0
Sunday 31 Jan 2016 19:30

یونیورسٹیوں میں تبلیغی جماعت کے داخلے پر پابندی!

یونیورسٹیوں میں تبلیغی جماعت کے داخلے پر پابندی!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر فرنٹ لائن اتحادی ہے، مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پاکستان اندرونی طور پر بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان کرچکا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضربِ عضب شروع کر چکا ہے۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ جب دہشت گردوں نے پاک فوج کے جوانوں کے گلے کاٹے اور ان کے سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلنے کی ویڈیو فلم جاری کی تو پاک فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور فوج نے جون 2015ء میں دہشت گردوں یعنی طالبان کے خلاف آپریشن شروع کر دیا۔ اس وقت سیاسی قیادت یعنی نون لیگ کی موجودہ حکومت، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، جمعیت علمائے اسلام (س) اور اسی قبیل کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کر رہیں تھیں۔ وفاقی حکومت اور جماعت اسلامی اس سارے عمل میں پیش پیش تھی۔ حکومت نے اپنے نمائندے مقرر کر دیئے تھے اور کالعدم تحریک طالبان نے حکومتِ پاکستان سے مذاکرات کے لئے اپنے نمائندے مقرر کر دیئے تھے۔ طالبان کے ایک نمائندے کا نام مولوی عبدالعزیز تھا، جو آج بھی اسلام آباد میں بیٹھ کر یہ کہہ رہا ہے کہ خفیہ ادارے کے افسران اس سے رابطے میں ہیں اور پھر خفیہ ادارے کو تردیدی بیان جاری کرنا پڑتا ہے۔

کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے خلاف ساری سیاسی و مذہبی جماعتیں اس وقت متحد ہوئیں، جب ان درندوں نے دسمبر 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں 165 سے زائد شہادتیں ہوئیں۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی، پاک فوج نے آپریشن کو نہ صرف تیز کیا بلکہ اس آپریشن کو دائیں بازو کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہوگئی۔ البتہ مولوی عبدالعزیز نے اس حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ اور اسی طرح کی اور بہت سی چیزیں ہیں جو ریکارڈ پر ہیں۔ اس حملے کے بعد سکیورٹی کو مزید مؤثر کرنے کے حوالے سے کئی ایک میٹنگز ہوئیں اور پھر 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا۔ جس پر اگر واقعی عمل کیا جاتا تو سانحہ چار سدہ رونما نہ ہوتا۔ بے شک آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں دہشت گردی میں کمی آئی ہے، مگر دہشت گردوں کے ’’سلیپرز سیل‘‘ آج بھی موجود ہیں، جب تک ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی، سانحہ چار سدہ جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔

حکومت نے سانحہ چار سدہ کے بعد فوری طور کچھ جز وقتی اقدامات اٹھائے ہیں۔ پنجاب حکومت اور وفاق نے بالخصوص۔ دونوں نے یہ کہہ کر سکولوں کو یکم فروری تک بند کر دیا کہ دھند اور سردی کے باعث یہ اقدام اٹھایا گیا ہے، جبکہ صوبہ کے پی کے کی حکومت نے اپنے تعلیمی اداروں کو بالکل بند نہیں کیا۔ حالانکہ چار سدہ واقعے کے بعد اگر کے پی کے کی حکومت تعلیمی اداروں کو بند کرتی تو بات سمجھ میں آنے والی تھی۔ پنجاب حکومت کے کئی ایک وزیر میڈیا پر یہ بیان دیتے ہیں کہ تعلیمی ادارے کسی دھمکی یا دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے بند نہیں کئے، جبکہ پنجاب حکومت سرکاری سکولوں سے درجہ چہارم کے ملازمین اور اساتذہ کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کی ٹریننگ بھی دے رہی ہے، نیز نجی تعلیمی اداروں کو بھی فول پروف سکیورٹی کے اہتمام کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہی دوہرا معیار دہشت گردوں کے حوصلے بلند کرتا ہے۔

حکومت نے یونیورسٹیوں میں تبلیغی جماعت کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ اگرچہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ تعلیمی ادارے، کالجز اور یونیورسٹیاں بالخصوص تحقیق و تدریس اور اتحاد و یگانگت کی آماجگاہ ہوا کرتی ہیں، جہاں ہر رنگ و نسل، جغرافیے اور مذہب و فرقے سے متعلق انسان اپنی علمی و تحقیقی پیاس بجھاتے ہیں، مگر ہمارے ہاں یونیورسٹیوں پر بالخصوص جمعیت کے ’’مسلح طالبعلموں‘‘ کا قبضہ رہا اور انہی کی ’’چھتر چھاؤں‘‘ تلے تبلیغی جماعت والے یونیورسٹوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کا جہاں کالعدم تحریکِ طالبان اور دیگر دہشت گردوں کے خلاف ریاستی آپریشن پر سخت ردعمل رہا، وہاں انھیں حکومت کا یہ فیصلہ بھی ناگوار گذرا اور اس فیصلے پر تنقید کو ڈپٹی جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید پراچہ میدان میں نکل آئے۔

’’ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے یونیورسٹیوں میں تبلیغی جماعت کے داخلہ پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکمرانوں کو اپنے لبرل تشخص کے لئے اب تبلیغی جماعت بھی ناقابل قبول ہوگئی ہے، حالانکہ تبلیغی جماعت سیاست میں بھی براہ راست حصہ نہیں لیتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعلیمی اداروں کے تحفظ میں ناکامی کے نتیجہ میں حکمران وی آئی پی کلچر اور پورے شاہی خاندان کے تحفظ پر ہزاروں اہل کاروں کی تعیناتی اور کروڑوں روپے کے بجٹ ترک کرنے کے لئے تیار نہیں، لیکن بوکھلاہٹ میں تبلیغی جماعت پر ہی پابندی لگا رہے ہیں، جس پر بھارت سمیت غیر مسلم ممالک میں بھی پابندی نہیں ہے۔ حکمرانوں کے ایسے رویے دہشتگردی میں اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں اور معاشرے میں موجود تضادات اور حکمرانوں کے منافقانہ طرز عمل اور غیر حقیقی سوچ کی وجہ سے شدید ردعمل کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔‘‘

مجھے نہیں معلوم کہ یونیورسٹیوں میں تبلیغی جماعت کے داخلے پر پابندی کے فیصلے کے خلاف کہاں سے شدید ردعمل آئے گا؟ یہ بجا کہ تبلیغی جماعت والے براہِ راست سیاست میں حصہ نہیں لیتے، لیکن بالواسطہ طور پر نہ صرف سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ دہشت گردی کے واقعات پر تبلیغی جماعت کے اکابرین کی خاموشی ان کے مشکوک کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر فرید پراچہ صاحب کے تحفظات اپنی جگہ، مگر ہمیں اس وقت اس امر کی ضرورت ہے کہ ہر وہ ’’پاکٹ‘‘ یا سوراخ جہاں دہشت گرد کسی بھی طرح پناہ لے سکتے ہیں، اسے بند کر دیا جائے۔ یہی پاکستان، پاکستانی عوام اور مسلم امہ کے مفاد میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 517006
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش