0
Sunday 24 Jan 2016 22:30

2015ء ڈی آئی خان پہ کیا بیتی (2)

2015ء ڈی آئی خان پہ کیا بیتی (2)
رپورٹ: آئی اے خان

ماہ مئی

ماہ مئی میں شہر پہ بلدیاتی انتخابات کی گہما گہمی کا رنگ غالب رہا۔ شہر اور مضافاتی علاقوں میں جہاں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں زوروں پر تھیں، وہیں انتظامیہ کیلئے شہر بھر امن و امان کا قیام کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔ انتخابات کے دوران امن قائم رکھنے کیلئے مختلف علاقوں میں پولیس نے سرچ آپریشن کئے۔ اسی سلسلے میں مئی کے اوائل میں پولیس نے کلاچی کے علاقے زرنی خیل سرچ آپریشن کیدوران بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد کرکے تین ملزمان کو گرفتارکیا۔ دوسری جانب بلدیاتی انتخابات کیلئے دیئے جانے والے انتخابی نشانات اتنے متنازعہ اور عجیب و غریب تھے کہ کئی امیدواروں نے اس دوڑ میں سے نام واپس لینے کو ترجیح دی۔ نو مئی کو دیرینہ دشمنی کی وجہ سے بنوں کے رہائشی کو مسلح کارسواروں نے فائرنگ کرکے قتل کرڈالا۔ کار سواروں کو یارک کے علاقے سے گرفتار کیا گیا۔ بلدیاتی انتخابات کو محفوظ بنانے کیلئے ایف آر درازندہ میں موجود دہشتگردوں کی حوالگی کیلئے ڈیرہ انتظامیہ نے ایف آر انتظامیہ سے باقاعدہ مطالبہ کیا۔ قبل ازیں تھانہ درابن پولیس نے ایک اشتہاری ملزم کی گرفتاری کیلئے ایف آر درازندہ میں کارروائی کی، تو وہاں کے قبائل کی مزاحمت کی وجہ سے پولیس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر صادق حسین بلوچ نے پولیٹیکل انتظامیہ ڈیرہ کو تحریری فہرست فراہم کی ہے، کہ ان کے 13 ملزمان ایف آر درازندہ میں روپوش ہیں۔

فہرست کے مطابق عبدالوحید ولد آدم خان جو 1996 سے قتل کیس میں، فتح محمد ولد شبیر محمد 1998 کے قتل کیس، مصطفی ولد سعید خان 1994ء کے لڑائی کیس، سعید انور ولد غلام حیدر 2008ء کے قتل و اقدام قتل کیس، صدام ولد دلاور خان 2008 کے قتل و اقدام قتل کیس، وزیر خان ولد لعل گل شیرانی 2008ء کے لڑائی کیس، فضل کریم ولد خان محمد 2013ء کے قتل کیس، شیرا ولد اللہ نواز 2011ء کے اقدام قتل کیس، صادق ولد نذر گل 2013ء کے قتل کیس، محمد ہارون ولد عید محمد 2007ء کے دہشتگردی، قتل، اقدام قتل اور راہزنی کیس، میرک ولد خان مست شیرانی 2008ء کے لڑائی کیس، کامل خان ولد سدو گل 2009ء کے فراڈ کیس اور حضرت نور ولد سعید خان 2008 کے ایکسیڈنٹ کیس میں تھانہ درابن کو مطلوب ہیں، لہذا ان ملزمان کو گرفتار کرکے فی الفور ڈی آئی خان ضلعی پولیس کے حوالہ کیا جائے۔ مورخہ 14 مئی کو ضلعی سطح پر منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے کہا کہ ڈیرہ میں انتہاپسندی، دہشتگردی میں بیرونی لوگ ملوث ہیں۔ تقریب کے دوران ڈی پی او سے کسی صحافی نے یہ سوال کرنے کی زخمت نہیں کی کہ اگر مذکورہ حالات میں بیرونی لوگ ملوث ہیں تو روزانہ کی بنیاد پر مقامی افراد کی گرفتاریاں چہ معنی۔ کلاچی میں سرچ آپریشن کے اگلے ہی ہفتے 19مئی کو تحصیل کلاچی میں ضلع کونسل نشست کے امیدوار داود گنڈہ پور کے بھائی گوہر خان دہشتگردوں نے فائرنگ کرکے قتل کرڈالا۔ اس سے اگلے روز تحصیل پہاڑ پور پولیس نے مٹھہ پور کلاں میں عزاداری کے جلوس کے خلاف مقدمہ درج کرکے بانی و دیگر شرکا کو گرفتارکرلیا۔ حالانکہ شہادت امام موسیٰ کاظم (ع) کی مناسبت سے عزاداری کا یہ روایتی جلوس عرصہ کئی سال سے برآمد ہوتا تھا۔ مورخہ 25 مئی کو ڈیرہ سٹی میں مسلح موٹر سائیکل سواروں نے چنگ چی میں سوار دو سگے بھائیوں کو فائرنگ کرکے قتل کر ڈالا۔ بعد ازاں ڈی ایس پی صدر عمر دراز خان اور ڈی ایس پی سٹی توحید خان گنڈہ پور پولیس نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے نعشوں کو ہسپتال پہنچایا۔

اگلے روز پولیس نے انڈس کالونی میں سرچ آپریشن کرکے دونوں بھائیوں کے قاتل گل رحمان مروت کو گرفتار کیا، جو کہ پولیس کا برطرف اہلکار تھا۔ مورخہ 26 مئی کو ڈی آئی خان کی تحصیل درابن میں پولیس موبائل ڈیوٹی ختم کرکے رات بارہ بجے تھانہ درابن کی طرف آرہی تھی کہ کوڑا پل کے قریب اطراف میں چھپے چھ کے قریب دہشتگردوں نے چاروں طرف سے پولیس موبائل پر حملہ کر دیا۔ دہشتگردوں نے پولیس موبائل پر دو راکٹ فائر کئے۔ دستی بم پھینکے اور اندھا دھند فائرنگ کی۔ پولیس نے بھی جوابی فائرنگ کی اور ان کا آدھا گھنٹے تک مقابلہ کیا۔ جس کے بعد دہشتگرد موقع سے فرار ہو گئے۔ اس حملے میں سرکاری پولیس موبائل کا ڈرائیور اعظم سکنہ زندانی اور کانسٹیبل منیر سکنہ قائد آباد پنجاب شہید ہوگئے، جبکہ اے ایس آئی عبدالستار اور کانسٹیبل شاہجہان زخمی ہوگئے۔ جن کو فوری طور پر سول ہسپتال ڈیرہ پہنچا دیا گیا۔ حملے کے دوران پولیس فائرنگ سے قریبی کھڈ سے ایک دہشتگردکی نعش بھی ملی ہے۔ یاد رہے کہ اے ایس آئی عبدالستار اس سے پہلے بھی دہشتگردوں کے حملے میں زخمی ہو چکے ہیں۔ واقعہ کی اطلاع پر پولیس کی بھاری نفری علاقہ میں پہنچ گئی اور انہوں نے دہشتگردوں کیخلاف سرچ آپریشن شروع کر دیا۔ مذکورہ واقعہ کے بعد ضلع بھر میں سکیورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ 30 مئی کو بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں دفعہ 144 کے تحت سکیورٹی ہائی الرٹ رہی۔ پولنگ کے دن مختلف مقامات پر ہنگامہ آرائی اور تشدد کے واقعات پیش آئے، جبکہ تھویا فاضل پولنگ سٹیشن سے صوبائی وزیر مال علی امین خان گنڈہ پور بیلٹ باکسز کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑتے گئے، مگر انتظامیہ نے معاملہ کو دبانے کی کوشش کی۔

ماہ جون
بلدیاتی انتخابات میں متعدد مقامات پر دھاندلی کے واقعات کے بعد مختلف جماعتوں کی جانب سے شدید تحفظات کیا گیا۔ خاص طور پر صوبائی وزیر مال کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے مطالبہ کیا کہ عمران خان کی صوبائی حکومت اسی طرح مستعفی ہوجائے، جس طرح دھاندلی کے الزامات عائد کرکے وفاقی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔ بلدیاتی انتخابات اتنے متنازعہ تھے کہ انتخابات کے ایک ہفتہ بعد تک بھی سرکاری نتائج کا اعلان نہیں کیاجاسکا۔ اسی دوران سی ٹی ڈی پولیس نے گاؤں ابا شہید کے قریب کارروائی کے دوران موٹرسائیکل پرسوار باڑہ سے تعلق رکھنے والے دو دہشتگردوں بلال آفریدی ولد وارث اور شہزاد آفریدی ولد عمر علی خان سے چار راکٹ لانچر گولے، دو مارٹر گولے، دو میگنٹ بم، دو موبائل ڈیوائس، بارہ فٹ پریما کارڈ برآمد کرکے ملزمان کو گرفتارکرکے انکی موٹرسائیکل 125CC قبضے میں لے لی۔ سی ٹی ڈی پولیس نے ملزمان کیخلاف5Exp/7ATA کے تحت مقدمہ درج کرکے ملزمان سے تفتیش شروع کردی ہے۔ مورخہ گیارہ جون کو النجف کمپلیکس کے زیراہتمام کوٹلی امام حسین میں بیس جوڑوں کی اجتماعی شادیوں کی تقریب میں اہل تشیع کے اکابرین اور سابق سابق صوبائی وزیر مال سید مرید کاظم شاہ نے شرکت کی۔ماہ جون کے وسط میں تھانہ صدر کی حدود سی آر بی سی کالونی سے ڈیڑھ کلومیٹر دور پولیس اہلکار محمد اقبال کے گھرکے قریب سے پانچ دستی بم برآمد ہوئے، جن کے متعلق خدشہ طاہر کیا گیا کہ دہشتگردی کی ممکنہ کارروائی کیلئے یہ دستی بم کھیتوں میں چھپائے گئے تھے۔ سترہ جون کو پورے شہر کے حالات اس وقت انتہائی کشیدہ ہوگئے جب سٹی کے وسط میں واقع گومل مارکیٹ میں پٹھانوں اور راجپوتوں کے درمیان گالم گلوچ سے شروع ہونے والی لڑائی لمحوں میں مسلح تصادم کی صورت اختیار کرگئی۔ دونوں گروپون کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں بلال ولد عبدالحمید میانی سکنہ کوکار، اور جمعہ خان میانی سکنہ کوکار موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے، جبکہ فضل الرحمن ولد مصطفی میانی، فاروق ولد حمید میانی، بتائی خان ولد سب خان میانی، جعفر خان میانی، زرین خان ولد عبداللہ میانی، حفیظ راجپوت اور زبیر ولد ایوب راجپوت زخمی ہوگئے۔

اس واقعہ کے بعد شہر میں سخت کشیدگی پھیل گئی اور دونوں گروپوں نے ایک دوسرے کی دکانوں کو آگ لگانے کی کوشش کی۔ اس میدان کارزار کے دوران دیہاتوں سے آئی ہوئی غریب خواتین اور ان کے بچے دکانوں کے اندر محصور ہو کر رہ گئے۔ اس واقعہ کے فوراً بعد سٹی پولیس موقع پر پہنچ گئی تاہم دونوں گروپوں کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔ جس سے دونوں گروپ منتشر ہوگئے۔ واقعہ کی اطلاع پر ڈی پی او ڈیرہ صادق حسین بلوچ بھی پولیس نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور انہوں نے محصور خواتین اور بچوں کو دکانوں سے باہر نکالا۔ اس دوران پولیس نے گومل مارکیٹ اور بازاروں میں سرچ آپریشن کرنے کے بعد مارکیٹ کو سیل کردیا۔ مذکورہ واقعہ کے بعد شہر بھر میں کشیدگی پھیل گئی۔ کاروباری ادارے بند ہوگئے۔ مذکورہ واقعہ کے بعدسول ہسپتال کے باہرجاں بحق ہونیوالے میانی قوم کے مشتعل افراد نے جی پی او چوک پر رکاوٹیں ڈال کر روڈ کو بند کردیا۔ انہوں نے ٹائر جلا کر انتظامیہ کیخلاف نعرے بازی بھی کی۔ واقعہ کے بعد ڈی پی او نے ایس ایچ او سٹی کو معطل کردیا۔ مورخہ ۲۱ جون کو چاہ سید منور کے علاقے میں ۲۶ سالہ پولیس اہلکار نے گھریلو مسائل سے تنگ آکر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ اس واقعہ کے چار دن بعد تکفیری دہشتگردوں نے فائرنگ کرکے ایک اور شیعہ رہنماء کو شہید کر دیا ہے۔ تھانہ پروآ کی حدود میں پروآ اڈہ پر اقبال سیلون کے سامنے 125 موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے انجمن صدائے حسین کے صدر مختیار حسین بلوچ ولد خالقداد سکنہ پروآ پر فائرنگ کر دی۔ متعدد گولیاں لگنے سے مختیار حسین بلوچ شدید زخمی ہوگئے۔ انہیں طبی امداد کی غرض سے ہسپتال لے جانے کی کوشش کی گئی، مگر وہ راستے میں ہی شہید ہوگئے۔ ملزمان فائرنگ کے بعد موقع سے فرار ہوگئے۔ سی ٹی ڈی پولیس نے مقتول کے چچا زاد بھائی بشیر حسین بلوچ ولد صاحب داد کی رپورٹ پر دو نامعلوم ملزمان کیخلاف 302/34- 7ATA- PPC کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی کسی کیساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ شہید مختیار حسین کی نماز جنازہ شیعہ علما کونسل کے مرکزی نائب صدر علامہ رمضان توقیر کی اقتداء میں ادا کی گئی۔

ماہ جولائی
ڈی آئی خان پولیس نے ماہ جولائی کی جو کارکردگی رپورٹ جاری کی اس کے مطابق ضلع بھر میں ماہ جولائی کے دوران جرائم پیشہ اور ملک دشمن عناصر کے خلاف 21 سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کیے۔ ان آپریشنز کے دوران مختلف کاروائیوں میں 334 مشکوک افراد کو گرفتار کرکے ان کے قبضہ سے 11 ہینڈ گرنیڈز، 13 کلاشنکوف، 1 کلا کوف، 2 رائفلز، 14 بندوق، 36 پستول، 831 کارتوس اور ایک سو کلوگرام منشیات برآمد کرنے کے علاوہ 83 مجرمان اشتہاری گرفتار کیے گئے۔ انہی آپریشنز کے دوران 2051 گھر اور 405 ہوٹلز کو چیک کیا گیا اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف 31 مقدمات درج کیے گئے۔ تمام ضلع میں 260 پوائنٹس پر SNAP چیکنگ کے ذریعے 435 مشکوک افراد کو گرفتار کرکے ان کے قبضہ سے 2 بندوق، 11 پستول اور 83 کارتوس برآمد کیے۔ تمام ضلع میں 211 تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کاجائزہ لے کر ان میں سے 210 کو سکیورٹی کے متعلق ضروری ہدایات دی گئیں، جبکہ 1 سکول کے خلاف ناقص سکیورٹی کی وجہ سے ایف آئی آر درج کی گئی۔ چار جولائی کو پولیس نے شیعہ علماء کونسل، اور آئی ایس او سمیت اہل تشیع کی دیگر مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کیخلاف بے بنیاد مقدمہ درج کرلیا۔ دراصل کوٹلی امام حسین کی اراضی کی غیر قانونی لیز کے خلاف نماز جمعہ کے بعد شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر علامہ محمد رمضان توقیر کی قیادت میں اہل تشیع نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ اس احتجاجی مظاہرے میں آئی ایس او، ایم ڈبلیو ایم، شیعہ ینگ مین، و دیگر تشیع جماعتوں نے بھی شرکت کی تھی۔ کوٹلی امام حسین (ع) کے سامنے منعقد ہونیوالے مظاہرے میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی، انہوں نے وفاقی و صوبائی حکومت، انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی تھی۔ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی محکمہ اوقاف نے لیز پر دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس کے خلاف ڈی آئی خان کے اہل تشیع میں شدید غم و غصہ اور اشتعال پایا جاتا ہے۔ مظاہرے میں شریک افراد نے ڈیرہ بنوں روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بلاک کر دیا تھا۔ جس میں اسسٹنٹ کمشنر پہاڑپور کی گاڑی بھی پھنسی رہی تھی۔ علاوہ ازیں پولیس نے شہر بھر میں مختلف مقامات سے ۳۱ سے زائد افراف کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے ناجائز اسلحہ برآمد کرلیا۔

اگلے دن تھانہ یارک کے علاقے کورونہ میں ڈی ایس پی صدر عمر دراز خان کی قیادت میں ایک چھاپہ مار پارٹی نے اشہاری ملزم کو گرفتار کرلیا، ملزم سے کے قبضے سے اسلحہ کی بھاری مقدار سمیت منشیات بھی برآمد ہوئی۔ آٹھ جولائی کو ہتھالہ پولیس نے تحریک طالبان کے خطرناک دہشتگرد محمد زاہد ولد عبادالرحمن کوگرفتار کرلیا۔ مذکورہ ملزم ڈی ایس پی کلاچی ظہورالدین اور ہتھالہ روڈ پر ہونے والے حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ اس گرفتار کو پولیس کی نمایاں کامیابی گردانا گیا۔مورخہ ۹ اور ۱۰ جولائی کو شہادت امام علی علیہ السلام اور عالمی یوم القدس کے باعث شہر بھر میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات تھے۔ مختلف مقامات پر ناکہ بندی کے دوران متعدد مسلح افراد گرفتار ہوئے، تاہم وہ پولیس والوں کی عیدی کی نظر ہوگئے۔ دہشتگردوں کی گرفتاریوں اور دہشتگردوں کی جانب سے ممکنہ حملوں کے پیش نظر پولیس نے دیگر اداروں بشمول پاک فوج کے ساتھ مل کر خصوصی سکیورٹی پلان ترتیب دیا۔ اس سلسلے میں ڈیرہ جیل کی سکیورٹی ہنگامی بنیادوں پر ازسرنو ترتیب دی گئ، اور مختلف مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے، مسلح گشت،نئی ناکہ بندیاں بنائی گئیں۔ ملٹری انٹیلی جنس ذرائع سے موصول شدہ اطلاع پر سولہ جولائی کو پولیس نے بندکورائی کے علاقے سے ۳۴ افراد کو گرفتار کیا۔ گرفتار افراد سے اسلحہ کے علاوہ مشکوک آلات برآمد ہوئے۔

سترہ جولائی کو مسلسل چھاپوں اور گرفتایوں کے بعد دہشتگردوں نے تحصیل درابن میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر حملہ کیا، اس حملے میں متعدد راکٹ فائر کئے گئے، اور بعد ازاں فائرنگ کی گئی، اہلکاروں کے چوکس ہونے کے باعث زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم ایک سے زائد گولیاں لگنے کے باعث کوئیک رسپانس فورس کا اہلکار امین نواز شدید زخمی ہوگیا۔ جو کہ اگلے روز زندگی کی بازی ہار گیا۔ سکیورٹی فورسز کی شدید جوابی کارروائی سے طالبان گنڈہ پور گروپ کا بدنام زمانہ دہشتگرد ملک جان عرف ملنگ ہلاک ہوگیا۔ چوبیس جولائی کو شہر بھر کی سکیورٹی اچانک چوکس کردی گئی، اور پولیس افسران سمیت اہل تشیع کی اعلیٰ شخصیات کو سکیورٹی الرٹ جاری کردیا گیا۔جس کی وجہ یہ تھی کہ کالعدم لشکر جھنگوی عمر بن خطاب کروپ سے تعلق رکھے والا ہائی پروفائل ٹارگٹ کلر محمد نعمان عرف عبداللہ کی ڈی آئی خان میں داخلے کی اطلاع تھی۔ جو کہ وانا سے ٹانک کے راستے ڈیرہ میں داخل ہوا تھا۔ اطلاع کے باوجود گرفتاری عمل میں نہیں آسکی، وانا سے ڈیرہ تک راستے میں ایک درجن کے قریب چیک پوسٹ ہیں۔ بعد ازاں ڈیرہ سٹی پولیس نے مختلف مقامات پر چھاپہ مار کارروائیاں کرکے ۱۶ افراد کو گرفتار کرلیا، تاہم ان میں کوئی ریکارڈ یافتہ نہیں تھا۔ اٹھائیس جولائی کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے اہلسنت والجماعت (قادری گروپ) کے ضلعی صدر فیاض الدین قادری کو قتل کر دیا ہے۔ تھانہ سٹی کی حدود میں واقع محلہ قصابان میں انہیں اپنے گھر کے نزدیک نشانہ بنایا گیا۔ فائرنگ کے بعد ملزمان موقع سے فرار ہوگئے۔ متعدد گولیاں لگنے سے فیاض الدین قادری شدید زخمی ہوگئے۔ انہیں طبی امداد کی غرض سے ہسپتال منتقل کیا گیا، تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔ ان کی نماز جنازہ میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ علاوہ ازیں جولائی کے آخر میں پولیس کی جانب سے پہلی بار ہفتہ شہدائے پولیس منانے کا اعلان کیا گیا۔ اس سلسلے میں شہر کے متعدد مقامات پر کیمپ لگائے گئے اور پولیس کے زیراہتمام تقریبات کا انعقاد کیا گیا، جس میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

ماہ اگست
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے ماہ اگست سے متعلق پولیس کی جو کارکردگی رپورٹ پیش کی، اس میں بتایا کہ کہ ضلع میں جرائم پیشہ اور ملک دشمن عناصر کے خلاف 17 سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کیے گئے۔ ان آپریشنز کے دوران مختلف کاروائیوں میں 260 مشکوک افراد کو گرفتار کرکے ان کے قبضہ سے 5 کلاشنکوف، 1 کالا کوف، 2 رائفلز، 16 بندوق، 34 پستول، 10 گولے مارٹر شیل، 1120 کارتوس، اور بھاری مقدار میں منشیات برآمد کی اور 108 مجرمان اشتہاری گرفتار کیے گئے۔ انہی آپریشنز کے دوران 1624 گھر اور 239 ہوٹلز کو چیک کیا گیا اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف 19 مقدمات درج کیے گئے۔ تمام ضلع میں 253 پوائنٹس پر چیکنگ کے ذریعے378 مشکوک افراد کو گرفتار کرکے ان سے تفتیش کی گئی۔ اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی مختلف مقامات پر جشن آزادی کے حوالے سے سٹال وغیرہ لگ گئے، پولیس اور سکیورٹی فورسز کا گشت بھی جاری رہا۔ تاہم تین اگست کو ہونے والی طوفانی بارشوں نے سرکاری و غیر سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہاں تک کہ سنٹرل جیل ڈیرہ میں پانی داخل ہونے سے بیرکس میں پانی بھرگیا۔ اور احاطہ کی خستہ دیواریں شگاف پڑنے سے خطرناک حد تک کمزور ہوگئیں۔جس کے باعث ایک سو سے زائد قیدیوں کو بنوں جیل منتقل کیا گیا۔ بنوں جیل منتقل ہونے والے قیدی غیر معمولی جرائم میں ملوث تھے۔ چار اگست کو یوم شہدائے پولیس جوش سے منایا گیا۔ پولیس لائن ڈیرہ میں پولیس کے مختلف دستوں کی پریڈ کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں پولیس کے اعلیٰ افسران سمیت معززین شہر نے شرکت کی ۔ اگست کے مہنے میں قومی تقریبات، اور سکیورٹی ، ناکہ بندیوں اور پولیس کے گشت کے باعث دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ جشن آزادی کی مرکزی تقریب ڈی پی او کے تعاون سے ہی حقنواز پارک میں انجام پائی۔ ۲۶ اگست کو کلاچی کے علاقے لونی میں پولیس نے زرعدی اراضی سے دس مارٹر گولے برآمد کئے۔ گرچہ ان کے چھپانے والے ملزمان تو پولیس کے ہاتھ میں نہیں آسکے، تاہم ان مارٹر گولوں کے پکڑے جائے سے دہشتگردی کا ایک اور منصوبہ ناکام ہوگیا۔
خبر کا کوڈ : 514850
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش