1
Sunday 31 Jan 2016 12:43

آیت اللہ نمر کے بھائی اور بیٹے کا موقف

آیت اللہ نمر کے بھائی اور بیٹے کا موقف
تحریر: عرفان علی

آیت اللہ نمر باقر النمر شہید کے خونی رشتے داروں نے بھی ان کی موت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے بھائی محمد النمر سے لبنان کے ایک صحافی اور دانشور نے انٹرویو کیا، جو 8 جنوری کو شائع ہوا۔ آیت اللہ شہید باقر النمر کے بیٹے محمد ال نمر سے سی این این نے بات چیت کی۔ اس تحریر میں اس بات چیت کا ترجمہ و تلخیص قارئین کی نذر ہے، تاکہ سبھی کو معلوم ہوسکے کہ ان کے بھائی اور بیٹے اس موقع پر کس رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے بھائی محمد النمر کے مطابق انہیں بھی سعودی میڈیا کے ذریعے ہی یہ خبر ملی تھی۔ وہ غم و اندوہ میں ڈوب گئے۔ عوام و خواص سیاہ پوش ہوگئے، قطیف اور گردونواح میں دکانیں بند ہوگئیں۔ دینی مراکز اور بعض عوامی اجتماعات کے مراکز پر لوگ تعزیت کے لئے جمع ہونے لگے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں توقع نہیں تھی کہ موت کی سزا پر عمل کیا جائے گا، یہی وجہ تھی کہ ان کی موت کی خبر پر جھٹکا لگا، کیونکہ کسی کو بھی اس کی توقع نہیں تھی۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس کے منفی اور نقصان دہ نتائج کی وجہ سے سعودی بادشاہ موت کے پروانے پر دستخط نہیں کریں گے۔

آیت اللہ ال نمر مکمل طور بے گناہ تھے۔ محمد النمر نے کہا کہ ان کے بھائی پر الزامات میں بادشاہ سے وفاداری کی مخالفت، ریلیوں اور مظاہروں میں شرکت، ریاست کی توہین پر مبنی نعرے اور اپنے موبائل (سیل) فون کے ذریعے عوام کو مظاہروں پر اکسانا، سکیورٹی فورسز کو مطلوب افراد کو پولیس کے چھاپوں سے بچانا، سکیورٹی اہلکاروں کو لٹیرا کہنا اور بحرین میں متعین سعودی و دیگر عرب افواج کو بے غیرت فوج کہنا اور اس کے انخلاء کا مطالبہ کرنا، شامل تھے۔ محمد النمر کا کہنا ہے کہ انہیں مکمل یقین ہے کہ ان کے بھائی بے قصور تھے، کیونکہ وہ امن اور عدم تشدد کا پرچار کرتے تھے اور انہی کے نظریات پر ان کا خاندان اور ان کے حامی کاربند ہیں۔ انہوں نے آیت اللہ ال نمر کو ناانصافی کے خلاف قیام کرنے والا شہید قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاستی سکیورٹی کورٹ میں سماعتوں میں شرکت کی اور عدالتی کارروائی کے دوران انہیں یقین ہوگیا کہ اس کورٹ میں کوئی بھی حتٰی کہ جج بھی پر یقین تھے کہ شیخ نمر کا متشدد اور غیر قانونی کارروائیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ جو چیز ان پر ثابت تھی، وہ ان کی تقریریں تھیں، جو بہت زیادہ شدت کے ساتھ تنقید پر مبنی تھیں۔ یہ الزام درست ہوسکتا ہے، لیکن ان پر لگائے گئے الزامات مصنوعی و من گھڑت تھے۔ جب 2012ء میں شیعہ مظاہرین سعودی حکومت کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے، تب بھی انہوں نے اسلحہ اٹھانے سے منع کیا، حالانکہ اس وقت سکیورٹی اہلکار پرامن مظاہرین پر تشدد کر رہے تھے۔ آیت اللہ نمر کی تقریریں اور لیکچر ان کے پرامن اور عدم تشدد پر مبنی نظریات کا ثبوت ہیں۔

آیت اللہ ال نمر کے بھائی کے مطابق ان کے بھائی نے کوئی ایسا کام نہیں کیا تھا کہ جس کی سزا موت بنتی ہو۔ اس سزا کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔ ان کو موت کی سزا دینا بہت ہی خطرناک عمل ہے۔ بادشاہ کی اطاعت نہ کرنے کی سزا دینا خطرناک عمل ہے۔ مقدمہ سیاسی تھا اور اس کا فیصلہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ پہلے وہ سمجھتے تھے کہ القاعدہ اور داعش کے لوگوں کی سزائے موت پر عمل کرنے کے لئے اس فہرست میں ان کے بھائی کا نام شامل کیا گیا، تاکہ سعودی حکمران فرقہ وارانہ توازن برقرار رکھ سکیں، لیکن بعد میں اس نتیجے پر پہنچے کہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔ یعنی وہ آیت اللہ ال نمر سے ہی جان چھڑانا چاہتے تھے۔ دہشت گردوں کے نام اس بدنیتی کو چھپانے کے لئے فہرست میں ڈالے گئے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 47 میں سے 42 کو سزائے موت 10 تا 13 سال قبل ہوچکی تھی، لیکن ان سزاؤں پر عمل نہیں کیا جا رہا تھا۔ آیت اللہ ال نمر کے کیس کو ایک سال سے زائد کا کچھ عرصہ ہو اتھا۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ مقصد انہیں سزا دینا تھا اور دیگر کو cover کے طور پر استعمال کیا گیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کی مذمت کی اور کہا کہ پرامن رہتے ہوئے مذمت کرتے رہیں گے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نہ صرف سعودی عرب بلکہ دیگر ممالک میں بھی عوام انہیں چاہتے تھے، انہیں اہمیت حاصل تھی۔ وہ ایک مستعد عالم دین تھے۔ ایک اعلٰی سطح کی ایسی مذہبی شخصیت کے ساتھ اس نوعیت کا لاوارثوں جیسا سلوک نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو صدمہ پہنچا اور سعودی بادشاہت اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ خاندان کی جانب سے جاری بیان میں اور ثالثوں کے ذریعے ان کے جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے اور حوالگی تک یہ مطالبہ کرتے رہیں گے۔ ان کے جسد خاکی کو ورثاء کے حوالے کرنا اور ان کے آبائی علاقے میں ان کی تدفین کا مطالبہ کرنا شرعی قوانین اور علاقائی روایات کے بھی عین مطابق ہے۔ نامعلوم مقام پر ان کو دفنا دینا ہماری روایات کے خلاف ہے، ہم اسے مسترد کرتے رہیں گے۔ سعودی عرب کی ایران سے کشیدگی کے بارے میں سوال کے جواب میں محمد النمر نے کہا کہ اس سیاسی ایشو کا ان سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ وہ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تہران اور مشہد میں سفارتخانوں پر حملہ بھی درست عمل نہیں تھا، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایران، عراق، لبنان، پاکستان، یورپ سمیت جہاں بھی جو ردعمل دیکھنے میں آیا، وہ آیت اللہ ال نمر کی مذہبی حیثیت کی وجہ سے تھا اور اس کا سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ شہید کے ساتھ جو ناانصافی ہو رہی تھی، اس ناانصافی نے ردعمل کو جنم دیا۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی 28 اکتوبر 2015ء کو سزائے موت کے خلاف اپیل کی تھی، لیکن بدقسمتی سے سعودی سیاستدانوں اور مشیروں نے ان اپیلوں کے برعکس عمل کیا۔

آیت اللہ ال نمر کے 28 سالہ بیٹے کا نام بھی ان کے چچا کی طرح محمد ال نمر ہے۔ آیت اللہ نمر کی بیوی منٰی جابر الشریاوی طویل علالت کے سبب ماہ رمضان ۱۴۳۳ھجری قمری میں رحلت کرچکی تھیں۔ انہوں نے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا ہے۔ سی این این کے لئے مونی باسو نے ان کے بیٹے محمد ال نمر کا انٹرویو کیا، جو اس کی ویب سائٹ پر بائیس جنوری کو اپ لوڈ کیا گیا۔ آیت اللہ نمر کے بیٹے نے کہا کہ سعودی جابر حکومت نے شہری آزادی و شہری حقوق کے مطالبات پر ان کے والد کو سزا دیتے ہوئے قتل کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شیعہ شہری اپنے صوبے سے باہر بے خوف سفر نہیں کرسکتے۔ وہ کہتے ہیں: ہمیں مجرم سمجھا جاتا ہے۔ وہ ہمیں کافر قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ داعش اور سعودی بادشاہت میں کوئی فرق نہیں۔ یہ شیعہ سنی مسئلہ نہیں بلکہ یہ جابر و آمر حکومت کے خلاف عوام کی پرامن جدوجہد کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ظلم کے خلاف مزاحمت ان کے خون میں شامل ہے اور آیت اللہ نمر کے چچا نے بھی وہابیت اور ظلم پر مبنی ٹیکس کی وصولی کے خلاف بغاوت کی تھی۔ ان کے بیٹے نے بتایا کہ اس کی پیدائش شام میں ہوئی تھی اور اس کے بعد ان کا خاندان اپنے آبائی علاقے ال عوامیہ منتقل ہوگیا تھا۔ محمد ال نمر نے بتایا کہ ان والد صاحب کو سال دو ہزار تین میں اس لئے گرفتار کیا گیا تھا کہ انہوں نے نماز جمعہ کھلی اور عوامی جگہ پر منعقد کی۔ چار سال بعد انہوں نے سیاسی و اقتصادی حقوق کا مطالبہ کیا تو گرفتار کر لئے گئے۔

سی این این نے یہ بھی لکھا کہ وکی لیکس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایک امریکی سفارتکار نے آیت اللہ نمر سے ملاقات کی تھی تو آیت اللہ نمر نے انہیں بتایا کہ انہیں غلط طور پر انتہا پسند قرار دیا جا رہا ہے، حالانکہ وہ مفاہمتی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ سی این این کا کہنا ہے کہ انہیں اس وجہ سے گرفتار کیا گیا کہ وہ ایک سعودی بادشاہ یا ولی عہد کے انتقال پر سوشل میڈیا کے ذریعے خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کے سترہ سالہ بھتیجے علی ال نمر کو بھی مظاہروں میں شرکت کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ محمد ال نمر اپنے والد سے جدہ کی جیل میں ملاقاتیں کرچکے تھے اور آخری ملاقات 2014ءموسم گرما میں کی تھی۔ آیت اللہ نمر مسکراتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے، حالانکہ ان کی ایک ٹانگ میں شدید درد تھا۔ انہوں نے سعودی انسانی حقوق کے activist ولید ابوالخیر کی مثال دی کہ وہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور کسی چیز کی اسے ضرورت نہیں، لیکن اس کے باوجود اس نے جدوجہد کی راہ اختیار کی۔ لوگوں کو ایسا ہونا چاہیے۔ آیت اللہ نمر کے بیٹے نے مزید کہا کہ اس کے والد آخری وقت تک ثابت قدم رہے اور انہوں نے اپنا بیان تبدیل نہیں کیا۔ وہ خدا کی رضا پر راضی و شاکر تھے۔ وہ ان کی سزائے موت سنائے جانے کے بعد بھی جھکے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاحال ان کا جسد خاکی حوالے نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آیت اللہ نمر کی والدہ، آنٹی، بھائی اور پورا خاندان ان کی تدفین اپنے علاقے میں کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد نے مسلمانان عالم کو پیغام دیا کہ آپ دنیا کو تشدد کے ذریعے نہیں جیت سکتے۔ آیت اللہ نمر کا کہنا تھا کہ الفاظ کی دھاڑ گولی کی گھن گرج سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 516925
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش