0
Monday 1 Feb 2016 16:30

2015ء کا اثر پذیر روس اور امریکی شکست پذیری

2015ء کا اثر پذیر روس اور امریکی شکست پذیری
ترتیب و تنظیم: ٹی ایچ بلوچ

شام میں امریکہ اور سعودیہ کی پسپائی:
عالمی سیاست میں 2015ء کے برس روسی صدر ولادی میر پیوٹن طاقتور ترین عالمی سیاست دان بن کر ابھرے ہیں اور یہ میڈیا کنٹرول کا نتیجہ نہیں، بلکہ زمینی حقائق نے روس کو بطور ملک اور پیوٹن کو بطور سیاست دان منوایا ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے کیا جانے والا پراپیگنڈہ، یمن اور شام کی صورت میں براہ راست مداخلت کے باوجود روسی پالیسی ہی کامیاب ثابت ہوئی اور مغرب کی پالیسیوں کے بارے میں کھلے عام انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ 2015ء میں روس کی سب سے بڑی کامیابی شام کی صورت میں ہے۔ شام میں روسی مداخلت نے خطے کی سیاست کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ شامی صدر بشار الاسد مغربی ممالک کی جانب سے کھلی مخالفت کے باوجود اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ چند برس پہلے تک بشار الاسد کو ہٹانے کے لئے شام میں فوجی مداخلت کے لئے تیار فرانس اب روس کے ساتھ داعش کے خلاف تعاون کر رہا ہے۔ امریکہ کی کٹھ پتلی تنظیمیں اور ممالک مسلسل پسپائی کا شکار ہیں۔ داعش کے بارے میں مغربی اخبارات کا ماننا ہے کہ امریکہ کو یہ چال مہنگی پڑی ہے اور میری شیلے کے فرینکنسٹائن کی مانند یہ تنظیم خود بنانے والوں کو ہی نگلنے لگی ہے۔ آج مغرب یا امریکہ میں اپنی ہی حکومتوں کو ایسی وحشیانہ تنظیم کی حمایت کرنے پر مطعون کیا جا رہا ہے۔ 2015ء میں روس نے اپنی جنگی قوت کا مظاہرہ بھی کیا۔ اس برس مئی میں روس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کی سب سے بڑی فوجی پریڈ کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک کو یہ باور کرا دیا ہے کہ دنیا میں واحد سپرپاور کا زمانہ اب مزید باقی نہیں رہا۔ کریمیا کے معاملے پر بھی روس کی جانب سے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کے بعد بھی یہ پیغام ملا تھا کہ امریکہ کی مزاحمت کی جا سکتی ہے۔ روس کی عسکری محاذ پر سب سے نمایاں کامیابی یہ ہے کہ آج انڈیا، جو امریکہ کا سب سے قریبی حلیف خیال کیا جاتا ہے، روسی ساختہ میزائل سسٹم کی خریداری کے لئے بے صبرا ہوا جا رہا ہے۔

ایران پر پابندیوں کا خاتمہ:
ایران کے مغربی ممالک کیساتھ معاہدے کے نتیجے میں مغرب کی جانب سے اس پر عائد پابندیوں کے خاتمے کو بھی روس کی کامیابیوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ایران اس خطے میں بہت سے تزویراتی معاملات میں
روس سے زیادہ قریبی موقف رکھتا ہے۔ یہ بات اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ مشرق وُسطٰی میں امریکی حلیف سعودی عرب کو پے درپے ہزیمتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مشرق وُسطٰی میں، جو آئندہ کئی برس تک عالمی ریشہ دوانیوں کو مرکز بنا رہے گا، وہاں ایران جیسے سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط حلیف کی موجودگی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ شام اور عراق میں ایران و روس کے اتحاد کو جو کامیابیاں ملی ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین عسکری و سیاسی تعاون کے نئے در وا ہوں گے۔

امریکہ کے واحد سپر پاور ہونے کے طلسم کا خاتمہ:
2015ء
میں روس کی سب سے بڑی کامیابی اس تاثر کا جنم ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور کا سامنا اگر کوئی ملک کرسکتا ہے تو وہ روس ہی ہے۔ اس برس روس نے خود کو پوری قوت سے منوا لیا ہے۔ امریکہ کے اتحادیوں، ترکی جیسے ممالک کو شام میں روس نے جس طرح آنکھیں دکھائی ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روس میں ابھی دم خم موجود ہے۔ اقوام متحدہ جو امریکہ و یورپ کا سفارتی بازو بن چکی تھی، وہاں بھی روس نے سفارتی فتوحات حاصل کی ہیں۔ عالمی سطح پر شام، لیبیا، مصر، یمن اور عراق تک جنم لینے والے تمام بحرانوں میں روس نے سفارتی و عسکری کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ شام کے بحران پر سلامتی کونسل سے پاس کی جانے والی حالیہ قرارداد اس کی ایک مثال ہے۔ 2015ء میں روسی صدر پیوٹن نے ترکی میں ہونے والے جی 20 اجلاس کے دوران داعش کی جانب سے تیل کی فروخت کا الزام اردگان کے خاندان پر عائد کئے جانے سے عالمی سطح پر ہل چل مچ گئی۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں یوکرین کے مسئلے پر روس کو نشانہ بنانے پر بھی پیوٹن کے موقف کو جرات مندانہ قرار دیا گیا۔ یوکرین کے مسئلے کی آڑ میں روس پر معاشی پابندیوں کی کارروائی نے یورپ کے اپنے اندر دراڑیں ڈال دیں۔ امریکہ اپنا پورا دباؤ صرف کرکے بھی یورپ کو ان پابندیوں میں اضافے پر راضی نہیں کرسکا۔ یوکرین کے معاملے میں بھی روسی صدر نے نہ صرف امریکہ بلکہ اس کے حلیف یورپی ممالک کے دانت بھی کھٹے کر دیئے۔ یقیناً آج کا روس نوے کی دہائی کے روس سے بالکل مختلف ہے اور اڑھائی دہائیوں میں شکست و ریخت سے اس مقام پر پہنچ جانے کی روسی کہانی ققنس کی اساطیری کہانی سے مماثلت رکھتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 517215
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش