0
Saturday 30 Jan 2016 11:45

لیاری گینگ وار کے سرغنہ اور بدنام زمانہ گینگسٹر سردار عزیر جان بلوچ پر ایک رپورٹ

لیاری گینگ وار کے سرغنہ اور بدنام زمانہ گینگسٹر سردار عزیر جان بلوچ پر ایک رپورٹ
رپورٹ: ایس جعفری

بدنام زمانہ گینگسٹر سردار عزیر جان بلوچ کو لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار کہا جاتا ہے، اور اس پر کراچی کے علاقے لیاری کے مختلف تھانوں میں قتل، اقدام قتل اور بھتہ خوری سمیت درجنوں مقدمات درج ہیں۔ عزیر بلوچ 2013ء میں حکومت کی جانب سے ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع ہونے پر بیرون ملک فرار ہوا تھا، سندھ حکومت متعدد بار عزیر جان بلوچ کے سر کی قیمت مقرر کرچکی ہے، جبکہ اس کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر ریڈ وارنٹ بھی جاری ہوچکے ہیں۔ پولیس کو مطلوب عزیر بلوچ کو مسقط سے بائے روڈ جعلی دستاویزات پر دبئی جاتے ہوئے انٹر پول نے 29 دسمبر 2014ء کو گرفتار کیا تھا۔ عزیر بلوچ کو پاکستانی حکومت کے حوالے کرنے کیلئے سندھ پولیس کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن نوید خواجہ کی سربراہی میں ایس ایس پی سی آئی ڈی عثمان باجوہ، ڈی ایس پی کھارادر زاہد حسین پر مشتمل ٹیم دبئی گئی تھی، تاہم وہ ناکام واپس آگئی تھی اور عزیر بلوچ کو پاکستان منتقل نہیں کیا جا سکا۔ عزیر بلوچ کو پاکستان واپس کب لایا گیا، اس حوالے سے اب تک کچھ واضح نہیں ہوسکا۔ عذیر نے 2001ء کے انتخابات میں لیاری کے ناظم کی حیثیت سے سیاست میں اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی، لیکن اسے پیپلز پارٹی کے کٹر کارکن حبیب کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو ماما کے بیٹے عذیر نے 2003ء میں محمد ارشد عرف ارشد پپو کے ہاتھوں اپنے والد کے قتل کے فوراً بعد جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا، تاکہ اپنے والد کے قتل کا بدلہ لے سکے۔ ارشد پپو، عزیر بلوچ کے کزن عبدالرحمان عرف عبدالرحمان ڈکیت کے حریف سمجھے جاتے تھے۔ عبدالرحمان اور ارشد پپو گینگ کے درمیان لیاری میں منشیات اور زمین پر ایک طویل عرصے تک گینگ وار جاری رہی۔ عدالت میں والد کے مقدمے کی پیروی کے دوران عزیر بلوچ کو ارشد پپو گینگ سے دھمکیاں موصول ہوئیں، جس پر عبدالرحمان ڈکیت نے اسے اپنے گینگ میں شامل کر لیا۔ اس حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عزیر نے ابتدائی طور پر رحمان کے گینگ میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا، لیکن جیسے ہی اسے اس بات کا ادراک ہوا کہ دونوں کا دشمن مشترک ہے، تو اس نے رحمان کے گینگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ پولیس ان کاؤنٹر میں عبدالرحمان ڈکیت کی موت کے بعد عزیر گینگ میں مرکزی کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا، اور تمام گینگ کے باہمی اتفاق رائے سے بلامقابلہ گینگ کا نیا سربراہ مقرر ہوا۔

غیر اعلانیہ طور پر پیپلز امن کمیٹی سے وابستگی رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی 2012ء تک عزیر بلوچ کو تحفظ فراہم کرتی رہی، اس کے آصف زرداری، بے نظیر بھٹو، فریال تالپور، ذوالفقار مرزا سمیت دیگر قیادت کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات تھے، جس سے انکار ممکن نہیں، لیکن حالات نے اس وقت کروٹ لی کہ جب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے منہ بولے بھائی اور ٹپی کے نام سے مشہور اویس مظفر لیاری سے انتخابات میں حصہ لینا چاہتے تھے، لیکن عزیر بلوچ نے ان کی اس خواہش کو مسترد کر دیا، اس موقع پر پیپلز پارٹی اور امن کمیٹی کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے، اور نتیجتاً ہنگامی بنیادوں پر اپریل 2012ء میں آپریشن شروع کر دیا گیا، جو مقامی لوگوں اور اندرونی ذرائع کے مطابق مکمل سیاسی مقاصد کی وجہ سے کیا گیا۔ ایک ہفتے جاری رہنے کے بعد یہ آپریشن ختم کر دیا گیا، اور پیپلز پارٹی کو عزیر کے مطالبات کے آگے سرخم تسلیم کرنا پڑا، عزیر نے مطالبہ کیا تھا کہ 2013ء کے عام انتخابات میں ان کے منتخب کردہ امیدواروں کو پیپلز پارٹی ٹکٹ دے گی، تاہم اگر لیاری میں ان کی موجودگی کی بات کی جائے تو۔

ذرائع کے مطابق اندرونی طور پر مستقل جاری لڑائیوں کے باعث یہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے، اور پیپلز امن کمیٹی کا اب کوئی وجود نہیں۔ عزیر بلوچ دہشتگردی، قتل اور بھتہ سمیت 50 سے مقدمات میں مطلوب تھا، لیکن جو کارروائی اسے منظر عام پر لے کر آئی، وہ سپریم کورٹ کی جانب سے لیا گیا سوموٹو نوٹس تھا، جو اعلٰی عدلیہ نے عزیر کے ارشد پپو قتل کیس میں ملوث ہونے پر لیا۔ آج بروز ہفتہ 30 جنوری 2016ء کو سندھ رینجرز کی جانب سے عزیر بلوچ کی گرفتاری ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عزیر بلوچ کو کراچی کے مضافاتی علاقے سے اس وقت گرفتار کیا گیا، جب وہ شہر میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا، عزیر بلوچ سے اسلحہ بھی برآمد ہوا، رینجرز نے عزیز بلوچ کو تفتیش کیلئے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ ترجمان رینجرز کے مطابق عزیر بلوچ قتل، اقدام قتل اور بھتہ خوری سمیت 50 سے زائد مقدمات میں پولیس کو انتہائی مطلوب تھا اور بہت عرصے سے مفرور تھا۔ ذرائع کے مطابق عزیر بلوچ کی گرفتاری کا فیصلہ 27 جنوری کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ کراچی کے موقع پر کیا گیا، اس حوالے سے مزید کیا تفصیلات ہیں، عزیر بلوچ کی گرفتاری کے پیپلز پارٹی اور اسکی اعلٰی قیادت پر کیا منفی اثرات مرتب ہونگے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
خبر کا کوڈ : 516473
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش