0
Monday 18 Jan 2016 01:41

گلگت بلتستان کو متنازعہ نہ بنایا جائے!

گلگت بلتستان کو متنازعہ نہ بنایا جائے!
تحریر: محمد قاسم نسیم

وزیراعظم پاکستان نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کے بعد مقتدر حلقوں سے لیکر عوامی حلقوں تک میں گلگت بلتستان کے تاریخی پس منظر میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر بحث جاری ہے، یہ اور بات ہے کہ تمام حلقے اپنے اپنے انداز میں گلگت بلتستان کی تاریخ کی تشریح و تعبیر کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ ریاست جموں و کشمیر سے متعلق قراردادوں کی وضاحت بھی علیحدہ مفہوم میں کر رہی ہیں۔ ان میں سے بیشتر تو محض سیاسی بیانات ہیں، جن پر بحث کرنا سوائے وقت ضائع کرنے کے اور کچھ بھی نہیں۔ البتہ جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے امیر مولانا عبدالسمیع کے اس انکشاف کے بعد کہ حکومت گلگت، دیامر، ہنزہ نگر اور غذر کو آئینی حقوق دینے اور بلتستان اور استور کو متنازعہ قرار دے کر آئینی حقوق سے محروم رکھنے پر غور کر رہی ہے۔ اس انکشاف کے بعد عوامی حلقوں میں جاری بحث اب تشویش اور اضطراب میں بدل گئی ہے۔ خود وزیراعلٰی جی بی کی جانب سے ایک نجی ٹی وی چینل پر انٹرویو کے دوران اس کی وضاحت کے بعد اب گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں لوگ اشتعال میں بھی آنا شروع ہوگئے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ آزادی کے مرحلے پر چونکہ بلتستان کے چار اضلاع اسکردو، گانچھے، شگر اور کھرمنگ کے علاوہ گلگت ضلع اور استور ضلع پر ڈوگرہ مہاراجہ کی حکومت تھی، لہٰذا یہ علاقے متنازعہ ہیں اور ان پر اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان و بھارت کی قراردادوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ جبکہ ہنزہ نگر، غذر اور دیامر آزاد حیثیتوں میں تھے اور ان خطوں نے باقاعدہ پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ہے، لہٰذا اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ان اضلاع پر اطلاق نہیں ہوتا۔

جو حلقے گلگت بلتستان کی تاریخ سے ذرا بھی واقفیت رکھتے ہیں، ان کیلئے یہ بات بہت ہی مضحکہ خیز ہے، کیونکہ یہ حقائق کے بالکل منافی ہے اور اس موقف میں کوئی حقیقت نہیں۔ اگر اس موقف کے رکھنے والوں کی مراد یہ ہے کہ بلتستان، استور اور گلگت پر ماضی بعید میں ڈوگروں کی حکومت رہی ہے، تو ہاں یہ حقیقت ہے کہ گلگت پر 1842ء میں سکھوں نے حکومت قائم کرلی تھی اور راجہ گھر پرامان کی حکومت کو ختم کر دیا تھا۔ 1842ء ہی میں طاقت کے بل بوتے پر مہاراجہ کشمیر نے بلتستان کو فتح کرلیا تھا۔ پھر 1935ء میں انگریزوں نے گلگت کا نظام ایک بار پھر مہاراجہ کشمیر کو واپس کر دیا۔ اکتوبر 47ء میں مہاراجہ کی جانب سے گورنر گھنسار سنگھ گلگت کا گورنر مقرر ہوا اور 31 اکتوبر اور یکم نومبر 1947ء کی درمیانی رات مسلح جدوجہد کے ذریعے ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ کرکے گورنر گھنسار سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس سارے عرصے میں گلگت جس جس حیثیت میں رہا اور جن کے زیر تسلط رہا ہنزہ، نگر، غذر اور چلاس بھی گلگت میں موجود حکومت کے ہی زیر اثر تھا۔ ریاست ہنزہ نگر اور یٰسین کے والی کے پاس محدود اندرونی خود مختاری تھی۔ یہ صورت حال تاریخ کی تمام کتابوں سے واضح ہے۔ اب اس حقیقت سے کیسے انکار ممکن ہے اور صرف یہ کہا جانا کہ بلتستان اور استور پر مہاراجہ کی حکومت تھی، یہ تاریخ سے لاعملی کے سواء کچھ بھی نہیں۔ اگر اس موقف کے رکھنے والے کی مراد آزادی کے مرحلے پر 1947ء کی پوزیشن کی طرف اشارہ ہے تو بھی مذکورہ بالا صورت حال کی رو سے یہ سارے علاقے مہاراجہ کشمیر کے ہی زیر تسلط تھا اور نومبر 1947ء میں جنگ آزادی مہاراجہ کشمیر کی حکومت کے خلاف ہی لڑی گئی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے مہاراجہ کشمیر کی حکومت کے خلاف باقاعدہ مسلح جدوجہد کی۔ انکے خلاف طویل ترین جنگ لڑی اور 28 ہزار مربع میل کے علاقے کو آزاد کرایا۔ جنگ آزادی کے نتیجے میں ریاست جموں و کشمیر سے تعلق اور ناطہ توڑ کر غیر مشروط انداز میں اس خطے کا الحاق پاکستان کے ساتھ کیا تو مذکورہ بالا موقف کے رکھنے والے بلتستان، استور اور گلگت بہ زور بازو ڈوگروں کی جانب سے کچھ عرصے کے لئے تسلط قائم کرنے کو تو آج جواز کے طور پر پیش کر رہے ہیں، لیکن ایک سال سے بھی زیادہ عرصے پر محیط اور سینکڑوں شہداء دے کر ریاست جموں و کشمیر سے اپنے تعلق کو توڑ کر مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ تعلق جوڑنے کو جواز کے طور پر پیش کرنے کی توفیق نہیں رکھتے۔ یہ خود ہی واضح کرتا ہے کہ موقف پیش کرنے والے کس سوچ کے حامل ہیں اور اپنی دلیل کے ذریعے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے بھارت و پاکستان کی قرادادوں کا اطلاق گلگت بلتستان پر ہوتا ہے کہ نہیں۔ مذکورہ موقف پیش کرنے والوں کی عقل اور ذہانت پر ہنسی آتی ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اس قرارداد کا اطلاق بعض علاقوں پر کرنے اور بعض اضلاع پر نہ ہونے کا فیصلہ صادر فرما دیا ہے۔

اس سے لگتا ہے کہ ان صاحبان نے کبھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کا مطالعہ ہی نہیں کیا ہے، کیونکہ قرادادوں کو پڑھنے والا ایسی بات نہیں کرسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کے قرادادیں ہوں یا اقوم متحدہ کی کمیشن برائے انڈیا و پاکستان کی قراردادیں ہوں، ان میں سے کسی کا اطلاق بھی گلگت بلتستان پر نہ کلی طور پر، نہ ہی اس کے کسی خطے پر جزوی طور پر ہوتا ہے، کیونکہ گلگت بلتستان یکم نومبر کو ڈوگرہ استبداد سے آزاد ہوا۔ ہنزہ نگر نے 29 نومبر 1947ء کو پاکستان سے الحاق کیا۔ بلتستان نے 14 اگست 1948ء کو ڈوگروں سے آزادی حاصل کرکے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور اقوام متحدہ کمیشن برائے انڈیا پاکستان کی قراداد جس میں ریاست جموں و کشمیر مین استصواب کی بات کی گئی ہے، وہ 5 جنوری 1949ء کو منظور ہوئی ہے۔ 5 جنوری 1949ء تک گلگت بلتستان کے تمام علاقے پاکستان کے زیر انتظام آچکے تھے، اب قراداد میں 1949ء میں موجودہ ریاست جموں و کشمیر استصواب رائے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اصل میں گلگت بلتستان کو تقسیم کرکے آئینی حقوق دینے کی کوششیں اسلئے کر رہی ہیں اور مذکورہ بالا موقف جی بی کے حوالے سے اس لئے اختیار کیا جا رہا ہے کیونکہ گلگت بلتستان کو اس مرحلے پر حقوق دینے میں جو سرگرمی نظر آرہی ہے، وہ پاک چائینہ اکنامک کوری ڈور کی وجہ سے ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس اقتصادی راہ داری کی وجہ سے گلگت بلتستان کو حقوق دے دیئے جائیں تو بھارت کے ناخدا ناراض ہوتے ہیں، کشمیری بھی شور کرینگے۔ تو ان کا منہ بند کرنے کیلئے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے بعض علاقوں کو ابھی قربانی کا بکرا بناکر رکھا جائے اور جن علاقوں سے راہداری گزرتی ہے، اسے فی الحال آئینی حقوق دیئے جائیں۔ ایسا ہوا تو جی بی میں بہت سخت ردعمل ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 513163
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش