0
Saturday 23 Jan 2016 22:30

پاک چین دوستی کے بعد ایران چین دوستی

پاک چین دوستی کے بعد ایران چین دوستی
تحریر: سید اسد عباس

چینی صدر اس وقت ایران کے دورے پر ہیں، کسی بھی چینی صدر کا گذشتہ چودہ برسوں میں ایران کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اس دورے کے نتیجے میں ایران اور چین کے مابین بہت سے طویل المدت معاہدوں پر دستخط ہوئے، جس میں توانائی کے شعبے میں ہونے والے معاہدے، سول نیوکلئیر ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والے معاہدے، سلک روٹ کی از سر نو تعمیر کا معاہدہ نیز دیگر کئی ایک معاہدے شامل ہیں۔ ایران اور چین نے طے کیا ہے کہ وہ اگلے دس برسوں میں اپنی باہمی تجارت کو 600 بلین ڈالر تک بڑھائیں گے۔ یاد رہے کہ سال 2014ء میں ایران اور چین کے مابین فقط 54 بلین ڈالر کا کاروبار ہوا تھا۔ چین ایران سے اس وقت بھی خام تیل خریدتا رہا، جب ایران پر عالمی برادری کی جانب سے پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ ان پابندیوں کے خاتمے کے بعد ان دونوں ممالک کے مابین تجارت کا بڑھ جانا بدیہی تھا۔ چین کی مانند اور بھی بہت سے ممالک نے ایران کے ساتھ کاروبار کو وسعت دینے کے لئے ہاتھ بڑھائے ہیں۔ ہندوستان ان ممالک میں پیش پیش ہے۔ چین اور ایران کے مابین کل سترہ معاہدوں پر دستخط ہوئے جبکہ ان دونوں ممالک کی قیادت نے اس ارادے کا اظہار کیا کہ وہ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لئے پچیس سالہ منصوبہ بندی پر مشتمل ایک دستاویز تیار کریں گے۔ چینی حکومت کے ایک روزنامے گلوبل ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ چین ایران سے اپنے روابط کو بہتر بنانا چاہتا ہے، تاکہ یورپ اور ایشیا کی مارکیٹوں تک اپنی مصنوعات کے لئے تجارتی کڑیاں پیدا کرسکے۔ روزنامے کے مطابق ایران سے روابط چین کی اپنی خواہش ہے، جس کے پیچھے چین کا ’’ ایک سڑک اور ایک خطے‘‘ کا تجارتی منصوبہ ہے۔

ایران نے چین سے داعش کے خلاف جنگ میں مزید فعال کردار ادا کرنے کے حوالے سے بات کی، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین اور روس کے ساتھ ایران کے روابط گذشتہ دس سال سے قائم ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ نیوکلیائی معاہدہ انہی تعلقات کا ثمرہ ہے کیونکہ ان دونوں ممالک نے دنیا کی دیگر طاقتوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر جا کر بات کریں۔ اس معاہدے کے پیچھے یقیناً ان دونوں ریاستوں کے تجارتی، اقتصادی اور تزویراتی مفادات ہیں، تاہم ایرانی سفارت کاری کو داد دینی پڑے گی جس نے دنیا میں بہت کم عرصے میں تمام تر اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایسا مقام حاصل کیا کہ دنیا کی دو طاقتور ریاستوں نے ایران کا مقدمہ عالمی سطح پر لڑا اور دنیا کی دیگر قوتوں کو اس امر پر مجبور کیا کہ وہ اپنی تیس سال سے زائد کی ہٹ دھرمی کو ترک کریں اور تمام مسائل کو مذاکرات کی میز پر حل کریں۔ چینی صدر زی نے آج ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دوطرفہ روابط کے علاوہ مشرق وسطٰی کے مسائل بھی موضوع گفتگو رہے۔ ایران کے روحانی پیشوا نے اپنی گفتگو میں داعش کے خلاف اتحاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے تمام تر اقدامات اسی انداز کے ہوتے ہیں، وہ اپنی روش میں کبھی مخلص نہیں ہوتے۔ انھوں نے کہا کہ آج مشرق وسطٰی مغرب کی غلط پالیسیوں کے سبب مسائل کا شکار ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی یہ گروہ دین اسلام کی نمائندگی کا حق رکھتا ہے۔

اسی طرح پاک چین تعلقات ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں، حقیقت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ پاکستان اور چین پچاس کی دہائی سے مضبوط روابط کے حامل ہیں۔ 1966ء میں چین نے ہمارے ساتھ فوجی میدان میں تعاون کا آغاز کیا، 1972ء میں چین ہمارا تزویراتی اتحادی بنا اور 1979ء میں تجارتی تعاون کا سلسلہ شروع ہوا جو بغیر کسی تعطل کے جاری و ساری ہے اس تعاون کی فضا میں حالیہ اہم پیشرفت پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہے، جس سے یقیناً دونوں ممالک کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ چین کا مال زمینی راستوں نیز ہماری بندرگاہوں سے دنیا کے بہت سے ممالک تک پہنچے گا، اسی طرح مشرق وسطٰی کے ممالک سے آنے والا تیل اور دیگر پڑولیم مصنوعات جنہیں چین تک پہنچنے کے لئے سولہ ہزار کلومیٹر کا سمندری فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا، اب گوادر کے راستے فقط چند سو کلومیٹر کی مسافت سے مسلسل حاصل ہوتے رہیں گے۔ جس سے یقیناً چین کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ان کی اقتصادی ترقی میں اضافہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ چین اس راہداری کے قیام کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بہت سی سرمایہ کاری کر رہا ہے، تاکہ اپنے اس روٹ کے تحفظ و تسلسل کو یقینی بنایا جاسکے۔ اقتصادی فوائد پر مبنی یہ روابط یقیناً علاقے میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں لائیں گے، چین کبھی نہیں چاہے گا کہ اپنی مصنوعات کو سیاسی، سرحدی اور دیگر ریاستی مسائل کی بھینٹ چڑھا کر اپنی تجارت کسی ایک ملک تک محدود رکھے۔

یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے یقیناً خطے میں موجود سیاسی، سرحدی معاملات پر بھی اثرات پڑنے کی توقع ہے۔ چینی صدر کا حالیہ دورہ ایران، مصر و سعودیہ اسی بات کا آئینہ دار ہے کہ چینی قوم اپنی تجارت کو دنیا بھر میں بالعموم اور خطے میں بالخصوص بڑھانے کے لئے نکل کھڑی ہوئی ہے۔ وہ یقیناً اس راہ میں آنے والی ہر مشکل خواہ اس کا تعلق کسی نوعیت کے مسائل سے ہی کیوں نہ ہو ختم کریں گے۔ اسی طرح روس نے بھی اپنی سرحدوں سے نکل کر اپنے اقتصادی مفادات کے تحفظ کا عزم کر لیا ہے۔ شام کے قضیے میں روسی افواج کی حالیہ مداخلت نیز داعش کے خلاف ایک مربوط حکمت عملی کا وضع کرنا اسی امر کی جانب نشاندہی کرتے ہیں۔ خطے میں ہونے والی ان اہم تبدیلیوں کے تناظر میں بہت اہم ہے کہ پاکستان خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اپنی آئندہ کی حکمت عملیوں نیز روابط کا تعین کرے۔ چائنہ کے ساتھ اقتصادی راہداری کا معاہدہ اس سلسلے کی پہلی اور خوش آئند کڑی تھا، ہمیں اقتصادی ترقی کی اس فضا سے استفادہ کرتے ہوئے دوست کے دوست کو دوست بنانا ہوگا۔

اگرچہ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہمارے سفارتی تعلقات بیانات کی حد تک ہمیشہ مثالی رہے ہیں، تاہم انتہائی افسوس کے ساتھ ہم ایران کے ساتھ کبھی بھی اقتصادی، فوجی، تزویراتی تعلقات قائم نہ کرسکے۔ ہماری اس سرد مہری نے بھارت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ برادر اسلامی ملک کے قریب ہو اور اپنے تعلقات کو اقتصادی لحاظ سے مضبوط کرے۔ پاکستان خطے میں امریکہ کا اتحادی رہا، جس کی وجہ یقیناً بھارت کی روس سے قربت تھی، اسی طرح ہم ایران سے دور رہے، جس کی وجہ عرب ریاستوں سے تعلقات اور امریکی پابندیاں تھیں، تاہم اب حالات مکمل طور پر بدل رہے ہیں، روس، چین، ایران، بھارت اور ایشیا کی دیگر اہم ریاستیں اقتصادی، فوجی، تزویراتی تعاون کی لڑی میں پروئی جا رہی ہیں۔ اس صورتحال میں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے اس لڑی کا حصہ بننا ہے یا اپنے پرانے اتحادوں سے جڑے رہ کر خطے کی ابھرتی ہوئی نئی طاقت کے مقابل محاذ میں بیٹھنا ہے۔ امیدوار ہوں کہ ہمارے حل اقتدار اس وقت جذباتیت کے بجائے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے وضع کریں گے۔ خداوند کریم ہمارے قائدین کو درست وقت میں درست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 514697
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش