0
Saturday 30 Jan 2016 16:30

شام کے مسئلے پر ’’جنیوا 3‘‘ مذاکرات سے توقعات

شام کے مسئلے پر ’’جنیوا 3‘‘ مذاکرات سے توقعات
تحریر: ثاقب اکبر

کل 31 جنوری 2016ء کو جنیوا میں شام کے بحران کے حوالے سے اقوام متحدہ کے زیراہتمام مذاکرات کا نیا دور منعقد ہو رہا ہے۔ ان مذاکرات کو جنیوا 3 قرار دیا گیا ہے۔ قبل ازیں گذشتہ برس اکتوبر۔نومبر میں ویانا میں جو مذاکرات ہوئے تھے، ان میں شام کے مسئلے کے حل کے لئے آئندہ 18ماہ کا ایک شیڈول طے پایا تھا، جس کے مطابق جنوری 2016ء کے شروع میں موجودہ مذاکرات کو منعقد ہونا تھا، جو ملتوی ہوتے ہوتے اب جنوری کے آخر میں منعقد ہو رہے ہیں۔ اصولی طور پر ان مذاکرات کا اہتمام اقوام متحدہ نے کیا ہے، لیکن اس کا بنیادی مقصد حکومت شام اور اس کے مخالفین کے مابین مذاکرات کا انعقاد ہے، تاکہ گذشتہ دور مذاکرات میں طے پانے والے امور کے بارے میں پیش رفت کی جاسکے۔ گذشتہ مذاکرات میں طرفین شام کے لئے نئے آئین کی تشکیل اور اس کی روشنی میں نئے انتخابات پر اصولی طور پر اتفاق کرچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ان فیصلوں کی 18 دسمبر 2015ء کی ایک نشست میں تائید کی ہے۔ موجودہ مذاکرات نسبتاً مختلف حالات میں منعقد ہو رہے ہیں۔ اس وقت حکومت مخالف گروہ پہلے کی نسبت کمزور ہوچکے ہیں اور شامی حکومت پہلے کی نسبت مضبوط تر ہے اور نسبتاً زیادہ پر اعتماد ہے۔

اس سلسلے میں زمینی حقائق جاننے کیلئے مندرجہ ذیل امور پر نظر ڈالی جاسکتی ہے:
10 نومبر 2015ء کو شامی فوج نے کویرس کا ہائی اڈا مخالفین سے آزاد کروا لیا اور پیش قدمی کرتے ہوئے الباب شہر کے نزدیک جا پہنچی۔
10 نومبر 2015ء کو ہی شامی فوج نے دمشق میں مرج السلطان کا ہوائی اڈا بھی مخالفین سے آزاد کروا لیا۔
24 نومبر 2015ء کو ترکی نے روسی فضائیہ کا طیارہ مار گرایا، جس نے صورت حال کو تبدیل کرنے میں اور بعد کے واقعات کی صورت گری میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
27 نومبر 2015ء کو فری سیرین آرمی کا نہایت اہم کمانڈر جنرل رشید بکتاش حما میں مارا گیا۔
29 نومبر 2015ء کو دمشق اور حلب میں 94 مخالف جنگجوؤں نے حکومتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔
3 دسمبر 2015ء کو روس نے اعلان کیا کہ وہ حمص میں اپنی فضائیہ کی کارروائیوں کے لئے دوسرا اڈا قائم کرے گا اور 100 جنگی طیارے شام روانہ کرے گا۔
26 دسمبر 2015ء کو سعودی عرب کے سب سے زیادہ نزدیک شام مخالف لشکر جیش الاسلام کا سربراہ زہران علوش دمشق کے مشرق میں ایک مقام پر مارا گیا۔

4 جنوری 2016ء کو شامی فوج نے اردن کی سرحد کے قریب اہم شہر شیخ مسکین کا ساٹھ فیصد حصہ آزاد کروا لیا، جس سے دہشت گردوں کے اردن سے زمینی رابطے مشکل ہوگئے۔
6 جنوری 2016ء کو حمص میں شام مخالف ایک گروہ احرار الشام کا کمانڈر ابو راتب الحمصی مارا گیا۔
12 جنوری 2016ء کو لاذقیہ کے شمال میں سلما شہر شامی فوجوں نے آزاد کروا لیا۔
24 جنوری 2016ء کو صوبہ لاذقیہ کا آخری شہر ربیعہ بھی شامی فوج کے قبضے میں آگیا، جس کی وجہ سے حکومت مخالف مسلح گروہوں کا ترکی سے زمینی رابطہ تقریباً منقطع ہوگیا ہے۔
26 جنوری 2016ء کو شہر شیخ مسکین پوری طرح شامی فوج کے قبضے میں آگیا، جس سے شام مخالف مسلح گروہوں کا اردن سے زمینی رابطے مزید مشکل ہوگیا ہے۔
گذشتہ دو ماہ میں حلب کے جنوب اور جنوب مغرب کا تقریباً پانچ سو مربع کلومیٹر علاقہ شامی فوج نے اپنے مخالفین سے آزاد کروا لیا ہے۔ اس دوران میں مخالفین کوئی قابل ذکر پیش قدمی نہیں کرسکے۔

اس صورتحال نے نہ فقط شام مخالف مسلح گروہوں کو کمزور کیا ہے بلکہ ان کے باہمی اختلافات بھی بہت بڑھ گئے ہیں، جس کی وجہ سے مذاکرات ملتوی ہوتے رہے۔ ان تمام گروہوں کو کسی ایک مؤقف پر اکٹھا کرنا امریکا اور سعودی عرب کے لئے خاصا مشکل ہوگیا ہے۔ انھیں ایک نقطۂ نظر پر لانے کے لئے ہی 23 جنوری کو ریاض میں مختلف گروہوں کے نمائندوں کی امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ ان مذاکرات میں بدلے ہوئے حالات میں جان کیری نے انھیں بغیر کسی شرط کے مذاکرات میں بیٹھنے پر زور دیا۔ لبنان کے روزنامہ الاحیات نے ان مذاکرات پر جو رپورٹ شائع کی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا نے اپنے ماضی کے موقف پر نظرثانی کی ہے اور شام میں نبرد آزما اپنے اتحادیوں کو بھی بدلے ہوئے حالات کا ادراک کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ چنانچہ اخبار لکھتا ہے کہ مذاکرات کے بعد شامی حکومت کے مخالف گروہوں کے کوآرڈینیٹر ریاض حجاب کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ نے انھیں ایسی پیشکش کی ہے، جسے قبول کرنا زہر کا پیالہ پینے کے مترادف ہے۔

یاد رہے کہ امریکا، سعودی عرب اور حکومت مخالف گروہ ماضی میں کہتے چلے آئے ہیں کہ شام کے مستقبل میں بشار الاسد کا کوئی کردار نہیں، جبکہ نئے منصوبے میں نہ صرف بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی کی تجویز پیش نہیں کی گئی، بلکہ انھیں آئندہ صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ شام میں حکومت کے خلاف جنگ آزما گروہوں کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے روس اور شام کی مسلح افواج کی جانب سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ہوائی حملے بند ہونے چاہئیں۔ کل ہونے والے مذاکرات ان تمام شرائط کے بغیر منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ اگرچہ حکومت مخالف نمائندے جو جنیوا پہنچ رہے ہیں، ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی ماضی کی شرائط پر قائم ہیں، لیکن امریکا اور اس کے اتحادی اب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بدلے ہوئے حالات میں ماضی کی شرائط پر کاربند نہیں رہا جاسکتا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مذاکرات کسی مثبت نتیجے تک پہنچیں گے یا نہیں۔ اس کا جواب امریکا کے فہم حالات پر ہے۔ اگر امریکا یہ سمجھتا ہے کہ وہ شام میں موجود گروہوں کو اتنی طاقت بہم پہنچا سکتا ہے کہ وہ زمینی طور پر اپنے آپ کو کچھ مضبوط کرسکیں تو پھر یہ مذاکرات کسی قابل ذکر پیشرفت کے بغیر ختم ہوسکتے ہیں، لیکن اگر امریکا کی رائے میں مزید دیر کرنے سے شام کے اندر حکومت مخالف جنگجو گروہ مزید کمزور ہوجائیں گے تو پھر وہ یقینی طور پر انھیں قائل کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ بغیر شرائط کے جنگ بندی کے لئے تیار ہوجائیں۔ اس ضمن میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا یہ گروہ امریکی مدد کے بغیر حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھ سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب سے پہلے ایک اور سوال اہم ہے اور وہ یہ کہ کیا سعودی عرب اور ترکی امریکا کے علی الرغم شام میں اپنے حامی گروہوں کی مدد جاری رکھ سکتے ہیں؟ ہماری رائے میں زمینی حقائق خاصے بدل چکے ہیں۔ شاید امریکا کی نظر میں حکومت مخالف گروہوں کا مفاد اب اسی میں ہو کہ وہ مذاکرات کی میز پر ہاری ہوئی جنگ میں سے اپنے لئے کچھ مفاد حاصل کر لیں۔ البتہ اس قضیے کے بعض ایسے پہلو ہیں جو صورت حال کو مزید سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان میں خاص طور پر حکومت مخالف ایسے گروہوں کا کردار ہے جو مسلح جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے اور جنھیں ایران اور روس کی بھی ایک حد تک تائید حاصل ہے۔ اس سلسلے میں سیرین ڈیموکرٹیک کونسل اور نیشنل فرنٹ فار فریڈم اینڈ چینج کا نام لیا جاسکتا ہے۔ شام کے کردوں کا کردار بھی مستقبل کی صورت گری میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ شام کا کردستان ڈیموکرٹیک اتحاد اگرچہ حکومت کے مخالف ہے، لیکن وہ داعش کے خلاف نبردآزما ہے اور صدر بشار الاسد کے ساتھ تعاون کے لئے آمادہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بشار الاسد کے مخالف تمام گروہ گذشتہ پانچ سال کی نسبت اپنے آپ کو بہت مشکل میں محسوس کر رہے ہیں۔ وہ آگے بڑھتے ہیں تو آتش جنگ مزید پھیلنے کا اندیشہ ہے، وہ رک جاتے ہیں تو مزید ہزیمتیں ان کے انتظار میں ہیں۔ آگ پھیلتی ہے تو یہ کس کس کے دامن تک پہنچے گی، اس کی پیش گوئی اتنی آسان نہیں۔ امریکا اچھی طرح سے جانتا ہے کہ اگر آگ پھیلتی ہے تو اب اس کے دوستوں کے دامن تک پہنچے گی۔ روس پہلے ہی علاقے میں امریکی اتحادیوں کو اس کی دھمکی دے چکا ہے۔ امریکا اس خطے میں روس سے دوبدو ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ ہم روزنامہ حیات کی عبارت کا ایک حصہ گذشتہ سطور میں نقل کر آئے ہیں۔ پوری بات سمجھنے کے لئے ایک دفعہ پھر اس عبارت اور اس کے سیاق و سباق پر نظر ڈالیے: ’’ریاض حجاب نے شام مخالف وفد میں اپنے ساتھیوں سے کہا ہے کہ جان کیری ہم پر زہر کا پیالہ پینے پر زور دے رہے ہیں اور ہمارے پاس اس پیالے کو پینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، کیونکہ جان کیری نے دھمکی دی ہے کہ اگر ہم نے ان کا پیش کردہ منصوبہ قبول نہیں کیا تو امریکا ہماری ہر قسم کی مدد اور حمایت بند کر دے گا۔‘‘
خبر کا کوڈ : 516621
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش