0
Thursday 21 Jan 2016 02:06

2015ء ڈی آئی خان پہ کیا بیتی (1)

2015ء ڈی آئی خان پہ کیا بیتی (1)
رپورٹ: آئی اے خان

ڈیرہ اسماعیل خان انتظامیہ نے 2016ء کے آغاز میں اپنی تفصیلی کارکردگی رپورٹ پیش کی ہے۔ اس رپورٹ میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ربنواز خان نے میڈیا کو یہ بتایا ہے کہ ڈیرہ پولیس نے سال 2015ء کے دوران دہشتگردی، فرقہ واریت، قتل اور ڈکیتی سمیت دیگر سنگین مقدمات میں مطلوب 1100 اشتہاری ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ پولیس نے منشیات کیخلاف کارروائی کے دوران سینکڑوں کلوگرام منشیات اور ناجائز اسلحہ کیخلاف کارروائیوں کے دوران 102 کلاشنکوفیں، سات کلاکوف، 99 رائفلز، 250 بندوقیں، 600 پستول اور 28471 کارتوس برآمد کئے گئے ہیں۔ ڈی پی او نے اس موقع پر شہریوں کے تحفظ کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کا عزم ظاہر کیا اور کہا کہ علاقے کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے سکیورٹی اداروں کیساتھ ساتھ عوام کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ڈی پی او کی جانب سے مرتب کردہ پولیس کارکردگی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ گذشتہ برس شہریوں کیلئے کتنا بھاری رہا۔ شہر میں گذشتہ برس امن و امان کے حوالے سے ایک مختصر جائزہ پیش خدمت ہے، جس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے، کہ آج بھی یہ شہر کتنا محفوظ اور پرامن ہے۔

ماہ جنوری

2015ء کے آغاز میں ہی دو پولیس اہلکار محمد سلمان اور سید مجتبیٰ شاہ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکر شہید کیا گیا جس کے تین دن بعد یعنی 8 جنوری کو ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے مدارس کو اساتذہ اور طالب علموں کے مکمل کوائف جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے باعث شہر میں سکیورٹی انتہائی سخت ہونے کے باوجود بھی 9 جنوری کو ایک اور پولیس اہلکار مامون الرشید کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، اور رات گئے شہر کے بیچوں بیچ موجود ہائیر سکینڈری سکول کی دیوار پر داعش کے حق میں وال چاکنگ کی گئی، انتہائی کڑے حالات میں اس نوعیت کی وال چاکنگ کے باعث علاقہ ڈی ایس پی اور بعد ازاں ڈی آئی جی کو بیان جاری کرنا پڑا کہ شہر میں داعش کا کوئی وجود نہیں۔ جنوری کے دوسرے ہفتے میں افغان مہاجرین کے خلاف ضلع بھر میں کریک ڈاون کیا گیا، اور غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان مہاجرین کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 11 جنوری کو ڈی آئی خان کی تحصیل کلاچی میں سرچ آپریشن کے دوران پانچ دہشتگردوں کو گرفتار کیا گیا، جن سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں دیگر دہشتگردوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ 14 جنوری کو کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں اے ایس آئی قیصر جہاں کے گھر پر نامعلوم دہشت گردوں نے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں اے ایس آئی قیصر جہاں، اس کے دو بھائی خرم جہاں اور انصر جہاں شہید جبکہ ایک راہ گیر بھی اس حملے میں زندگی کی بازی ہار گیا۔ اس سانحہ کے اگلے ہی روز کلاچی میں پولیس موبائل پہ راکٹ سے حملہ کیا گیا، جس میں اے ایس آئی سمیت تین اہلکار شدید زخمی ہوگئے۔ اسی روز نیو بنوں چونگی کے قریب سید مجتبیٰ کمال شاہ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکر شہید کیا گیا، جس کے خلاف کوٹلی امام حسین (ع) کے سامنے اہل تشیع نوجوانوں اور مذہبی جماعتوں نے مشترکہ مظاہرہ کیا۔ ضلعی انتظامیہ نے بجائے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے کوششیں تیز کرنے یا مظاہرین کو تسلی دینے کے الٹا 300 سے زائد مظاہرین پر اس جرم میں مقدمہ درج کرلیا کہ انہوں نے ٹارگٹ کلنگ کے خلاف سڑک پر مظاہرہ کرنے کی جرات کی۔ 

ماہ فروری

ماہ فروری 2015ء کے حالات و واقعات کا سرسری جائزہ لیں، تو جرائم بالخصوص ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے حوالے سے ماہ فروری پرسکون رہا، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ماہ جنوری میں یکے بعد دیگرے ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردانہ حملے دہشتگردوں کے وجود کا احساس دلانے اور تسلیم کرانے کیلئے کافی تھے، جو کہ نئے سال کے اول ماہ میں نظم و ضبط اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے کھلا چیلنج اور کارکردگی سوال اٹھانے کیلئے کافی تھے۔ ماہ فروری میں ڈی آئی خان میں متحرک سیاسی و مذہبی جماعتوں نے آل پارٹیز اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور کے روٹ میں ڈی آئی خان کو شامل نہ کرنے کی صورت میں مشترکہ اور متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیکر اس پر عملدرآمد کیا جائیگا۔ ماہ فروری میں ضلع کے اندر جرائم پیشہ اور ملک دشمن عناصر کے خلاف 23 سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کیے۔ ان آپریشنز کے دوران مختلف کارروائیوں میں 758 مشکوک افراد کو گرفتار کرکے ان کے قبضہ سے 09کلاشنکوف، 13 رائفلز، 26 بندوق، 12 پستول، 549 کارتوس، بھاری مقدار میں منشیات اور 57 مجرمان اشتہاری گرفتار کیے گئے۔ انہی آپریشنز کے دوران 2797 گھر اور 279 ہوٹلز کو چیک کیا گیا اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف 38 مقدمات درج کیے گئے۔ تمام ضلع میں 258 پوائنٹس پر SNAP چیکنگ کے ذریعے 790 مشکوک افراد کو گرفتار کرکے ان کے قبضہ سے 01 رائفل، 05 بندوق، 16 پستول، 03 چاقو اور 231 کارتوس برآمد کیے۔ اسی دوران غیر قانونی طور پر مقیم 15 افغان باشندوں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ تمام ضلع میں 2393 تعلیمی اداروں کا سکیورٹی جائزہ لے کر ان میں سے 1771 کو سکیورٹی کے متعلق ضروری ہدایات دی گئیں، جبکہ 603 کو وارننگ اور 19 کے خلاف دی گئی ہدایات پر عمل نہ کرنے پہ مقدمات درج کیے گئے۔

ماہ مارچ

ڈیرہ اسماعیل خان میں مارچ 2015ء کے آغاز میں ہی پولیس نے متعدد علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاون اور سرچ آپریشن کا سلسلہ شروع کیا۔ جس میں سینکڑوں مشتبہ افراد کو گرفتار کرکے چھان بین کی گئی، اور اس کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کیا گیا۔ 4 مارچ کو انڈس ہائی وے کے قریب علاقہ میرن میں پاک فضائیہ کا میراج طیارہ موسم کی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہو گیا۔ طیارے میں سوار دو افراد موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ جن کے جسد خاکی پاک فوج کی نگرانی میں رفیقی ائیربیس جھنگ منتقل کر دیئے گئے۔ پاک فضائیہ کے مطابق مذکورہ طیارہ رفیقی ائیربیس شورکوٹ جھنگ سے معمول کی پرواز پر تھا، کہ دن ساڑھے چار بجے ڈیرہ اسماعیل خان میں انڈس ہائیوے کے قریب میرن کے علاقہ میں آسمانی بجلی گرنے سے طیار ہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ طیارے میں سوار دو آفیسر ائیرکمانڈر شفقت، فلائٹ لیفٹیننٹ شعیب موقع پر شہید ہو گئے۔ جب کہ 10 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر مال علی امین خان گنڈہ پور کے گھر پہ نامعلوم افراد نے دستی بم پھینکا۔ گرچہ اس حملے میں کوئی جانی یا زیادہ مالی نقصان نہیں ہوا، مگر اس حملے نے کئی سوالات کو جنم ضرور دیا۔ واضح رہے کہ ماضی قریب میں پی ٹی آئی کے ایک صوبائی وزیر قانون اسرار خان گنڈہ پور کو خودکش حملے میں نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ جس سے اس خدشے کو تقویت ملی کہ سردار علی امین کو دہشت گردوں کی جانب سے دھمکی دی گئی ہے۔ مارچ ہی کے مہینے میں جشن نوروز یعنی 21 مارچ سے ایک روز قبل پرانی غلہ منڈی کے قریب درندہ صفت ٹارگٹ کلرز نے تاجر غلام عباس اور محمد نعیم راجپوت کو دن دیہاڑے بھرے بازار میں فائرنگ کرکے قتل کرڈالا، عینی شاہدین کے مطابق ٹارگٹ کلرز ارتکاب جرم کے بعد تھانہ سٹی والی گلی میں فرارہوگئے۔ شائد کہ دہشت گرد اس کارروائی کے ذریعے جشن نوروز کے موقع پر فرقہ ورانہ تصادم کی فضا بنانا چاہتے تھے، تاہم ایک ہی کارروائی میں دو مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے دو دوستوں کی شہادت نے اس مذموم سازش کو ناکام بنادیا، جبکہ جشن نورز شہر بھر میں انتہائی پرتکلف طریقے سے منایا گیا۔ ماہ مارچ کے آخر میں پولیس نے دہشتگردی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے بھاری مقدار میں اسلحہ و بارودی مواد برآمد کرلیا، جوکہ قبرستان کے قریب زمین میں چھپایا گیا تھا۔ 

ماہ اپریل

ماہ اپریل کے پہلے ہفتے میں ہی دہشتگردوں نے حملہ کرکے ڈی ایس پی بہاول خان کو ان کے دوست کے ہمراہ قتل کردیا۔ ڈی ایس پی بہاول خان کو دہشتگردوں کی جانب سے متعدد بار دھمکیاں مل چکی تھیں۔ ان کی زندگی کو لاحق خطرات کے باعث انہیں ڈی ایس پی ہیڈکوارٹر مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل بھی ان پر دو قاتلانہ حملے ہوچکے تھے، جن میں سے ایک حملہ تھویا فاضل کے علاقے میں ناکام بنایا گیا تھا، جہاں ان کے راستے میں پلانٹڈ بم لگایا گیا تھا۔ بہاول خان پر حملے کے بعد پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر چیکنگ بڑھا دی۔ اس قتل کے بعد پولیس نے مختلف علاقوں میں گشت اور سرچ آپریشن کا سلسلہ شروع کیا۔ اس قتل کے محض تین بعد ہی مسلح اغوکاروں نے ایف سی کے پانچ اہلکاروں کو اغوا کرلیا، جس کے مقدمے کا اندراج انتظامیہ کیلئے دردسر بن گیا، پانچ روز انتظامیہ کو یہ طے کرنے میں لگے کہ اغوا کا مقدمہ کونسے تھانے میں درج کیا جائے۔ سترہ اپریل کو پولیس نے تحصیل کلاچی کے مختلف ایریاز میں سرچ آپریشن کرکے 38 سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کیا، جن میں تین افراد کا تعلق دہشتگردوں سے ثابت ہونے پر انہیں تفتیش کی غرض سے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا، ان افراد سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں آپریشن کو وسعت دیکر مزید پچاس افراد گرفتار کرلیئے۔ جن کے قبضے سے اسلحہ برآمد ہوا۔ 23اپریل کو دریائے سندھ کے کنارے سے ایک تشدد زدہ لاش ملی، جس کے جسم میں گولیوں اور تشدد کے کئی نشانات تھے۔ اس واقعے کے دو روز بعد جھوک عمرے والی کے علاقے میں چار افراد نے گھر میں گھس کر دو میاں بیوی کو قتل کردیا۔ مورخہ 26 اپریل کو کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے باعث شہر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے، مگر ووٹرز نے ان انتخابات میں زیادہ دلچسپی نہیں لی، جس کے باعث پولنگ سٹیشنز پر زیادہ رش دیکھنے کو نہیں ملا، اور سرکاری نتائج کے مطابق ٹرن آؤٹ نصف سے بھی کم رہا۔ انتخابات کے اگلے روز تھانہ کینٹ پولیس نے ایک ایسے افغان باشندے کو گرفتار کیا، جس کے پاس متعدد شناختی کارڈز، حساس اداروں کے یونیفارمز میں بنائی گئیں تصاویر، موبائل فونز اور چھ سم کارڈز سمیت اسلحہ بھی برآمد کیا گیا۔ 28 اپریل کو ہتھالہ روڈ پر سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو دہشتگردوں نے ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے نشانہ بنایا۔ دہشتگردوں نے یہ بم سڑک کنارے نصب کیا گیا، جس کی زد میں آکر سکیورٹی گاڑی مکمل طور پر تباہ، جبکہ ایک سکیورٹی اہلکار شہید، اور دو زخمی ہوگئے۔ اس حملے کے اگلے روز کلاچی ہی میں لونی کے علاقے میں سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے سکیورٹی فورسز کو گاڑی کو شدید نقصان پہنچا۔ اس حملے میں کیپٹن سمیت پانچ سکیورٹی اہلکار شدید زخمی ہوگئے۔ ان حملوں کے بعد ڈی آئی خان کی تحصیل کلاچی میں تین مئی تک کرفیو کا نفاذ کرکے مشتبہ افراد کے خلاف کریک ڈاون کیا گیا۔ اس کے علاوہ دفعہ 144 کا نفاذ کرکے ڈبل سواری، اسلحہ کی نمائش اور اجتماع پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
خبر کا کوڈ : 512879
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش