0
Thursday 21 Jan 2016 08:32

ایران سعودیہ تنازع اور پاکستان کا مصالحانہ کردار

ایران سعودیہ تنازع اور پاکستان کا مصالحانہ کردار
تحریر: تصور حسین شہزاد

ایک طویل عرصے بعد پاکستان نے عالم اسلام میں اپنا کھویا ہوا قائدانہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، یہ مقام دوبارہ حاصل کرنے کیلئے موجودہ قیادت نے جو قدم لیا ہے اسے اپنے پرائے سبھی سراہا رہے ہیں۔ یہ تحسین بنتی بھی ہے کیوںکہ اس وقت اسلامی ممالک جس دور ابتلا سے گزر رہے ہیں، اس سے نجات کیلئے کسی نہ کسی کو تو پہلا قدم اٹھانا ہی تھا۔ بنیادی طور پر یہ ذمہ داری اسلامی دنیا میں اثرورسوخ کے حامل ممالک ترکی، سعودی عرب، ایران اور پاکستان کی ہی تھی، مگر افسوس کہ سعودی عرب اور ایران ہی آپس میں ٹکرا گئے۔ ترکی شام کے مسئلے پر ایران سے فاصلے پر چلا گیا، لے دے کے پاکستان ہی بچتا تھا، جسے سعودی عرب نے مبینہ طور پر داعش کیخلاف تشکیل کردہ 34 ممالک اتحاد میں شامل کرکے اس کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔ تاہم پاکستان نے اتحاد میں شمولیت کے سعودی اعلان کی تائید کرتے ہوئے ساتھ ہی واضح کر دیا کہ پاکستان کسی ملک کیخلاف اپنی فوجیں روانہ نہیں کرے گا۔ البتہ سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی خطرہ درپیش ہوا تو اس کا دفاع کرنے میں پس و پیش نہیں کی جائے گی۔ یوں پاکستان نے کسی حد تک اسلامی بلاک کی تقسیم میں اپنے لئے درمیانی راستہ کھلا رکھ لیا۔ یہی وہ راستہ تھا جس میں ایران سعودیہ تنازع میں مصالحت کیلئے سمت نمائی کی اور پاکستان کی عسکری و سول قیادت کو دو بڑے اسلامی ملکوں کے مسئلے کو سلجھانے کیلئے پیش رفت پر اکسایا۔

بقول وزیراعظم نواز شریف کے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کیلئے ان سے کسی نے نہیں کہا بلکہ انہوں نے یہ قدم خود ہی اٹھایا ہے۔ سعودیہ ایران تنازع کا خاتمہ مقدس مشن ہے، جسے پاکستان اپنا فرض سمجھ کر نبھا رہا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ختم ہو جائے گی۔ خیال رہے کہ منگل کو پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سعودی عرب کا دورہ مکمل کرکے تہران پہنچی تھی۔ وزیراعظم نواز شریف نے دورے ایران و سعودی عرب کے درمیان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں مصالحتی کوششوں کی سلسلے میں کئے، آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ان کے ہمراہ تھے، ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی سے ملاقات کے بعد وزیراعظم نواز شریف بہت مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔ ان کا پراعتماد لہجہ بتا رہا تھا کہ دونوں متحارب ممالک نے ان ک صلح جوئی کی کوششوں کی پذیرائی کی۔ اسی بنا پر ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کو دہشتگردی کے خطرے کا ادراک ہے۔ اسی لئے وہ معاملات طے کرنے کیلئے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان نے بھی دونوں ملکوں کے خدشات ایک دوسرے تک پہنچا دیئے ہیں۔ سب سے اہم بات جو وزیراعظم پاکستان نے کہی وہ یہ تھی کہ سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے دشمن نہیں۔

یہ ایک بڑی امید افزا صورتحال کی نشاندہی ہے، جس سے پاکستان کے مصالحتی مشن کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ اسی تناظر میں نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے مابین تنازعات پر مذاکرات کے انعقاد اور میزبانی کیلئے تیار ہے۔ اس سلسلے میں فوکل پرسن مقرر کرنے کی ان کی تجویز سے ایران نے تو اتفاق کر لیا ہے، اب سعودی عرب سے اسی تناظر میں بات کی جائے گی۔ توقع ہے کہ ان کا جواب بھی خیر سگالی پر ہی مبنی ہوگا۔ تاہم اس بیان میں یہ وضاحت نہیں کی گئی تھی کہ اس تعاون یا مل کر کام کرنے کی نوعیت کیا ہوگی، اور کیا اس میں دوسرے اسلامی ممالک میں جاری کارروائیوں میں اشتراک بھی شامل ہے کہ نہیں، اب جبکہ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ایران اور سعودی عرب کی ایک دوسرے سے کوئی دشمنی نہیں، دونوں ملک دشمنی کے جھنجھٹ میں پڑنا بھی نہیں چاہتے۔ بلکہ بات چیت کے ذریعے معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ جتنی جلد ممکن ہوسکے ختم ہو جانا چاہیے۔

پاکستانی سول و عسکری قیادت نے دونوں ملکوں سے معاملے کو آسانی کیساتھ حل کرنے کی جو استدعا کی، خوش آئند بات ہے کہ دونوں فریق بھی اس پر رضا مند ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ پاکستان ایران اور سعودی عرب کی میزبانی کا شرف کب اور کن حالات میں حاصل کرتا ہے۔؟ کیونکہ جس طرح پاک بھارت تنازعات حل کرنے کیلئے مذاکراتی عمل کو سپوتاژ کرنے کی کوششیں کرنیوالے دہشتگردی پر اتر آتے ہیں، اسی طرح ایران سعودی عرب تنازع کو ہوا دینے والے بھی خاموش بیٹھنے والے نہیں۔ خاص طور پر اسرائیل، جسے ایران پر لگی پابندیاں اٹھنے پر تکلیف ہو رہی ہے، اب اسے اس کے سعودی عرب کیساتھ تعلقات معمول پر لائے جانے کی کوششیں کامیاب دیکھ کر مروڑ اٹھ رہے ہیں، اس نے پہلے تو ایران کی کلیئرنس ہونے کے باوجود بیان داغا کہ اسے ایران کے ایٹمی طاقت بننے میں کوئی شبہ نہیں، اب وہ ایران کے مقابلے میں داعش کو اپنے لئے کم برائی کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہے اور کہہ رہا ہے کہ اسے داعش کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ ایران اس کیلئے بدستور ایک بہت بڑا چیلنج رہے گا۔ ادھر پاکستان نے مصالحتی مشن کے اختتام پر دنیا کو بتایا ہے کہ ہمیں دہشتگردی کے عفریت کا مل کر مقابلہ کرنا ہے، اس کیلئے ایران سعودی عرب بھی ایک صفحہ پر آنے کو تیار ہیں۔ پاکستان کے مصالحتی وفد میں شامل پاک فوج کے سربراہ نے جس طرح کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے دونوں ملکوں کو اسلامی ممالک کو درپیش دہشتگردی اور داعش کی زور پکڑتی قوت کے مضمرات سے آگاہ کیا، اسی کے نتیجہ میں ایران سعودی عرب کے درمیان تلخیاں کم ہونے کی سبیل بنی ہے۔ جس کے بہت جلد مثبت اثرات مرتب ہونے کی امید بندھی ہے۔

وزیراعظم اور آرمی چیف کے مصالحتی مشن نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اٹھنے والے سوالات کی شدت میں کمی کرکے پاکستان کی کامیاب سفارتکاری کا نیا بات رقم کر دیا ہے۔ جس کا موجودہ حکومت کو کریڈٹ نہ دینا نامناسبت ہوگا۔ دیکھا جائے تو یہ جمہوری طرز حکومت کی ہی ظفریابی ہے کہ جس نے وزیراعظم نواز شریف کو وہ اعتماد بخشا کہ وہ ایسے ممالک کے درمیان رابطہ کرنے کیلئے تیار ہوگئے کہ جن کے درمیان حالیہ دنوں میں کشیدگی فزوں تر ہو کر عالم اسلام میں اضطراب پیدا کئے جا رہی تھی۔ پاکستان ایک طرح سے سعودی عرب کیساتھ دیرینہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے، جبکہ ایران کیساتھ تعلقات میں کبھی کبھار شکر رنجی در آتی رہی ہے، لیکن بطور ایک پڑوسی پاک ایران تعلقات کی اہمیت مسلمہ ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ایران نے بھی پاکستان کی مصالحتی کوششوں کا اسی طرح جواب دیا، جس طرح کا ردعمل سعودیہ کا تھا۔ امید کی جانی چاہیے کہ پاکستان نے ایک نہایت نازک موڑ پر امت مسلمہ کو بحران سے نکالنے کیلئے جو قائدانہ کردار سنبھالا ہے، وہ مستقبل میں بھی کامیابی کیساتھ جاری رہے گا، جس سے باقی دنیا بھی پاکستان کی اہمیت نظرانداز نہیں کرسکے گی۔
خبر کا کوڈ : 514013
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش