5
0
Tuesday 26 Jan 2016 09:30

مسئلہ تفتان قومی مسئلہ، حل کیا ہے؟

مسئلہ تفتان قومی مسئلہ، حل کیا ہے؟
تحریر: توقیر ساجد تقی

بائی روڈ ایران زیارات! کا سنتے ہی ایک غیر محفوظ اور خطرناک سفر یاد آتا ہے تو کبھی سرراہ دہشت گردی کے واقعات، گذشتہ دنوں اربعین امام حسین کیلئے ایران عراق بائی روڈ سفر کرنے کا اتفاق ہوا، ویزا کے اعصاب شکن مراحل گزار کر کوئٹہ پہنچنے پر معلوم ہوا حکومتی سرپرستی میں آخری قافلہ گذشتہ روز ہی روانہ ہوا ہے، بارڈر پر جانے کیلئے این او سی کیلئے 3 دن انتظار کرنا ہوگا، لیکن حکومت اور موسم کا کیا اعتبار کہ کب بدل جائیں اور مشکلات کے پہاڑ کا سامنا کرنا پڑے، کچھ دوستوں کے مشورہ پر طے پایا کہ سدابہار اڈا کی طرف رخ کیا جائے، تاکہ بارڈر کیلئے جلد اور مناسب گاڑی کا انتظام ہوسکے، لیکن سدا بہار کمپنی کی بسیں ہی کیوں؟ کیونکہ زائرین و مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے واقعات میں ماسوائے سدا بہار کمپنی کی بسوں کے، تمام بسوں کے زائرین کو نشانہ بنایا گیا، کیونکہ دہشت گرد عناصر کو سدا بہار کی طرف سے بھتہ پہلے ہی پہنچا دیا جاتا ہے۔ زائرین سے خیریت سے پہنچانے کی شرط پر دوگنا کرایہ وصول کرلیا جاتا ہے، جس کی بنا پر زائرین کا سفر محفوظ اور کمپنی کا کاروبار چمکنے لگتا ہے۔

سفر کا آغاز دن 10 بجے ہوا، راستے میں لیویز اور ایف سی کے اہلکار گاڑی دیکھ کر ہی واپس لیجانے کا اشارہ کرتے ہیں، چیک پوسٹ پر رکنے پر مسافروں کا شناختی کارڈ اور پوچھ گچھ کی جاتی ہے، اگر گاڑی میں دیگر مسافروں کی طرح زائرین بھی ہوں تو ڈرائیور و کنڈیکٹر کو ایک طرف لے جاکر لیویز ہو یا ایف سی اہلکار فی کس 100روپے بھتہ لیا جاتا رہا، نہ دینے پر گاڑی واپس اور مسافروں کو کہا جاتا آگے مت جائیں، آپ کے گلے کاٹ دیئے جائیں گے۔ کچھ دیر کی بحث و تکرار کے بعد ڈرائیور اور ایف سی اہلکار میں معاملات طے پا جاتے ہیں۔ نوشکی چیک پوسٹ پر بھاری بھتہ دینے پر میں نے ڈرائیور سے دریافت کیا کہ آپ کا معاملہ کیسے طے پایا، جواب آیا جتنا اس کا حق تھا دیا، بس وہ حق سے زیادہ مانگ رہا تھا۔ میں نے حیرت سے پوچھا کیا ایف سی والے بھی اس دھندے میں ملوث ہیں تو کہا ایف سی کیا، یہاں سب لیتے ہیں۔ قصہ مختصر ہر چیک پوسٹ پر زائرین کے نام پر ہزاروں روپے لوٹے گئے، کوئٹہ سے تفتان تک زائرین کو کسی نہ کسی صورت لوٹ لیا جاتا ہے، کسی کی جان تو کسی کا مال، البتہ مال لوٹنے کے بہت سے حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔

اس طویل و کٹھن راستے میں جہاں راستے کی مشکلات تھی، وہاں راستوں پر کالعدم تنظیم کی روڈ کے اطراف وال چاکنگ سفر کو غیر محفوظ بنا رہی تھی۔ نوشکی کے قریبی علاقوں میں وال چاکنگ کے مناظر ناقابل یقین تھے کہ اردگرد نیشنل ایکشن پلان نامنظور جیسے نعرے درج تھے، جو سکیورٹی اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ 10 گھنٹے کا طویل و مشکل ترین سفر طے کرنے کے بعد تفتان بارڈر پر پہنچے تو کالعدم سپاہ صحابہ کے 20فٹ لمبے جھنڈے پر نظر پڑی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو سراہے بغیر نہ رہ سکیں۔ 28دن بعد زیارات کا سفر گزارنے کے بعد پھر اسی تفتان بارڈر پر پہنچے تو اپنے ملک کا بارڈر کسی قید خانہ سے کم نہ تھا۔ کسی بھی زائر کو کسی بھی صورت کوئٹہ جانے کی اجازت نہ تھی، لیکن یہ خوف و گھٹن کی فضاء کو ختم کرنے کیلئے قومی و ملی تنظیموں کو فقط بیان بازیوں سے کام نہیں لینا چاہئے، بلکہ کچھ عملی اقدامات کرنے چاہئے، کیونکہ مسئلہ تفتان ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ اب رہبران ملت کو فقط بیان بازی سے کام نہیں لینا ہوگا، سنجیدگی سے زائرین کے اس مسئلہ کو حل کرنا ہوگا۔ آئے روز تفتان بارڈر پر زائرین کو این او سی جیسی مشکلات کے پہاڑ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زائرین کا تعلق کسی گروہ، ماتمی انجمن یا تنظیم سے ہو، لیکن بارڈر پر مشکلات پڑنے پر ان کی آخری امید تنظیموں اور تحریکوں کے رہنمائوں سے ہوتی ہے کہ وہ ہنگامی پریس کانفرنس یا احتجاج سے ہمیں مشکل کی اس گھڑی سے نکال سکتے ہیں۔ اربعین امام حسین کے موقع پر کوئٹہ میں ہزاروں زائرین کو این او سی کے نام پر تنگ کیا گیا اور واپسی پر کانوائے کی تیس گاڑیاں مکمل ہونے تک سخت سردی میں بارڈر پر محصور کر دیا گیا۔

بارڈر پر زائرین جو عشق امام حسین میں اپنی تمام جمع پونجی خرچ کرچکے ہوتے ہیں، ان کو مزید اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملت تشیع پاکستان کی متحرک و فعال تنظیموں کے سربراہان اگر اس مسئلہ کو ہنگامی موقعوں پر حل کرنے کی بجائے ہنگامی بنیاد پر حل کریں تو اس قومی مسئلہ سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کوئٹہ میں زائرین کے بارڈر کے سفر کے آغاز پر مقامی تنظیموں کی طرف سے یادگار الواعی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ اگر ایسی ہی تقریبات بارڈر اور بارڈر کے راستوں پر سبیل یا امدادی کیمپ کے نام پر کی جائیں تو زائرین کی مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔ قائدین اس گھٹن کے ماحول کو روحانیت سے پر اور مزید جاذب سفر بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر وہ کوئٹہ سے تفتان چیک پوسٹوں سے قبل زائرین کا والہانہ استقبال کریں، تاکہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کاروں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ ان مشکل حالات میں ایسا کرنا بظاہر مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں، کیونکہ یہ قوم شہادت کو وراثت جانتے ہوئے مشکل راہوں کو طے کرلیتی ہے، لیکن ذلت و رسوائی کی بجائے عزت و استقامت کا راستہ اس عظیم ملت کا سرمایہ ہے۔ کوئٹہ سے تفتان کانوائے کی روانگی پر رہبران ملت کی طرف سے پریس کانفرنس کا اہتمام کیا جائے، جس میں میڈیا کے تمام نمائندگان کو مدعو کیا جائے، ایسے اقدامات سے رشوت، بھتہ خوری اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اگر قائدین ان گزارشات پر نظر کریں اور جامعہ حکمت عملی بنائیں تو ہم اس قومی مسئلہ سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 515338
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

توقیر ساجد تقی
Pakistan
سلام
اسلام ٹائمز کے قارئین سے گزارش ہے کہ اپنی آراء سے نوازیں۔
Iran, Islamic Republic of
ماشاءاللہ بہت اچھا لکھا ہے آپ نے اور بہت ہی بہترین تجاویز دی ہیں، آج نہیں تو کل ہمارے اکابرین کو اس مسئلے کے لئے میدان میں اترنا ہی پڑے گا۔
نذر حافی
Good effort to raise this issue...
خادم حسین
Pakistan
خدا نخواستہ اگر زائرین بغیر سکیورٹی سدا بہار کوچ پر سفر کرتے ہوئے سانحے کا شکار ہوجائیں تو تمام تر ذمہ داری زائرین پر عائد ہوگی۔ حکومت فوراًْ اپنا بیان جاری کر دے گی کہ ہم نے تو زائرین کے لئے روٹ اور تاریخ مقرر کی ہیں. لیکن اس کے باوجود اگر زائرین بغیر کانوائی کے چپکے سے سفر کرتے ہیں تو یہ ان کا اپنا قصور ہے۔
بعض قافلہ سالار رقم بنانے کے چکر میں وقت سے پہلے کوئٹہ اور واپسی پر تفتان بارڈر میں زائرین کو پہنچا دیتے ہیں، کیونکہ تفتان بارڈر میں گیسٹ ہاوس فری میں پڑتا ہے، لہذا قافلہ سالار خرچہ بچانے کے سبب وقت سے پہلے زائرین کو تفتان بارڈر پہنچاتے ہیں اور پورے پاکستان میں فون کے ذریعے پیغامات پہنچاتے ہیں کہ یہاں ہم گرمی میں بغیر خوراک و پانی کے پھنس گئے ہیں۔
لگڑ بگڑ نما قافلہ سالاروں کا راستہ روکنا ہوگا، یہ لوگ نہ تو زیارات کے خواہش مند ہیں اور نہ ہی زائرین کے خیر خواہ ہیں، انہیں صرف جلدی میں زائرین کو گھما کر اگلے قافلے کی تیاری کا غم پڑا ہوا ہے، یہ صرف اپنے کاروبار کے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔
زائرین کو مہینے میں دو بار سکیورٹی دی جاتی ہے، پہلے اور تیسرے ہفتے۔ لہذا قافلہ سالاروں کو چاہیئے کہ روانگی اور آمد سے پہلے بلوچستان شیعہ کانفرنس سے رابطہ رکھیں۔
ali
Iran, Islamic Republic of
اس کا ایک بہترین راہ حل یہ ہے کہ اکابرین بائی ائیر سفر کرنے کی بجائے اس راستے سے سفر کریں، تاکہ زائرین کے درد کو محسوس کرسکیں۔ فقط باتو ں سے کچھ نہیں ہوگا۔
ہماری پیشکش