0
Thursday 21 Jan 2016 15:50

جوہری معاہدہ اور ایران امریکہ تعلقات

جوہری معاہدہ اور ایران امریکہ تعلقات
تحریر: فدا حسین بالہامی
fidahussain007@gmail.com


موجودہ دور میں قلیل مدتی اور جزوی پابندیاں بھی ایک ملک کی بقا اور سالمیت کو لے ڈوبنے کے لئے کافی ہوتی ہیں۔ اس اعتبار سے باعثِ حیرت ہے کہ ایران نے گذشتہ سینتیس (37) سال سے طویل المدتی اور ہمہ گیر پابندیوں کے باوجود اپنی سالمیت و بقا کو بچائے رکھا اور ہر محاذ پر اپنی استقامت کے آگے عالمی سامراج کے غرور و ںخوت کی ناک خاک پر رگڑ دی۔ بالآخر ایران نے عالمی برادری سے اپنے حقوق تسلیم کروا ہی لئے۔ گونا گوں اور سخت ترین پابندیوں سے عبارت ایک طویل دور کا خاتمہ ہوگیا۔ ماسوائے اسرائیل کے عالمی سطح پر بیشتر ممالک پابندیوں کے خاتمے کو ایک مثبت تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اسے دنیا کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز کہا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ یہ قدم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اس کامیابی پر خدا کا شکر ادا کیا اور ایرانی قوم کے عزم و ہمت اور صبر و استقامت کو لائق تحسین قرار دیا۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے ایرانی عوام کی استقامت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ایٹمی کامیابیوں کو قابلِ قدر گردانا، البتہ انہوں نے ایرانی عوام اور حکام کو امریکہ کی چال بازیوں اور نیرنگیوں کے مقابلے میں ہوشیار رہنے کی تاکید بھی کی۔

پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کیا ہوا کہ دنیا بھر سے کاروباری کمپنیوں نے ایران میں سرمایہ کاری کے لئے بے تابانہ ایران کا رخ کیا۔ ان کمپنیوں میں برطانیہ کی معروف کمپنی شل، فرانس کی ٹوٹال اور ہندوستان کی ریلنس انڈیا بھی شامل ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایران سے آخر کون سی ایسی ناقابل ِ معافی خطا سرزد ہوئی تھی کہ اسے قریباً چار دہائیوں پر محیط پابندیوں کے دور سے گزرنا پڑا، نیز کیا ایران نے اب اس خطا سے توبہ کر لی کہ اسے ان پابندیوں سے مثتثنٰی دراصل مشرقِ وسطٰی کے حوالے سے جو خواب امریکہ نے شاہِ ایران کی آنکھوں سے دیکھے تھے، ایران کے اسلامی انقلاب نے ان کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جو ایران خطے میں امریکہ کی آنکھ کا تارہ تھا، وہی اُسی آنکھ میں کانٹا بن کے چپنے لگا۔ نتیجتاً جس قدر یہ دو ممالک قریب تھے، اُس سے کئی گنا زیادہ ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔ تمام تر آپسی تعلقات منقطع ہوگئے۔ آپسی تعلقات کا دارومدار تو سفارتکاری پر منحصر ہوتا ہے۔ جبکہ 9 نومبر 1979ء کو تہران یونیورسٹی کے انقلابی طلباء نے ایران میں امریکی سفارت خانے کو (جو اصل میں جاسوسی کا اڈہ تھا) اپنے قبضے میں لے لیا۔ سفارتی لباس میں ملبوس امریکی خفیہ ایجنسی کے عملے کو مجرموں کی طرح گھسیٹ کر باہر نکالا۔ امریکہ اس خفت کو ٹھنڈے پیٹوں کیونکر برداشت کرتا۔ اُس نے ایران کو تباہ و برباد کرنے کی ٹھان لی۔

وہ دن اور یہ دن امریکہ اور ایران کے آپسی تعلقات بحال ہونے کے بجائے ہر نئے دن کے ساتھ بگڑتے چلے گئے۔ اس دوران امریکہ نے ایران پر گوناگوں الزامات عائد کئے اور ان الزامات میں سے جوہری ہتھیار بنانے کے الزام پر سب سے زیادہ فوکس کیا گیا۔ امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر عالمی رائے عامہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ایران کے ہاتھ اگر جوہری ہتھیار آگیا تو عالمی برادری کی خیر نہیں اور دوسری جانب ایران بھی امریکہ مخالف مہم کا مرکز قرار پایا۔ گذشتہ سینتیس سالوں میں پہلی مرتبہ فریقین اعلانیہ طور جامع ایٹمی معاہدہ کے حوالے سے ایک دوسرے کے روبرو ہوگئے اور غیر متوقع طور پر ایٹمی معاہدے پر متفق ہوگئے۔ معاہدے کا طے پانا تھا کہ عالمی میڈیا میں یہ بحث شروع ہوگئی کہ کیا ایران اور امریکہ گذشتہ تمام تر تلخیوں اور رقابتوں کو بھلا کر شیرو شکر ہو رہے ہیں۔؟ کیا یہ معاہدہ امریکہ ایران تعلقات کے ڈیڈلاک کو کھولنے کے لئے ایک جادوئی کلید کا کام کرے گا۔؟ یقیناً اس معاہدے سے عالمی معیشت اور عالمی سیاست پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ مگر یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ معاہدہ عمل درآمد کے مرحلے کو بآسانی عبور کرنے کے باوجود بھی دیرپا ثابت ہوگا اور اس کے نتیجے میں ہر دو سیاسی حریف عنقریب ایک دوسرے کے حلیف ثابت ہوں گے! اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ ہی جوہری توانائی کا حصول ایران کے اسلامی انقلاب کے بنیادی مقاصد میں سے ہے اور نہ ہی امریکہ کا اصل ہدف ایران کا جوہری پروگرام ہے۔ ایرانی قیادت کی نظر میں جوہری توانائی اسلامی نظام مملکت کے استحکام کے ذرائع میں سے محض ایک ذریعہ ہے اور امریکہ نے اسی نظام کو سبوتاژ کرنے کیلئے ایران کے ایٹمی مسئلے کو بہانہ بنایا ہے۔

دراصل ایران اور امریکہ کی حریفانہ کشاکش ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی۔ بات چیت کے ٹیبل پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھنے اور معاہدے طے پانے سے اگر یہی نتیجہ اخذ کیا جائے کہ اب ان کے سارے گلے شکوے دور ہوگئے تو یہ محض گمانِ باطل کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک نیا محاذ ہے، جہاں بظاہر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ ایک دوسرے کے گلے مل رہے ہیں، لیکن ان کا آپس میں بغل گیر ہونا دو بچھڑے ہوئے دوستوں کا بغل گیر ہونا نہیں بلکہ اکھاڑے میں دو پہلوانوں کا دورانِ ٹسل ایک دوسرے کو باہوں میں کس لینے کے مترادف ہے۔ بہرحال نظریاتی رقابت مسافتی قرب سے ہرگز ختم نہیں ہوتی ہے۔ مذکورہ معاہدے سے امریکہ اور ایران کے مابین بنیادی اختلاف کا دور ہونا دو ہی صورتوں میں ممکن ہے۔ اول یہ کہ دونوں ممالک اپنے اساسی نظریہ علی الخصوص سیاسی نقطہ نگاہ پر نظرثانی کرکے ان میں کافی حد تک ردو بدل کریں یا پھر ایک ملک فریقِ مخالف کے سامنے تسلیم ہوجائے۔ فی الواقع یہ دونوں صورتیں عنقا معلوم ہوتی ہیں۔ کیونکہ جامع اور حتمی معاہدے کے باوجود اعتماد سازی کا عمل مفقود ہے۔ فی الواقع ہر دو جانب سے وہی زبان استعمال ہو رہی ہے کہ جو معاہدے سے قبل ہوتی تھی اور ہر دو ممالک سابقہ روش پر ہی گامزن ہیں۔ امریکہ نے ابھی اسرائیل کی حمایت سے ہاتھ نہیں کھینچا ہے۔

چنانچہ پاکستان سے شایع ہونے والا روزنامہ ایکسپرس نیوز 19 جنوری کے اپنے اداریہ میں امریکی صدر اوبامہ کے کوٹ (quote) کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جوہری معاہدہ کامیاب سفارت کاری کا نتیجہ ہے، تاہم ایران اور امریکہ کے درمیان اختلافات اب بھی برقرار ہیں۔ جیسا کہ نیو یارک ٹائمز نے اپنے ایک اداریہ میں برملا لکھا ہے کہ "شکر ہے کہ امریکہ اور ایران کے مابین طے پانے والے ایٹمی معاہدے سے دنیا محفوظ ہوگئی، لیکن حقیقت میں جب تک امریکہ اور مغربی ممالک اسرائیل کی جارحیت کو لگام نہیں ڈالیں گے اور امریکہ اس کی پشت پناہی سے دست کش نہیں ہوگا، دنیا محفوظ نہیں رہ سکے گی۔" دوسری جانب ایران نے فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی بازیابی کو اپنی اولین ترجیحات سے خارج نہیں کیا ہے۔ وہ اعلانیہ طور پر اسرائیل مخالف مزاحمتی تحریکوں (حزب اللہ اور حماس) کی بھرپور پشت پناہی کر رہا ہے اور آئندہ اس وظیفہ سے دست کش نہ ہونے اور خطے میں امریکی بالادستی کو چلینچ کرنے کی پالیسی پر گامزن رہنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ایران نے بارہا اپنے اس موقف کو دہرایا کہ ایٹمی معاہدے پر متفق ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایران اور امریکہ کے مابین تمام تر اختلافات فرو ہوگئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ  معاہدے کا طے پانا تھا کہ امریکی کانگریس نے واویلا کرنا شروع کر دیا اور صدر بارک اوبامہ نے کہا کہ اگر ایران نے شرائط کو پورا کرنے سے لیت و لعل سے کام لیا تو پھر سے پابندیاں عائدہوں گیں۔

دوسری جانب ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے گذشتہ سال اپنے عید کے خطبے میں اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ کے حوالے سے ایران کا موقف اس کی موجودہ روش کے تناظر میں ہرگز تبدیل نہیں ہوگا اور انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ دشمن کے متحاوزانہ عزائم کو پہلے سے زیادہ کڑی نظر سے دیکھنا ہوگا۔ مذاکراتی عمل کے دوران بھی انہوں نے کئی مرتبہ فرمایا ہے کہ امریکا کا ماضی بدعہدی اور جھوٹ سے بھرا پڑا ہے اور فی الوقت وہ اپنی مستبدانہ روش پر ہی گامزن ہے۔ اپنے ایک اور اہم خطاب کے دوران مذاکرات میں شامل چھ عالمی طاقتوں کے متعلق ان کا یہ فرمانا ہے کہ ان چھ ممالک میں سے بیشتر ممالک قابلِ اعتبار ہی نہیں ہیں، کیونکہ ان کی پالیسی بدعہدی سے عبارت ہے۔ گویا آیت اللہ سید علی خامنہ ای مغربی دنیا سے یوں مخاطب ہیں:
جو تمہاری طرح کوئی تم سے بھی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہدو تمہیں اعتبار ہوتا

ان بیانات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اعتماد سازی کی فضا قائم کرنے کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ دراصل ایران اپنی معیثیت کو مضبوط کرکے امریکہ مخالف مہم کو اور بھی مستحکم کرنا چاہتا ہے اور امریکہ بھی ایران کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے کے لئے مجبور ہے۔ وہ محاذ، محاذِ مذاکرات ہے۔ دونوں ممالک اگر ایک دوسرے کے ساتھ افہام و تفہیم کی غرض سے مذاکراتی عمل میں شامل ہوجاتے، خصوصی طور پر عالمی سیاست کے حوالے سے ایک دوسرے کے موقف کو کسی حد تک جاننے اور ماننے کی نیت سے آمنے سامنے ہوجاتے تو تعلقات میں سردمہری بہت حد تک ختم ہوجاتی۔

اس سے یہ بات واضح ہے کہ ایٹمی ڈیل کے پسِ پشت مصالحتی جذبہ نہیں بلکہ مخاصمتی رویہ بطور محرک کام کر رہا ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے ایران کا صاف و شفاف موقف یہ ہے کہ وہ پرامن جوہری توانائی کے حق کو حاصل کرنے کے لئے مذاکراتی جدوجہد پر کمر بستہ ہوا ہے اور امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام پر روک لگانے کی خاطر اپنا واحد اور آخری تیر آزما لیا ہے۔ اس کے ترکش میں جتنے بھی تیر تھے، وہ سب اُس نے آزما لئے تھے۔ جو ایرانی قوم کے عزم و استقامت، ایرانی لیڈرشپ کی فہم و فراست، ایرانی دانشجویانِ علم و ہنر کی انتھک محنت اور ایرانی فوج اور رضاکار سرفروشوں کے جذبہ قربانی کے سامنے غیر مؤثر ثابت ہوئے۔ امریکہ نے عراق کے ذریعے ایران پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی۔ داخلی دہشت گردی کے ذریعے انقلاب اسلامی کے سرخیلوں کو شہید کروایا۔ مخملی انقلاب کے نام پر داخلی خلفشار کو ہوا دی۔ سلامتی کونسل کے توسط سے پابندیوں پر پابندیاں مسلط کر دیں۔ لیکن ان تمام حربوں سے ایران کی ہمہ جہت پیشرفت رُک نہ سکی۔ جہاں پابندیوں کی وجہ سے ایرانی قوم کو بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وہاں اس نے انہی پابندیوں کی بدولت خود انحصاری کا بیش قیمتی جوہر حاصل کیا۔ اس لحاظ سے دشمن نے اس کی خاطر جو شر کی تخم ریزی کی تھی، اسے اپنی محنت اور لگن سے ملت ایران نے خیر کی فصل کاٹی۔ فارسی ضرب المثل ہے کہ ‘‘عُدو شرے برانگیزد کہ خیر مادراں باشد’’ یعنی دشمن کی شرانگیزی نے ماں کی مامتا کا اثر دکھایا۔ استکباری قوتوں نے بھرپور انداز میں دھمکی، دباؤ سے کام لیا، تاکہ اعصابی جنگ کا سماں باندھ کر ایرانیوں پر خوف و دہشت طاری کریں۔ مگر ان کا یہ ہتھیار بھی کارگر ثابت نہ ہوسکا۔

المختصر تمام ہتھکنڈے آزما لئے۔ لے دے کے یہی ایک راستہ بچا تھا۔ اس بات کا برملا اظہار امریکہ کے سیکرٹری خارجہ نے بھی ان الفاظ میں کیا۔ ‘‘ایران کے جوہری مسئلے کا پُرامن اور بہترین حل ایک خوش آئندہ امر ہے اور معاہدے کے ناقدین تنقید کے سوا کوئی بھی متبادل راہِ حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔’’  یہ بیان بذات خود امریکہ کی مجبوری کا آئینہ دار ہے۔ ایرانی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو معاہدے کے دو اہم اہداف تھے، اول یہ کہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کو عالمی سطح پر آئینی حیثیت حاصل ہوجائے، اس طرح پرامن جوہری توانائی کا یہ متبادل ذریعہ ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ دوم یہ کہ معاہدے کے نتیجے میں اقتصادی پابندیاں ہٹا دی جائیں، تاکہ ایرانی معیشت میں استحکام پیدا ہو۔ فی الوقت ان دو مقاصد میں ایران کم و بیش کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر بیشتر غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ معاہدے کی شقوں کے مطابق ایران کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ اس کی خاص وجہ فریقِ مخالف کے مزاکرات کاروں کی منقسم رائے تھی، جس کا فائدہ ایرانی سفارتکاروں کو مل گیا۔ بی بی سی سے وابستہ امورِ مشرق وسطٰی کے ماہر اور معروف تجزیہ نگار کیوں کنولی نے ‘‘ایرانیوں نے میدان مار لیا’’ عنوان کے تحت ایک تجزیاتی کالم لکھا ہے۔ اسی کالم کی ایک ذیلی سرخی کا عنوان ‘‘ایرانیوں نے مات دے دی’’ رکھا۔ عنوان اور ذیلی عنوان سے ہی کالم نگار کی ایٹمی معاہدے کے حوالے سے رائے عیاں ہوجاتی ہے۔

بہر کیف ایران نے اپنا دیرینہ مطالبہ عالمی سطح پر تسلیم کروا لیا ہے۔ غالباً یہ دنیا کی واحد جوہری سرگرمی ہے کہ جسے اس معاہدے کے ذریعے آئینی حیثیت حاصل ہوگی۔ نیز اس بات پر اہل ایران کا اتراتا بجا ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ فریق مخالف یعنی امریکہ ویانا سے بالکل خالی ہاتھ لوٹ آیا ہے۔ امریکہ کے پیشِ نظر بھی اس معاہدے سے منسلک چند خفیہ اور چند ایک آشکار اہداف رہے ہوں گے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر اوباما عہدۂ صدارت سے سبکدوشی سے قبل سابقہ امریکی صدر نکسن کی طرح امنِ عالم کے تئیں کوئی یادگار کارنامہ رکھ چھوڑنا چاہتے ہیں، تاکہ تاریخ میں ان کا نام امن و آتشی کے باب میں بھی درج ہو۔ لہذا امریکہ اپنے کرتوت کے سبب ایک معیوب و منفور ریاست کے طور جانا پہچانا جاتا ہے اور پورے عالم علی الخصوص عالم اسلام میں عوامی سطح پر امریکا مخالف جذبات و احساسات ابھر رہے ہیں۔ لیکن حکومتی سطح پر گنے چنے ممالک نے ہی ان عوامی جذبات و احساسات کے عین مطابق اپنی خارجہ پالیسی وضع کی ہے۔ ان حکومتوں میں ایران کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ امریکہ کے سامنے تسلیم نہ ہونے اور گذشتہ چار دہایوں سے مزاحمت و استقامت کی تاریخ رقم کرنے کی وجہ سے جو مقام و احترام امریکہ مخالف مزاحمتی کیمپ میں ایران نے حاصل کیا ہے، امریکہ اس مقام و احترام کو کسی بھی قیمت پر گرانا چاہتا ہے۔ اس مزاحمتی کیمپ کے مرکز کو تخت و تاراج کرنے کی خاطر امریکہ نے تمام جارحانہ اور مستبدانہ اقدامات اٹھائے، جو ثمر آور  ثابت نہ ہوسکے۔ اس کے برعکس ایران کی بہادری اور غیرت کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوگئی۔

المختصر جب امریکہ کے براہِ راست ہتھکنڈے غیر مؤثر ثابت ہوئے تو اُس نے بلواسطہ ہتھکنڈے آزما لینے کا تہیہ کرلیا۔ ہو نہ ہو یہ ایٹمی معاہدہ بھی انہی ہتھکنڈوں میں سے ایک ہتھکنڈہ ہو۔ جس کے ذریعے امریکہ اپنے چند ایک سیاسی مقاصد پیش نظر ہوں۔
اول:۔ چنانچہ تمام معاہدوں میں "کچھ لو اور کچھ دو" والے معاملے پر ہی بات بنتی ہے اور مذکورہ معاہدہ بھی اس کلی حقیقت سے مبراء نہیں ہے۔ لہٰذا ایران میں اندرونی سطح پر اس معاہدے کو لے کر انقلاب کے زبردست حامی عناصر اور حکومت کے مابین ٹھن سکتی ہے۔ نتیجتاً اندرونی طور پر ایران سیاسی انتشار کا شکار ہوسکتا ہے۔
دوم:۔ خارجی سطح پر استعمار کے خلاف صف آراء ممالک اور اقوام اس خیال کے تحت احساسِ کمتری کا شکار ہوجائیں کہ استعماری قوتوں کے خلاف جدوجہد میں سرخیل کی حیثیت رکھنے والا ایران ہی جب استعمار کے ساتھ مراسم بڑھائے تو اس سلسلے میں اٹھنے والی تحریکوں کا کیا حشر ہوگا؟
سوم: بقول رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای واضع اور آشکارا محاذ پر حزیمت کے بعد امریکہ اب خفیہ اور پیچیدہ محاذ یعنی ثقافتی اور تہذیبی سطح پر ایرانی معاشرے میں اثر و رسوخ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ مزید کسی مسئلے پر بات چیت کو ممنوع قرار دیا ہے۔
غالباً اول الذکر ردِعمل کے امکانات تو نہایت ہی کم ہیں۔ البتہ ثانیہ الذکر ردِعمل کے قوی امکانات ہیں، کیونکہ عالمی میڈیا پر صہیونی اور استعماری لابی کی زبردست گرفت ہیں اور عالمِ اسلام میں بھی نظریاتی بنیادوں پر بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پروپگنڈا مہم جاری ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے میڈیا علی الخصوص پرنٹ میڈیا، منفی رائے کو دیدہ و دانستہِ طور فروغ دیئے جا رہا ہے۔ کالم نگاروں کی ایک بڑی تعداد کے مطمع فکر کا احاطہ کیا جائے تو کلی طور پر یہی رائے سامنے آجاتی ہے کہ مذاکرات ایک ایسا شجر ممنوعہ ہے اور اس کے نزدیک جانے سے ایران ایک ناقابلِ تلافی گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے اور ان دو حریفوں کے درمیاں پر اب سیاسی دوستی کا بندھن بندھا چاہتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 514250
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش