0
Friday 22 Jan 2016 13:30

آستین کے سانپ اور دہشتگردی کا آسیب

آستین کے سانپ اور دہشتگردی کا آسیب
تحریر: تصور حسین شہزاد

چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر دہشتگرد حملے میں ایک پروفیسر اور طلباء و طالبات سمیت 30 سے زائد افراد شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔ جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔ سال رواں میں ہونے والا دہشتگردی کا یہ تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ جس وقت دہشتگرد باچا خان یونیورسٹی میں داخل ہوئے اس وقت باچا خان کی 28 ویں برسی کے حوالے سے ایک امن مشاعرہ ہو رہا تھا اور جامعہ میں 3 ہزار سے زائد طلباء اور 600 کے قریب مہمان موجود تھے، مگر سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی سے دہشتگرد ابتدائی مرحلے میں ہی مارے گئے، مگر مرنے سے پہلے وہ کئی معصوم جانیں لے چکے تھے۔ 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پر ہونیوالی دہشتگردی کے بعد باچا خان یونیورسٹی میں دہشتگردی کے دل دہلا دینے والے واقعہ نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ 21 جنوری کو ملک بھر یوم سوگ منایا گیا۔ کے پی کے حکومت نے 3 روز اور اے این پی نے 10 روزہ سوگ کا اعلان کیا جبکہ اہل درد یہ سوگ مناتے ہوئے ارباب بست و کشاد سے جواب طلب ہیں کہ آخر وہ کیا مجبوری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو قتل کرنیوالوں سے واقف ہونے کے باوجود ان کے نام لبوں پر لانے سے گریزاں ہیں۔ یہاں تک کہ قومی سلامتی کے ضامن سب سے بڑے قومی ادارے کے ترجمان میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے محتاط رویے اختیار کرتے ہیں۔ اشارہ تو دیتے ہیں کہ حملہ آور کہاں سے آئے، کس نے بھیجے، اس کا سراغ لگا لیا گیا ہے مگر مصلحتاً یہ معلومات صیغہ راز میں رہیں گے۔ تاوقت کہ کوئی ذمہ دار شخصیت اس کی اجازت نہ دے۔

میڈیا نے اپنے طور پر معلومات اکٹھی کی ہیں، ان کے مطابق دہشتگردی کی اس خونی واردات کا منصوبہ افغانستان میں بنا، جسے کابل میں پاکستان دشمن ایجنسیاں مانیٹر کر رہی تھیں۔ اس خونی واردات کیلئے مبینہ طور پر بھارت کے قونصل خانے نے اپنے ایجنٹوں کو 30 لاکھ روپے ادا کئے اور واردات کرنیوالوں کیساتھ مسلسل رابطہ رکھا۔ خبر ہے کہ اے پی ایس پشاور اور چارسدہ یونیورسٹی کا سانحہ ایک ہی گروہ کی کارستانی ہے۔ اسے پٹھان کوٹ واقعہ کے ردعمل میں دیکھا جا رہا ہے۔ کیونکہ بے شک مودی سرکار نے پٹھان کوٹ ایئربیس سانحہ پر پاکستان کو براہ راست ذمہ دار نہیں ٹھہرایا بلکہ اس واقعہ کے سلسلہ میں پاکستان کے تحقیقاتی مشن کے تعاون کی تحسین کی۔ لیکن بھارتی وزیر دفاع منوہر پارکر نے واشگاف انداز میں دھمکیاں دیں کہ جنہوں نے ہمیں تکلیف دی ہے، ہم بھی انہیں ایسا درد دیں گے کہ انہیں تادیر یاد رہے گا اور کل انہوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ کر دکھایا۔ پشاور، کوئٹہ اور اب چارسدہ میں ہونیوالے دہشتگردی کے واقعات کے پس پردہ ہاتھ کسی سے مخفی نہیں، لیکن مقام حیرت ہے کہ حکومت یہ سب جاننے کے باوجود مجرموں کے نام لینے سے اغماز برت رہی ہے۔ یہاں تک کہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے اظہار ہمدردی کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں، جبکہ اس اندوہناک سانحہ پر اظہار رنج و غم کرنیوالوں میں یورپی یونین، چین، امریکہ سمیت عالمی برداری بھی شامل تھی۔ امریکہ نے تو یہاں تک کہا کہ دہشتگرد پاکستان کو آئندہ نسلوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اس حملے کو باقاعدہ جنگی جرم قرار دے رہی ہے۔

ہم جو بار بار اس بات کو دوہرا رہے ہیں کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے، مگر حالت جنگ میں جس قسم کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جاتے ہیں، وہ ہمیں کہیں نظر نہیں آتے۔ یہاں تک کہ اے پی ایس حملے کے بعد بنایا جانیوالا 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان بھی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں اس لئے ناکام رہا کہ سیاسی حکومتوں نے اسے بھی متنازع بنا کر رکھ دیا ہے۔ ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز کی بہتات کرنے والوں کے پاس ملکی سلامتی کیلئے نیکٹا کو فعال کرنے کیلئے مطلوبہ فنڈز دستیاب نہیں ہیں، اس کی کیا توجیح ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کہتے تو ہیں کہ دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں کو بے رحم جواب دیا جائے گا، مگر کیسے؟؟ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات میں سے صرف 3 پر عمل کرکے؟؟ یہ کام بھی قومی سلامتی کے ضامن ادارے اپنی جانوں کی قربانی دے کر سرانجام دے رہے ہیں، جبکہ سیاسی جماعتیں جنہوں نے پروگرام کی متفقہ منظوری دی تھی، اب اس پر اعتراضات کی بھرمار کئے اسے نون لیگ ایکشن پلان سے موسوم کرکے اسے نتیجہ خیز بنانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔ ایک مبینہ مجرم پر اس قدر التفات سے ہی ظاہر ہے کہ سیاسی حکومتیں ملک سے دہشتگردی کا ناسور ختم کرنے میں کس قدر مخلص ہیں۔ یہاں ان مقتدر قوتوں سے بھی پوچھنا پڑتا ہے کہ آخر کب تک ہم برے اور بھلے انتہا پسندوں کے گروہ بنا کر ان سانپوں کو دودھ پلاتے رہیں گے، جو آئے روز ہمیں ہی ڈستے رہتے ہیں۔ دہشتگرد صرف دہشتگرد ہیں، ان کا نہ کوئی وطن ہے، نہ مذہب تو ان کیخلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی۔ انہیں نیست و نابود کرنے کیلئے کسی قسم کے امتیازات روا نہیں رکھے جائیں گے، تو پھر نام نہاد جہاد تنظیموں کو نام بدل بدل کر وطن عزیز میں سر چھپانے اور کارروائیاں جاری رکھنے کی اجازت کیوں ہے۔؟

ہم کیوں نہیں سجھتے کہ جس ہتھیار سے ہم دشمن کو ہزیمت سکھانے کا سوچتے ہیں، دشمن بھی اسی ہتھیار سے پلٹ کر ہم پر وار کرسکتا ہے۔ ملا فضل اللہ ہو یا مسعود اظہر، یہ آستین کے وہ سانپ ہیں، جو اپنے ہی پالنے والوں کو ڈستے ہیں۔ اس بات کا ادراک افغان حکومت اور ہم کیوں نہیں کر پاتے۔ بھارت کا دوغلہ پن کسی سے مخفی نہیں، ہم مسلمانوں کے قاتل مودی کے منہ سے رام رام سن کر کیوں اتنے رام ہو جاتے ہیں کہ اس کی بغل میں کھڑے منوہر پارکر جیسی تیز چھری کی دھار نہیں دیکھ پاتے۔ یاد رکھیئے آرمی پبلک سکول کے بعد باچا خان یونیورسٹی کا واقعہ ہمیں امریکی صدر کے اس بیان کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اور افغانستان کئی دہائیوں تک عدم استحکام سے دوچار رہیں گے، امریکی صدر کے اس بیان کے مضمرات اور اشارات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کیساتھ ساتھ سول اور عسکری قیادت کے ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ غیر اہم ہے، عوام اس طفل تسلی سے بہلنے کو تیار نہیں، کیونکہ سول حکومتیں سیاسی مصلحتوں کے تحت نیشنل ایکشن پلان پر کماحقہ عملدرآمد کرنے میں متامل ہیں۔ جب تک سیاسی قیادت اپنا ہدف الیکشن 2018ء کے بجائے حالات کی نزاکت بھانپ کر موجودہ صورتحال میں دہشتگردی کے مکمل خاتمہ کو بنا کر دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ان کے انجام تک پہنچانے میں مخلص نہیں ہوتی، آستین کے سانپ ہمیں یونہی ڈستے رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 514277
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش