0
Wednesday 20 Jan 2016 19:30

مزاحمت اسلامی اور دولت اسلامی میں فرق!! (آخری حصہ)

مزاحمت اسلامی اور دولت اسلامی میں فرق!! (آخری حصہ)
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)
(گذشتہ سے پیوستہ)


2006ء اور 2008ء میں لبنان اور فلسطین میں اسلامی مزاحمت کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہونے کے بعد غاصب صیہونی ریاست اسرائیل اور اس کے آقا عالمی دہشت گرد امریکہ اور دیگر حواریوں (بشمول عرب) نے اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ اسلامی مزاحمت کی کامیابیوں کے باب کو روکنے کے لئے سد باب کئے جائیں۔ بہرحال شیطان بزرگ امریکہ اور برطانیہ سمیت براہ راست اسرائیل اور خطے کی چند عرب ریاستیں اس نتیجہ پر پہنچ چکی تھیں کہ اسلامی مزاحمت جو دراصل حقیقی طور پر فلسطینیوں کی ترجمانی کر رہی ہے اور خطے میں اسرائیلی مفادات کے خلاف سرگرم عمل ہے اسے کسی بھی طرح راستے سے ہٹایا جائے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مغربی اور عربی سامراج کے گٹھ جوڑ سے مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر موجود ایک اور ملک کا انتخاب کیا گیا۔ جی ہاں اس مرتبہ لبنان نہیں بلکہ شام کو نشانہ بنایا گیا تھا، اور یہاں پر مزاحمت اسلامی کے مقابلے میں ایک ایسا گروہ کھڑا کیا گیا تھا جسے دولت اسلامی کا نام دیا گیا اور بظاہر اس گروہ کو مسلمان کلمہ گو ظاہر کیا جانے لگا لیکن آنے والے وقت نے ان کے چہروں پر پڑی نقاب ان کے غیر اسلامی اعمال کی مدد سے ہٹا ڈالی۔

شام میں چند گروہوں کی مدد سے شامی حکومت کے خلاف ایک مسلح مزاحمت کو جنم دیا گیا جسے شارٹ فارم میں داعش اور لانگ فارم میں دولت اسلامی کہا جاتا ہے، اس گروہ کا مقصد اسرائیل کے خلاف نہیں بلکہ اسرائیل کے لئے لڑنا تھا جبکہ خطے میں چند ایسی عرب ریاستوں کے عزائم کا دفاع کرنا بھی تھا کہ جو خود تاریخ میں غاصبانہ وجود رکھتی ہیں، بہرحال اس گروہ نے پہلے پہل تو شامی حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کیا، بعد میں انہوں نے عراق کو نشانہ بنایا، ان کی مدد کرنے والوں میں امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، فرانس، جرمنی، اٹلی، دیگر یورپی ممالک سمیت بدقسمتی سے سعودی عرب، قطر، ترکی، امارات اور ایسی کئی چھوٹی ریاستیں شامل تھیں کہ جن کو اپنے دفاع کے لئے بھی دوسرے ممالک کی افواج کی ضرورت پڑتی ہے۔

ایک طرف اسلامی مزاحمت تھی کہ جس کا آغاز 1948ء سے ہوا تھا اور دوسری طرف یہ دولت اسلامی ہے کہ جس کا آغاز 2011ء میں یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ 2006ء میں عراق پر امریکی تسلط کے دوران ابو غریب اور گوانتانامو کی جیلوں امریکی بدنام زمانہ ایجنسی سی آئی آئے کے ہاتھوں انجام پایا تھا۔ مزاحمت اسلامی نے ہمیشہ مظلوموں اور محروموں کی مدد کی تھی، فلسطین کی آزادی کے لئے قربانیاں پیش کی تھیں، حتیٰ اپنے گھر بار کو قربان کیا، اپنے پیاروں اور اپنی اولادوں کو اس راستے میں قربان کیا، خود بھی اسرائیلی جیلوں میں قید رہے، شہید ہوئے، لیکن غاصب اسرائیلی دشمن کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا، جبکہ اس طرف اب دولت اسلامی ہے کہ جس کا مقصد صرف اور صرف مسلمان ممالک میں جا کر دخل اندازی کرنا اور پھر اس کے ساتھ ہی مسلح جدوجہد شروع کرنا، بم دھماکے، قتل و غارت گری، جہاد النکاح جیسی بدعتوں کو پیدا کرنا، مسلمان ممالک کے وسائل پر قابض ہو کر اس کا فائدہ اسلام دشمن اور انسانیت دشمن قوتوں بالخصوص اسرائیل کو پہنچانا، معصوم انسانوں کے سر تن سے جدا کرنا، بدترین انداز سے انسانوں کا اجتماعی طور پر قتل کرنا اور پھر اس بھیانک قتل عام کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا کے ذرائع پر نشر کر کے پوری دنیا میں جہاں ایک طرف اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کرنا وہاں اسلام میں موجود جہاد جیسی ایک پاکیزہ جدوجہد کو بھی اپنے ناپاک فعل سے تشبیہ دے کر جہاد کے اصلی معنی اور مفہوم کو توڑ موڑ کر اور خراب طریقے سے پیش کرنا۔

دراصل دولت اسلامی کے تحت انجام پانے والی تمام تر سفاکانہ کاروائیوں کا محور ہمیشہ معصوم اور نہتے افراد رہے، خواہ مسلمان ہوں، خواہ عیسائی یا کسی بھی رنگ و نسل سے ہوں یا کسی بھی مسلک سے، بس دولت اسلامی نے انہیں اپنی سفاکیت کا نشانہ بنایا، شام میں ایک لاکھ سے زائد معصوم انسانوں کو اسی طرح قتل کیا گیا جبکہ اس کے مقابلے میں مزاحمت اسلامی نے آج تک کسی بےگناہ کو قتل نہیں کیا بلکہ اسلامی اقداروں کی ہمیشہ پاسداری کی اور جنگ کے دوران بھی دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے اسلامی سنہرے اصولوں کی مکمل پاسداری کی، کبھی بھاگتے ہوئے دشمن پر وار نہیں کیا، دشمن کے سر بھی تن سے جدا کر کے ان کے سروں سے فٹ بال نہیں کھیلی، جبکہ دولت اسلامی نے تو مسلمانوں کلمہ گو لوگوں کے سر تن سے جدا کئے اور اس کے ساتھ فٹ بال کھیلتے رہے۔ اسی طرح مزاحمت اسلامی ہمیشہ مظلوم اور محروم لوگوں کے حقوق کے لئے سینہ سپر رہی، ہمیشہ مظلوم ملت فلسطین کے حقوق کا دفاع کیا، جبکہ دولت اسلامی نے شام میں پناہ گزین فلسطینی مہاجرین کے یرموک کیمپ کو نہ صرف اپنی سفاکانہ کاروائیوں کا نشانہ بنایا بلکہ ان مظلوموں کا بھی بڑے پیمانے پر قتل عام کیا۔

مزاحمت اسلامی ہمیشہ اسرائیل جیسے خونخوار دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی کیونکہ اسرائیل نے 48ء میں فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا، 67ء میں قبلہ اول پر تسلط کیا اور اسی طرح  78ء میں لبنان میں داخل ہوا، 73ء میں مصر، اردن، شام اور لبنان کے علاقوں پر قبضہ کیا، 82ء میں پورے لبنان پر قابض ہوا، اس کے مقابلے میں مزاحمت اسلامی کے جانبازوں نے قیام کیا جبکہ دولت اسلامی نے درج بالا ممالک بالخصوص شام، مصر، عراق، لیبیا، افغانستان میں داخل ہو کر خون کی ہولی کھیلنے کا بازار گرم کیا اور قتل بھی کیا تو معصوم شہریوں کو کہ جو کلمہ گو تھے، مسیحی تھے، یا کسی مذہب کی بات نہ بھی ہو تو انسان تھے۔

مزاحمت اسلامی آج بھی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو اپنا اولین دشمن سمجھتے ہوئے ہر محاذ پر سینہ سپر ہے اور اس راستے میں قربانیاں پیش کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف مزاحمت اسلامی کو اب اندرونی دشمن دولت اسلامی کا خطرہ بھی لاحق ہو چکا ہے، کیونکہ یہ دشمن ایسا دشمن ہے کہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آیا ہے جہاں اس دشمن نے معصوم انسانیت کے خلاف کاروائیاں انجام دیں ہیں وہاں اسی دشمن نے مزاحمت اسلامی کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور مزاحمت اسلامی کے کئی جانبازوں کو نشانہ وار قتل کیا ہے۔ دولت اسلامی کو وجود بخشنے والے عربی و مغربی ممالک نے انتہائی چالاکی کے ساتھ پہلے اس گروہ کی مدد کی اور جب چار سال مسلسل شام میں اور اس کے بعد عراق میں شکست کا سامنا ہوا تو اب بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی ہے اور اب امریکہ سمیت دیگر تمام یورپی اور عربی اتحادی کہتے ہیں کہ ہر قسم کی انتہا پسندی کے خلاف کارروائی کی جائے، دراصل یہ لوگ مزاحمت اسلامی کو بھی اپنی زبان میں انتہاپسندی کہتے ہیں جبکہ اسرائیل ان کے نزدیک بین الاقوامی امن کا ایوارڈ یافتہ ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی واضح طور پر موجود ہے کہ اگر کوئی دشمن یا کوئی غاصبانہ طور پر کسی سرزمین پر قابض ہو جائے تو اس سرزمین کے باشندوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اس غاصب کے خلاف مسلح جدوجہد کریں، لیکن مغربی اور عربی سامراج اب فلسطین کے لئے کی جانے والی اسرائیل مخالف اس جدوجہد کو بھی انتہاپسندی سے تشبیہ دیتا ہے، منصوبہ یہ ہے کہ دولت اسلامی تو انہوں نے خود ہی بنائی ہے اس کے خلاف کاروائی کا اعلان کیا جائے اور اس حوالے سے پوری دنیا میں اتحاد تشکیل دئیے جائیں اور پھر کیونکہ دولت اسلامی تو گھر کی بات ہے اس کے سرغنہ دہشت گردوں کو محفوظ مقامات پر لے جایا جائے گا کیونکہ عربی اور مغربی سامراج کی اصل مشکل تو مزاحمت اسلامی ہے جو نہ تو بکتی ہے اور نہ جھکتی ہے بلکہ مظلوموں اور محروموں کے لئے اور ظالموں کے خلاف سرگرم عمل ہے، اب دولت اسلامی کے خلاف کاروائی کا اعلان کر کے ساتھ ساتھ مزاحمت اسلامی کے خلاف بھی گھیرا تنگ کیا جائے اور 2000ء اور 2006، 2008ء اور 2012، 2014ء میں جو مقاصد حاصل نہیں ہوئے انہیں حاصل کیا جائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ دولت اسلامی بنانے کا مغربی اور عربی مقصد اور اس کے خلاف اب مغربی اور عربی اتحادوں کی جانب سے کارروائی کا اصل مقصد اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا اور حقیقی مزاحمت اسلامی کو ختم کرنا ہے۔ کیونکہ اگر مسلم دنیا کے چند عرب خائن حکمران سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے تو شاید یہ دولت اسلامی کو وجود نہ بخشتے اور مسلم امہ کے قلب پر موجود خنجر (اسرائیل) کے خلاف مزاحمت اسلامی کے حق میں کوئی اتحاد تشکیل دے کر مسلمانوں کے قبلہ اول کی بازیابی کی کوشش کرتے۔ بہرحال مزاحمت اسلامی اور دولت اسلامی میں بڑا اور واضح فرق موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ مزاحمت اسلامی مظلوموں کے دفاع کے لئے جبکہ دولت اسلامی ظالموں کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل ہے۔
خبر کا کوڈ : 513942
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش