0
Friday 22 Jan 2016 16:30

ثالثی کی کوششوں سے شہریوں کو لگی امیدیں

ثالثی کی کوششوں سے شہریوں کو لگی امیدیں
ترتیب و تنظیم: ٹی ایچ بلوچ

پہلی جنگ عظیم کے بعد سے عالم اسلام میں بحرانوں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے، نائن الیون کے بعد صورتحال مزید ابتر ہوگئی ہے۔ عراق پہ امریکا کی جارحیت، افغانستان میں نیٹو افواج کی یلغار، شام کی خانہ جنگی، لیبیا میں افراتفری اس کی چند مثالیں ہیں۔ نائجیریا کے بوکو حرام، القاعدہ، النصرہ کے بعد داعش کی دہشت گردی نے مزید سنگین حالات پیدا کر دیئے ہیں۔ پاکستان کے لیے ایران اور سعودی عرب دونوں ہی ممالک کی اہمیت اتنی زیادہ ہے، اور مشرق وسطٰی کے حالات کے اثرات تمام عالم اسلام پر مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا انکے درمیان حالیہ تنازع کو اگر ختم نہیں تو ممکنہ حد تک کم کیا جانا ازحد ضروری ہے، وقت کے اسی اہم تقاضے کو سمجھتے ہوئے پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کے لئے کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے پہلے مرحلے میں سعودی عرب کا رخ کیا اور بعد ازاں ایران گئے۔ یہ اہم اقدام نہایت لائق ستائش ہے اور اس حقیقت کا مظہر بھی کہ اب اگر تمام تر نہیں تو کئی اہم معاملات پہ سول اور فوجی قیادتیں ایک پیج پہ آچکی ہیں اور انکے درمیان یہ ہم آہنگی کئی اہم قومی امور پہ بھی معاملات کو بہتر بنانے کی مد میں بہت ممد و معاون ہوگی۔

ثالثی کے اس اقدام کی کامیابی کے امکانات کی بابت بھی کئی سوالات اٹھ رہے ہیں، جن میں سب سے بڑا تو یہ ہے کہ کیا اسکی کوششوں کو شرف قبولیت بھی مل پائے گا یا پھر دونوں جانب یا کسی ایک جانب سے اسکو ہری جھنڈی دکھا دی جائیگی۔ اسی طرح یہ سمجھا جانا بھی بیحد ضروری ہے کہ یقیناً اس ضمن میں پہلے کافی ہوم ورک کر لیا گیا ہوگا اور اندر خانے بیک ڈور ڈپلومیسی بالضرور بروئے کار لائی گئی ہوگی اور دونوں جانب سے خیر مقدمی "گرین سگنل" ملنے کے بعد ہی معاملات کا یہ رخ بنا ہوگا۔ درحقیقت اس وقت خطے کے یہ دونوں ممالک آپس میں کسی قسم کا براہ راست تصادم خود بھی نہیں چاہتے کیونکہ مشرق وسطٰی کے تمام ممالک کو تیل کی گرتی ہوئی قیمت، اسکے نتیجے میں زوال پذیر معیشت کے آسیب نے بری طرح جکڑ رکھا ہے اور امن دونوں ہی کی لازمی ضرورت ہے۔ جن خلیجی ممالک نے گذشتہ ہفتے ایکدوسرے کے خلاف جو تلخ بیانات دیئے تھے، اب انکی شدت میں کمی آگئی ہے، کیونکہ سب ممالک ہی رفتہ رفتہ جذبات کے بجائے حقائق کی دنیا میں واپس آتے جا رہے ہیں۔ اس وقت انکو ضرورت تھی تو کسی ایسے قابل بھروسہ ملک کی کہ جو دونوں کیلئے قابل قبول ہو، وہ آگے بڑھکر انکے درمیان مذاکرات اور گفت و شنید کی راہ ہموار کر دے اور یہ ضرورت پاکستان کی شکل میں پوری ہوتی نظر بھی آرہی ہے، کیونکہ پاکستان خواہ وسائل میں کتنا ہی کم سہی لیکن اسکی عسکری و جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے اور دونوں ممالک سے اسکے تعلقات کی تاریخ بھی کافی پرانی ہے۔

یہ بھی ضروری ہے کہ ثالثی کے اس عمل میں کم از کم دو اور ممالک کو بھی شامل کیا جائے کہ جن پہ یہ دونوں ممالک متفق ہوسکتے ہوں، اس طرح یہ ثالثی اور بھی موثر اور بامعنی ہوسکتی ہے کہ جب اس میں فریقین کی رضامندی سے چین کو بھی شریک کر لیا جائے، چونکہ چین کے کبھی کوئی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے، چین سے بظاہر خطرہ بھی کوئی نہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کا دورہ سعودیہ عرب اور ایران بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس امن مشن کےدوران وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف مصالحت کے لئے مختلف تجاویز دونوں ممالک کے آگے رکھی ہیں۔ سفارتی حلقے اس دورے کو بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔ دو بڑے اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی کسی طور پر بھی امہ کے حق میں نہیں ہے۔ دوسرا اس کشیدگی کی وجہ سے خطے کا امن خطرے میں ہے۔ پاکستان اس بات کا خواہاں ہے کہ بات چیت کے ذریعے سے مسائل کو حل کیا جائے۔ سیاستدانوں، صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور پاکستانی عوام نے اسے نہایت خوش آئند قرار دیا ہے۔ موجودہ دور میں رائے عامہ کو سمجھنے کا اہم ذریعہ سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی شدت پسند عناصر کے علاوہ سب لوگوں نے مصالحتی دورے کا خیر مقدم کیا ہے۔ جیسا کہ ایم پی اے حنا بٹ نے ٹویٹ کیا ہے کہ دونوں شریف پیس مشن پر ہیں۔ ایم این اے مائزہ حمید نے ٹویٹ کیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور راحیل شریف خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ صحافی وسیم عباسی نے ٹویٹ کیا کہ یہ ایک بہترین اقدام ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم امت مسلمہ کے خیر خواہ اور نیوٹرل ہیں۔ دوسری طرف سول ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے۔

مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس دورے کو سراہتے رہے۔ عام پاکستانی شہری اس دورے سے بہت پرامید ہیں۔ جیسا کہ مریم مصطفٰی نے ٹویٹ کیا کہ وزیراعظم نواز شریف اسلامی ممالک میں امن کے خواہاں ہیں، جس کے لئے وہ بہت سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں، عثمان دانش کہتے ہیں کہ دونوں شریفوں کی امن کے لئے کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ شہزادہ مسعود کا خیال ہے کہ عالم اسلام میں امن اور یکجہتی کے لئے ایک اچھا قدم ہے، اللہ اس نیک کام میں وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کو کامیابی دے۔ مبشر اکرم کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم ممالک کے حوالے سے جدید ڈپلومیسی رکھتا ہے، پاکستان کی ضمانت پر یہ معاملہ حل ہوجائے گا۔ عاطف متین انصاری نے ٹویٹ کیا ہے کہ اس دورے سے پاکستان مخالف قوتوں کا خواب چکنا چور ہوگیا، جو سمجھتے تھے کہ پاکستان کو فرقہ واریت کی جنگ میں جھونکا جاسکتا ہے، سول حکومت کے تدبر اور فوج کی عسکری قوت سے پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔ محمد عثمان نے ٹویٹ میں دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انشاء اللہ پاکستان کی کوششوں سے ایران اور سعودیہ عرب میں کشیدگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ سوشل میڈیا کے ایک اور یوززر جون ایلیا نے ٹویٹ کیا ہے کہ وقتی طور پر ایران اور سعودیہ عرب میں کشیدگی ختم ہو جائے گی۔ ایک اور شہری شہریار علی نے ٹویٹ کیا انشاءاللہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا مشترکہ دورہ ایران سعودیہ سود مند ثابت ہوگا۔ عرفان علی نے ٹویٹر پہ لکھا ہے کہ پاکستان نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اسلام کا قلعہ ہے۔ عبد الخالق نے فیس بک پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے امید ہے اور میں خدا کے حضور دعاگو ہوں کہ وہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے سعودی عرب اور ایران کے اس دورے کو کامیاب بنائے، دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کا خاتمہ ہو، برادرانہ تعلقات قائم ہوں اور مشرق وسطٰی میں پوری دنیا میں دیرپا امن واستحکام قائم ہو۔

دونوں ممالک کے دورہ جات کے بعد پاکستانی قیادت بھی کافی پرامید ہے کہ مشرق وسطٰی میں تناو بتدریج کم ہوتا جائے گا۔ تہران میں وزیراعظم محمد نواز شریف نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لئے اپنے دورے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ملکوں سے مثبت جواب ملا، سعودی عرب اور ایران بات چیت کے لئے بھی تیار ہیں، دونوں ملک ایک دوسرے کو دشمن نہیں سمجھتے، پاکستان میزبانی کرنا چاہتا ہے، ایران آمادہ ہے، سعودی عرب سے بات کریں گے۔ انہوں نے دورہ جات کے بعد پیشرفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران نے تنازع کے سلسلے میں فوکل پرسن مقرر کرنے پر اتفاق کیا ہے، سعودی عرب سے بھی ایسا کر نے کا کہیں گے جبکہ پاکستان بھی اپنا فوکل پرسن مقرر کرے گا۔ پاکستانی وزیراعظم نے دورے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کے تنازع کا خاتمہ مقدس مشن ہے، کسی کے کہنے پر نہیں خود مصالحت کرانے کا فیصلہ کیا، سعودی عرب اور ایران کو دہشت گردی کے خطرے کا ادراک ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم امہ کے درمیان اتحاد اور یکجہتی ہونی چاہیئے، نازک وقت میں مصالحتی کردار ادا کرنا پاکستان کے لئے فخر کی بات ہے، پہلے بھی پاکستان اپنا فرض نبھاتا رہا ہے۔

تہران میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ایرانی وزیر دفاع کے مابین بھی ملاقات ہوئی، جس میں علاقائی سلامتی کے حوالے سے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان برادر اسلامی ملک ایران کو بڑی اہمیت دیتا ہے، خطے میں عدم استحکام کی وجہ دہشتگردی ہے، جس کی روک تھام کیلئے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ فی الوقت یہ کہنا بجا ہے کہ سعودی شاہ اور ایرانی صدر سے ملاقات کے بعد وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اطمینان کا اظہار اس بات کا غماز ہے کہ وہ دونوں ملکوں کی قیادت کو اپنی بات سمجھانے اور اس حوالے سے قائل کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ حالات میں سدھار لانے کے لئے سعودی عرب اور ایران کو اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ کشیدگی، لڑائی اور جنگ کسی کے بھی حق میں نہیں۔ امید ہے اس حوالے سے معاملات کو جب آگے بڑھایا جائے گا تو صورتحال مزید واضح ہوتی جائے گی۔ تاہم ضروری ہے کہ دونوں مسلم ممالک کے مابین امن کے عمل کو محض تعلقات بحال کرنے تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ انہیں اس بات پر بھی آمادہ کیا جائے کہ آئندہ ایسے اختلافات اور تنازعات کے سر اٹھانے کا اندیشہ باقی نہ رہے۔ اگر مسلمان آپس کے اختلافات ختم نہیں کرتے اور اپنے اور تمام مسلمانوں کے مشترکہ دشمن اسرائیل کو نظرانداز کرکے ایک دوسرے کے خلاف ہی اپنی ساری صلاحیتیں، توانائیاں اور وسائل ضائع کرتے رہے اور پاکستان کی طرف سے جاری کوشش سے جاری کشیدگی وقتی طور پر اگر ختم ہو بھی گئی تو تھوڑے عرصے بعد یہی مسائل پھر سر اٹھانا شروع ہو جائیں گے۔

یہ نکتہ نظر بہت اہم ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات اب اگر بحال ہو جاتے ہیں، تو اگلی کوشش یہ کی جائے کہ حال ہی میں جو 34 رکنی دفاعی اتحاد بنا ہے اور جس کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف نے اور پارلیمنٹ میں وزیر دفاع نے کہا ہے کہ یہ ایران کے خلاف نہیں، بلکہ اس کا مقصد دہشت گردی کے خلاف لڑنا ہے، اس میں ایران کو بھی شامل کیا جائے، کیونکہ وہ بھی دہشت گردی سے اتنا ہی متاثرہ ہے، جتنا اس خطے کے دوسرے ممالک۔ ایران کو اس میں شامل کرنے سے اتحاد کے بارے میں ایران سمیت بعض ممالک میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کا کافی حد تک خاتمہ ہوجائے گا۔ پاکستانی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا بھی عالم اسلام کے اچھے مستقبل کے لئے امید کا اظہار ہے کہ پاکستانی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان کے مذکورہ دونوں ملکوں کے ساتھ جس طرح کے قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں، ان کو استعمال کرکے سعودی عرب اور ایران کو ایک دوسرے کے قریب لایا جاسکتا ہے، تو اسی طرح مشرق وسطٰی کے دوسرے ممالک کو بھی متحرک کیا جائے تو ایک ایسا اسلامی بلاک وجود میں آسکتا ہے، جو مسلم امہ کو تعمیر و ترقی کی نئی اور حقیقی منزلوں کی جانب لے جانے میں رہنما ثابت ہو۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہی بلاک مسلم دنیا کو عالمی برادری میں وہ مقام دلا سکتا ہے، اپنے وسائل، صلاحیتوں، ورک فورس اور طاقت کی بنا پر جس کی یہ مستحق ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم ممالک اپنے اقتصادی وسائل ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرکے ضائع کرنے کے بجائے مسلم امہ کی مجموعی معاشی ترقی کے لئے بروئے کار لائیں۔ اب یہ کوئی راز نہیں کہ مسلمانوں کے دشمن مسلم ممالک کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے مختلف نوعیت کے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ان کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے بھی ضروری ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے کی خطائیں معاف کرکے اور اختلافات ختم کرکے ایک ہونے کا ثبوت دیں۔ گذشتہ سطور میں بیان کی گئیں آرا دراصل پاکستانی عوام کے دلوں کی آواز ہے، جس کے لئے وہ اللہ تعالٰی سے دعا گو ہیں کہ عالم اسلام کے حالات بہتر ہو جائیں۔ آمین۔
خبر کا کوڈ : 514012
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش