0
Wednesday 3 Feb 2016 22:30

نایاب اندھی ڈولفنز کو بچانے کی منصوبہ بندی

نایاب اندھی ڈولفنز کو بچانے کی منصوبہ بندی
رپورٹ: آئی اے خان

تبت کی مانسرور جھیل سے شروع ہونے والا دریائے سندھ کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گرنے تک نہ صرف کروڑوں انسانوں، چرند پرند درند کو سیراب کرتا ہے، بلکہ اپنے دامن میں بھی مختلف نوع کی نایاب آبی مخلوق کو سمائے ہوئے ہے۔ جن میں سے اندھی ڈولفن انتہائی قابل ذکر اور نایاب ہے۔ دریائے سندھ میں پائی جانے والی یہ اندھی ڈولفن انتہائی نایاب یوں بھی ہے کہ دریائے سندھ کے علاوہ دنیا میں اس کا وجود کہیں نہیں ملتا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ دریا کے گدلے پانی کے باعث، مسلسل اندھیرے میں رہنے کی وجہ سے یہ میمل اپنی بصارت گنوا چکا ہے۔ تاہم پانی میں آواز کے سہارے راستہ تلاش کرکے اپنی خوراک کا حصول بخوبی کر لیتی ہے۔ اندھی ڈولفن کو سوسو کہا جاتا ہے۔ اسکا ایک مقامی نام بلھن بھی ہے۔ ڈولفن کی یہ قسم دنیا بھر میں نایاب ہے۔ یہ قدرتی طور پر اندھی ہوتی ہیں اور پانی میں آواز کے سہارے راستہ تلاش کرتی ہے۔

دریائے سندھ میں پائی جانے والی اندھی ڈولفن کی لمبی چونچ ہوتی ہے اور ایک بالغ ڈولفن کا وزن 60 سے 90 کلوگرام ہوتا ہے۔ سست رفتاری سے تیرنے والی یہ مچھلی تین فٹ گہرے پانی میں بھی زندہ رہ سکتی ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ کیمیائی اور دیگر آلودگی کے ساتھ ساتھ ڈیموں کی تعمیر، مچھلیاں پکڑنے کے لئے بچھائے گئے جالوں میں حادثاتی طور پر پھنس جانا، گوشت اور تیل حاصل کرنے کے لئے شکار جیسے عوامل سے اندھی ڈولفن کی نسل ختم ہونے کے قریب ہے۔ پاکستان میں اندھی ڈولفن کو بچانے کے لئے خصوصی ادارہ بھی قائم کیا گیا ہے اور ماہرین اس سلسلے میں ہنگامی اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیتے آئے ہیں، لیکن پچھلے کچھ سالوں میں اس نایاب ڈولفن کی غیر طبعی ہلاکتوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک جانب ہلاکتوں کے واقعات نے متعلقہ حکام کی کارکردگی کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے، تو دوسری جانب یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر اسی رفتار سے اندھی ڈولفن کی تعداد میں کمی واقع ہوتی رہی، تو چند برسوں میں شائد کہ نایاب جاندار صرف تصویروں میں باقی رہ جائے۔ دریائے سندھ میں پائی جانے والی نایاب اندھی ڈالفن کی پراسرار ہلاکتوں میں اضافے کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ صرف پچھلے سال ماہی گیروں کو تیس سے زائد ڈولفنز مردہ حالت میں مل چکی ہیں، جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان کی کل تعداد چھ سو جبکہ سرکاری پراجیکٹس میں بتائی جانے والی ڈولفنز کی کل تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔

سکھر میں جنگلی تحفظ کے سرکاری ادارے کے ایک اعلٰی عہدے دار نے بتایا ہے کہ آخری مردہ ڈولفنز سکھر بیراج کے گیٹ کے قریب ملی تھی، جس کا وزن ساٹھ کلوگرام سے زائد اور لمبائی پانچ فٹ تین انچ تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس مادہ ڈولفن کی موت پنو عاقل اور سکھر کے درمیان ہوئی تھی، لیکن سکھر بیراج کے گیٹ پر اُس کی لاش دیر سے پہنچنے کی وجہ دریا میں پانی کے بہاؤ کی کم رفتار ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے کارکنوں نے اس پیش رفت پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا، کیونکہ دریائے سندھ میں اندھی ڈالفن کی تعداد محض 600 سے بھی کم ہے اور اس کی نسل کا وجود پہلے ہی خطرے سے دوچار ہے۔ سرکاری عہدے داروں کا الزام ہے کہ ماہی گیر دریائے سندھ میں زیادہ سے زیادہ مچلیوں کو پکڑنے کی کوششوں میں زیریلے کیمیائی مواد کا استعمال کر رہے ہیں جو اندھی ڈولفن کی ہلاکت کی بڑی وجہ بن رہا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ میں تیزی سے کم ہوتی ہوئی نایاب اندھی ڈولفن کو ان کے مسکن سے نکال کر دریائے سندھ کے اوپری حصے پر منتقل کرنے سے شاید ان کی بقا کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

گذشتہ ماہ بائیلوجوکیکل کنزرویشن نامی جرنل میں شائع ایک رپورٹ میں پاکستانی اور بین الاقوامی ماہرین نے خیال پیش کیا ہے کہ ایک وقت میں دریائے سندھ کی ڈولفن 3500 کلومیٹر طویل رقبے پر کناروں کے اطراف موجود تھی، لیکن پانی کے مسلسل استعمال اور زرعی آبپاشی کے بعد ان کی تعداد 80 فیصد کم ہوچکی ہے، اور اب 1200 سے 1700 (سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) ڈولفن ہی باقی بچی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس حساس اور نایاب ممالیے کو دریائے سندھ کے بالائی اور نسبتاً محفوظ پانیوں میں منتقل کرکے ان کو مزید ہلاکتوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ آج تمام ڈولفن دریائے سندھ کے 189 کلومیٹر علاقے میں پائی جاتی ہیں اور اسی جگہ آب پاشی کے نالوں میں یہ مچھلیں پھنس جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دریائی آلودگی، پانی کے بہاو میں کمی اور ماہی گیری کی وجہ سے ڈولفن مر رہی ہیں۔ اب ڈولفن صرف 189 کلومیٹر طویل دریائی پٹی میں موجود ہیں، جسے ایک پناہ گاہ کا درجہ دیدیا گیا ہے۔ دوسری جانب سندھ وائلڈ لائف محمکے کے ماہرین نے کہا ہے کہ ڈولفن کو منتقل کرنے کا منصوبہ خطروں سے خالی نہیں۔ ہر سال ڈولفن زرعی آب پاشی کی نالیوں میں پھنس جاتی ہیں، جنہیں دوبارہ دریا میں چھوڑ دیا جاتا ہے، لیکن اس حساس جانور کو دریا تک لے جانا ممکن ہوتا ہے، لیکن دریائے سندھ کے بالائی پانیوں میں منتقلی سے خود اس جانور کی بقا کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

دوسری جانب ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف پی) نے ایک مطالعے پر کام شروع کر دیا ہے۔ جس میں ڈولفنز کو طویل فاصلے تک لے جانے میں حائل مشکلات اور خطرات کا جائزہ لیا جائے گا۔ ڈولفن تین گھنٹوں تک پانی سے باہر زندہ رہ سکتی ہیں، لیکن انہیں خاص گیلے تولیوں میں لپیٹنے کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ انہیں مناسب نمی ملتی رہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق انہیں ہوائی جہاز سے منتقل کرنا ناممکن ہے کیونکہ آواز اور جھٹکوں سے یہ جاندار حساس ہے اور شاید اس سفر میں جی نہ سکے۔ تحقیقی رپورٹ کی مصنفہ اور ڈبلیو ڈبلیو ایف سے وابستہ عظمٰی خان نے بتایا کہ اب صرف تیز رفتار کشتی کا آپشن ہی باقی رہ جاتا ہے، لیکن اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ بالائی دریائے سندھ میں ڈولفن کی مناسب خوراک موجود ہے اور کیا انہیں وہاں کا ماحول موافق آسکے گا یا نہیں اور کیا وہ اس نئے ماحول میں رہ بھی سکیں گی یا نہیں؟ عظمٰی خان نے کہا کہ منتقل کرنے کے لئے ان ڈولفن کو پانی سے پکڑنا بھی آسان نہیں کیونکہ وہ اس دباو سے مر بھی سکتی ہیں۔ شائع شدہ رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ اگر ان ڈولفنز کو زندہ رکھنا ہے تو پانی کے بہاو کو یقینی بنایا جائے، انکی مسلسل نگرانی کی جائے اور دریا میں موجود لوگوں سے مل کر ان کی نگہداشت کی جائے ورنہ چین کے دریاوں میں موجود بائی جی ڈولفن کی طرح ان کا وجود بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نایاب و خاص آبی مخلوق کی نسل محفوظ کرنے اور انہیں معدوم ہونے کے خطرے سے بچانے کیلئے عوام اور سرکار مل کر کوششیں کریں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایسے ملک میں یہ سب اس صورت میں ممکن ہے، جبکہ تمام فیکٹریز، ملز یہاں تک کہ ایٹمی پاور پلانٹس، بجلی گھروں کا آلودہ پانی و کیمیائی فضلہ آبی صورت میں دریائے سندھ میں مسلسل شامل ہو رہا ہے، جس کے باعث اس دریا کے پانی سے براہ راست مستفید ہونے والے انسان و حیوان آنکھوں، جلد آنتوں کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ آئے روز نت نئے انفیکشنز کا شکار ہو رہے ہیں، مگر اس کے باوجود حکومت اور ادارے اس جانب توجہ دینے کو تیار نہیں، تو دریائے سندھ کی اس ڈولفن کی کوئی کتنی فکر کرے گا، جو پہلے سے ہی اندھی ہے۔۔؟؟
خبر کا کوڈ : 517526
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش