکہ شروع سے ہی وہ اور ہم الگ الگ ہیں۔ ان کی بے جا مخالفتوں پر کوئی اثر مرتب نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ ہمارے حقوق پر ڈاکہ اور ہمارے خلاف گھناؤنی سازش ہے۔

حوالہ جات:
1: ڈیلی کے ٹو، 19-4-2015
2
: روزنامہ آج، 4 ستمبر 2009ء
3: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات
4: روزنامہ جنگ، 11 ستمبرء 2009
5: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات، ڈیلی کے ٹو، 19۔4۔2015
6: ڈیلی کے ٹو، 11جنوری۔2016
7: ڈیلی کے ٹو 12 جنوری۔2016
8: ایضاً
9: ڈیلی کے ٹو، 13 جنوری 2016
خبر کا کوڈ : 512540
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش