0
Monday 25 Jan 2016 09:56

بلوچستان، وفاقی ملازمتوں اور تعلیمی میدان میں محرومیوں کا شکار

بلوچستان، وفاقی ملازمتوں اور تعلیمی میدان میں محرومیوں کا شکار
رپورٹ: این ایچ حیدری

بلوچستان کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی محرومیاں تو دہائیوں پرانی ہیں، لیکن خصوصی طور پر سرکاری محکموں‌ میں ملازمتوں کے حصول اور جائز حقوق کی فراہمی کا مسئلہ بھی سنگین شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ پاکستان کے آئین میں وفاق کے ماتحت تمام تر اداروں میں ملک کے چاروں صوبوں کیلئے حقوق کی تقسیم کے حوالے سے ایک واضح فارمولا موجود ہے۔ جس کیمطابق ملازمتوں اور حقوق کی فراہمی کیلئے صوبہ بلوچستان کیلئے چھ فیصد کوٹہ مختص ہے۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ الیکڑک سپلائی کمپنی (کیسکو) میں گریڈ 17 کی خالی آسامیوں کا اعلان کیا گیا لیکن مذکورہ آسامیوں میں ایک بھی صوبہ بلوچستان کیلئے مختص نہیں‌ تھا۔ کئی سالوں سے مذکورہ پوسٹس پر بھرتیوں کے منتظر بلوچستان کے الیکڑیکل انجینئیرز کیسکو کمپنی کے اس اشتہار سے انتہائی افسردہ ہوئے۔ یہی حال صرف کیسکو کا نہیں، بلکہ تمام تر سرکاری محکموں میں‌ بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسوقت 49 وفاقی سیکرٹریز میں سے کسی ایک کا بھی تعلق صوبہ بلوچستان سے نہیں۔ علاوہ ازیں اگر کسی اور سرکاری محکمے میں بلوچستان کی نمائندگی نظر آتی بھی ہے تو وہ جعلی ڈومیسائل پر دیگر صوبوں کے افراد ہی ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے 14 جنوری 2016ء کو بلوچستان اسمبلی میں ایک قرارداد بھی پیش کی گئی۔ جس میں کہا گیا کہ وفاقی کارپوریشنوں کی کل تعداد تقریباً 186 ہے، جن میں بیک وقت لاکھوں ملازمین کام کرتے ہیں۔ ان میں 50 فیصد ملازمت صوبہ پنجاب، 19 فیصد ملازمت صوبہ سندھ، 11.5 فیصد ملازمت صوبہ خیبر پختونخواء، 7.5 فیصد ملازمت میرٹ کا حصہ اور صوبہ بلوچستان کا صرف 6 فیصد ملازمت مختص کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں سالانہ طور پر 25 اقتصادی نمائشیں لگتی ہیں، جن میں سے ایک کا بھی انعقاد بلوچستان میں نہیں ہوتا۔ جبکہ پی آئی اے، ریلوے، واپڈا اور دیگر وفاقی اداروں میں بھی بلوچستان کی نمائندگی نہیں ہے۔

گذشتہ سال 2 اگست کو ایف پی ایس سی (فیڈرل پبلک سروس کمیشن) نے وفاق کے زیِرانتظام مختلف اداروں اور تنظیموں میں 156 آسامیوں کے بارے میں اعلان کیا۔ ان نوکریوں میں تقریباً تمام علاقوں کو انکے کوٹہ کے مطابق حصّے مختص کیے گئے۔ پنجاب کو 50 فیصد ملنا چاہیئے تھا، اسے 53.2 فیصد مختص کیا گیا، سندھ کا حصّہ 19 فیصد بنتا تھا، اسے 18 فیصد ملا، خیبر پختونخوا کو 11 فیصد ملازمتیں ملنی چاہیئے تھیں، اسے 9.6 فیصد ملازمتیں نصیب ہوئیں۔ بلوچستان کو 6 فیصد حصّہ ملنا چاہیئے تھا، لیکن اسے صرف نصف حصہ یعنی 3 فیصد الاٹ کیا گیا۔ فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آی اے ) کے انسپکٹر کی ملازمتوں کو بانٹتے ہوئے بلوچستان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ انسپکٹر ایف آئی اے کی 61 خالی اسامیوں میں سے ایک بھی بلوچستان کے حصّے میں نہیں آئی۔ یہاں تک کے آزاد جموں اور کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی اس عہدے میں حصّہ ملا، مگر بلوچستان کو نہیں۔ اس حوالے سے جب "اسلام ٹائمز" نے سینیٹر جہانزیب جمالدینی سے رائے لی، تو انکا کہنا تھا کہ "مختلف سینیٹ قائمہ کمیٹیوں کا ممبر ہونے کی حیثیت سے میں نے پی آئی اے، ایچ ای سی، سی ڈی اے، او جی ڈی سی ایل، ایس این جی پی ایل، ایس ایس جی سی اور دوسرے (وفاقی) اداروں کے سامنے یہ سوال رکھے اور ان سے پوچھا کہ وہ یہ سمجھائیں کہ وہ بلوچستان کا 6 فیصد کوٹہ کیسے نبھا رہے ہیں۔؟ دوسرے صوبوں کے لوگ بلوچستان کی شہریت کے جعلی دستاویزات بنوا کر بلوچستان کے بچے کھچے کوٹہ پہ نوکریاں حاصل کر لیتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے افسران جو کہ بطور ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کام کر رہے ہیں، انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو بھاری تعداد میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں جنکی بنیاد پہ بلوچستان کے لوگوں کو نوکریوں میں کوٹہ سے محروم رکھا جاتا ہے۔" پچھلے برس وفاقی حکومت نے بلوچستان کیلئے مختص 3692 وفاقی ملازمتوں پر بھرتیوں کے سلسلے کا آغاز کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حکومت کی اس چال کو بلوچستان کی عوام نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

اسی طرح تعلیمی شعبے میں بھی بلوچستان کیساتھ یہی غیر منصفانہ رویہ روا رکھا جارہا۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کا قیام 2002ء میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی جگہ عمل میں لایا گیا۔ ایچ ای سی کا منشور ملک میں سرکاری جامعات کی معاونت اور معیاری تعلیم کی فراہمی ہے۔ ایچ ای سی حکام کے دعووں کے مطابق اپنے قیام سے لے کر اب تک اس ادارے نے 176 ارب روپے کی رقم خرچ کرکے ملک بھر کے دس ہزار سے زائد طلبا و طالبات کو وظائف سے نوازا ہے۔ جہاں تک بلوچستان کو محروم رکھنے کی بات ہے تو دیگر وفاقی اداروں کی طرح ایچ ای سی کا رویہ بھی غیر منصفانہ ہے۔ ایچ ای سی کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2012-13 میں دیئے گئے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تعلیمی وظائف اور جامعات کو مالی امداد فراہم کرنے میں بلوچستان کی حق تلفی کی گئی ہے۔ رپورٹ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ بلوچستان کو ایچ ای سی کے وظائف اور مالی امداد کا صرف 3 فیصد حصہ مل رہا ہے، جو بلوچستان کے تسلیم شدہ آئینی کوٹے 6 فیصد کا بھی نصف ہے۔ مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی جامعات میں اندراج یافتہ طلبا و طالبات کو مختلف تعلیمی پروگراموں کے ایچ ای سی وظائف سے نوازا گیا۔ سال 2012-13 میں ایچ ای سی نے 2,895 پی ایچ ڈی وظائف جاری کیے۔ جن میں سے بلوچستان کے صرف 30 طلبہ کو منتخب کیا گیا۔ یہ تعداد کُل وظائف کا محض 1 فیصد ہے۔ ایچ ای سی کی جانب سے 8,317 یونیورسٹی طلباء و طالبات کو بیرون ملک وظائف دے کر پڑھنے بھیجا گیا۔ جبکہ بلوچستان اور قبائلی علاقوں کو ملا کر صرف 12 وظائف دیئے گئے، یعنی بلوچستان اور فاٹا کا مشترکہ حصہ 0.14 فیصد بنا ہے۔ جو کہ انصاف کے نام پر ایک مذاق ہے۔ اسی طرح سال 2012-13 میں ایچ ای سی کی جانب سے اندرون ملک دیئے جانے والے 5,524 وظائف میں سے بلوچستان کا حصہ صرف 2 فیصد رہا ہے۔

ایچ ای سی کا نیشنل ریسرچ پروگرام فار یونیورسٹیز (NRPU) یونیورسٹی اساتذہ کو سائنسی تحقیق کو مالی تعاون فراہم کرتا ہے۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد اعلٰی تعلیمی اداروں میں سائنسی تحقیق اور جدت کو فروغ دینا ہے۔ بدقسمتی سے سال 2012-13 میں بلوچستان کو اس گرانٹ میں سے بھی صرف 2.62 فیصد ہی نصیب ہوا۔ سیمینار اور کانفرنسز اعلٰی تعلیم کے لازمی اجزاء گردانی جاتی ہیں۔ ایچ ای سی کے زیرانتظام ایسی تقاریب منعقد کرائی جاتی ہیں۔ ایچ ای سی یونیورسٹیز کو سیمپوزیم، تربیتی ورکشاپ، سیمینار اور کانفرنسز منعقد کروانے میں معاونت فراہم کرتا ہے تاکہ ان یونیورسٹیوں میں کی جانے والی سائنسی تحقیق کو دنیا بھر کے علمی حلقوں کے سامنے لایا جا سکے۔ ایچ ای سی نے ایسی تقاریب منعقد کروانے پر 52.117 ملین روپے خرچ کیے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بلوچستان میں اب تک ایچ ای سی کی جانب سے صرف ایک ایسی تقریب منعقد کروائی گئی ہے جبکہ دوسری جانب صرف اسلام آباد میں ہی ایچ ای سی نے 46 ایسی تقاریب کا اہتمام کیا۔ یونیورسٹیز کو دی جانے والی ترقیاتی امداد کے پروگرام میں بھی ایچ ای سی کی جانب سے بلوچستان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ اس پروگرام کے تحت ایچ ای سی ملک بھر میں جامعات کے قیام اور پہلے سے قائم شدہ جامعات کو وسعت دینے کے لیے ترقیاتی رقوم فراہم کرتا ہے۔ سال 2012-13میں ایچ ای سی نے اس مد میں 12.014 ارب کی رقوم جاری کیں، جن میں بلوچستان کا حصہ صرف 4.09 فیصد رہا۔ بلوچستان میں یونیورسٹیز کی مخدوش حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ترجیحی بنیادوں پر زیادہ حصہ دینا چاہیئے تھا، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ آئینی طور پر ایچ ای سی کے تمام تر وسائل میں بلوچستان کا حصہ 6 فیصد بنتا ہے۔ مگر مذکورہ بالا اعداد و شمار یہ ثابت کرتے ہیں کہ بلوچستان کو بمشکل ایچ ای سی کے مجموعی وسائل سے 3 فیصد مل رہا ہے۔

حالانکہ پاکستان کے آئین کے مطابق بلوچستان کو اس کے 6 فیصد کوٹے سے زیادہ ملنا چاہیئے تھا۔ آئین کے آرٹیکل 37 کی شق (الف) میں واضح طور پر درج ہے کہ ریاست "پسماندہ طبقات یا علاقوں کے معاشی اور تعلیمی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی" اور اسی آرٹیکل کی ایک اور شق (ج) میں درج ہے "فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اہلیت اور لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے قابل دسترس بنائے گی۔" اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے تمام پسماندہ علاقے، جن میں بلوچستان سرفہرست ہے، کو ان کے مختحض شدہ حصے سے زیادہ ملنا چاہیئے تاکہ وہ قومی معیارات سے ہم آہنگ ہوسکیں۔ بلوچستان کو اس کےتسلیم شدہ آئینی کوٹے یعنی 6 فیصد سے بھی کم حصہ دینا، دراصل ایچ ای سی کی جانب سے پاکستانی دستور کی صریح اور افسوس ناک خلاف ورزی ہے۔ اس حوالے سے سینیٹ میں بھی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین کیجانب سے احتجاجی آواز اٹھائی گئی، لیکن ابھی تک وفاق کیجانب سے کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
خبر کا کوڈ : 514985
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش