QR CodeQR Code

ویانا مذاکرات اور شام حکومت کی اہم کامیابیاں

4 Feb 2016 00:27

اسلام ٹائمز: مغربی ممالک کی جانب سے ایسے مذاکرات میں شمولیت جہاں ایران، روس اور شام بھی ایک ساتھ موجود ہیں اور شام کے حکومت مخالف گروہوں پر صدر بشار اسد کی حکومت کو تسلیم کرنے پر زور دینا، اسلامی مزاحمتی بلاک خاص طور پر شام کیلئے ایک شاندار فتح ہے۔ بعض مخالفین کی جانب سے شام حکومت کو تسلیم کئے جانا یا امریکہ، ترکی، سعودی عرب وغیرہ کی جانب سے صدر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے میں ناکامی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ مستقبل میں ایسی سازشوں سے باز آجائیں گے۔ لیکن جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ اب شام میں کسی کیلئے اس شک کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ حکومت اور مسلح افواج کے خلاف مسلحانہ کارروائیوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا، البتہ عوام کا بہت زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔ شام کے عوام اب پہلے سے زیادہ پرجوش انداز میں دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور وہ ملک میں امن و امان کی بحالی کی نسبت انتہائی پرامید ہوچکے ہیں اور یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔


تحریر: سعداللہ زارعی

شام میں سرگرم دو اہم دہشت گرد گروہوں (احرار الشام اور جیش الاسلام) کی ویانا مذاکرات یا بہتر الفاظ میں ویانا بات چیت میں شرکت اور اس شہر میں ان کا شام حکومت کے رسمی نمائندوں سے سیاسی سامنا ایک اہم واقعہ محسوب ہوتا ہے۔ البتہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ شام کے مسئلے میں ان دو گروہوں یا ان کے موقف کی بہت اہمیت ہے کیونکہ ان دو گروہوں کا شمار شام میں سرگرم حکومت مخالف پہلے درجے اور حتی دوسرے درجے کے گروہوں میں بھی نہیں ہوتا۔ اس واقعے کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادی ممالک جیسے ترکی، سعودی عرب اور قطر شام حکومت کے خلاف چار سال کی فوجی سرگرمیوں کے بعد جنیوا مذاکرات میں شرکت کے ذریعے اس حقیقت کا اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں کہ دمشق کے خلاف ان کا فوجی اور مسلحانہ منصوبہ ناکام ہوچکا ہے۔ دو دہشت گرد گروہوں، احرار الشام اور جیش الاسلام اور شام حکومت کے رسمی نمائندوں کے درمیان انجام پانے والی گفتگو کے دوران کچھ اہم واقعات رونما ہوئے ہیں، جن سے اس بات چیت کی گہرائی اور اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

انہی دنوں امریکی وزارت خارجہ نے رسمی طور پر اعلان کیا ہے کہ صدر بشار اسد کی صدارت میں ہی 18 ماہ پر مشتمل عبوری مدت پوری کی جائے گی اور اگلے صدارتی انتخابات میں بھی بشار اسد کو شرکت کی اجازت دی جائے گی، جبکہ ماضی میں امریکی حکام ہمیشہ سے اس نکتے پر زور دیتے آئے ہیں کہ شام کے سیاسی مستقبل میں بشار اسد کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ دوسری طرف ترکی نے بھی شام کے ساتھ اپنی جنوبی مشترکہ سرحدوں کو سیل کرنے کا کام شروع کر دیا ہے اور اب تک حلب کے علاقے سے متصل 50 کلومیٹر لمبی سرحد کو سیل کرچکا ہے، جبکہ چند ماہ قبل تک ترک حکام شام کے شمالی حصے جس میں حلت، ادلب اور حسکہ جیسے شہر شامل تھے، میں نو فلائی زون برقرار کرنے پر تاکید کر رہے تھے۔ نو فلائی زون قائم کرنے کا مقصد شام کی حدود کے اندر 100 کلومیٹر تک ترکی کو زمینی اور ہوائی دسترسی مہیا کرنا تھا۔ ترکی کی جانب سے شام کے ساتھ اپنی مشترکہ سرحد سیل کرنا درحقیقت اس بات کا اعلان ہے کہ وہ دمشق میں برسراقتدار حکومت کو گرا کر اپنے کٹھ پتلی دہشت گروہوں کو اقتدار میں لانے سے مکمل طور پر مایوس ہوچکا ہے، دوسری طرف اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انقرہ شام میں سرگرم تکفیری دہشت گردوں کے ترکی کی جانب رخ کرنے سے بھی خوفزدہ ہے۔

ترک حکومت کی جانب سے اپنی جنوبی سرحدوں کو سیل کرنے کے ساتھ ساتھ اردن نے بھی ایسی ہی پالیسی پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے، کیونکہ اردن کو بھی تکفیری دہشت گردوں سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ شام آرمی کی جانب سے صوبہ درعا کے شمال میں اردن کی سرحد کے قریب واقع شہر "شیخ مسکین" میں تکفیری دہشت گردوں کے خلاف حالیہ آپریشن کے دوران اردن نے اپنا بارڈر سیل کر دیا اور النصرہ فرنٹ سے وابستہ دہشت گردوں کو سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے علاوہ اردن آرمی نے بھی النصرہ فرنٹ کے اہم ٹھکانوں سے متعلق وسیع معلومات شام آرمی کو مہیا کر دیں، جو تکفیری دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں شام آرمی کیلئے بہت بڑی مدد ثابت ہوئیں۔ البتہ شام میں جاری بحران کے گذشتہ چار سالوں کے دوران اردن نے کبھی بھی تکفیری دہشت گردوں کے خلاف شام حکومت کی اس طرح سے مدد نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سلفی طرز فکر کے حامل گروہ اردن میں بہت مضبوط ہیں اور داعش اور النصرہ فرنٹ جیسے گروہ اگر اردن میں اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں تو یہ ملک ایک بڑے سکیورٹی بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران ایک طرف امریکہ نے اور دوسری طرف سعودی عرب نے اردن حکومت پر بہت زیادہ دباو ڈال رکھا تھا اور اردن حکومت اپنے قومی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کے ساتھ تعاون پر مجبور تھی۔ لہذا اب اردن حکومت کی جانب سے النصرہ فرنٹ کی حمایت ترک کر دیئے جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب نے بھی اس پر دباو میں کمی کر دی ہے۔ اس امر سے امریکی منصوبوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران شام کے زمینی حقائق میں متعدد اہم اور واضح تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان چند ماہ کے دوران میدان جنگ اور جنگ سے متعلقہ امور کی صورتحال مکمل طور پر حکومت مخالف گروہوں کے نقصان میں جا چکی ہے۔ احرار الشام اور جیش الاسلام سے وابستہ مسلح دہشت گرد عناصر دمشق کے نواح کا علاقہ خالی کرنے پر مجبور ہوگئے جبکہ دوسری طرف انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل شہر "الزبدانی" بھی تکفیری دہشت گرد عناصر سے مکمل طور پر آزاد کروا لیا گیا۔ یہ دو امر ایک طرف دمشق کی سکیورٹی صورتحال مضبوط ہونے کا باعث بنے ہیں جبکہ دوسری طرف لبنان کے سرحدی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے نتیجے میں حزب اللہ لبنان کی پوزیشن بھی مضبوط ہوچکی ہے۔ مزید برآں، شام آرمی اور رضاکار فورسز حلب، حما، ادلب اور لاذقیہ پر مشتمل وسیع علاقے کے گرد گھیرا ڈالنے میں کامیاب ہوچکی ہیں، جس کے نتیجے میں تکفیری دہشت گرد عناصر کا آپس میں رابطہ ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ جیسا کہ صوبہ حمص میں تدمر کا آثار قدیمہ کا حامل علاقہ بھی مکمل طور پر شام آرمی کے گھیرے میں ہے۔ شام کی مسلح افواج اسی طرح ملک کے جنوبی حصے میں صوبہ درعا کے شمال اور گولان کے قریب واقع شہر "شیخ مسکین" کو بھی دہشت گردوں کے قبضے سے چھڑوانے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔ اس کامیابی نے دہشت گردوں کی کمر توڑ ڈالی ہے۔

شام کے مسئلے میں روس کی فعالانہ مداخلت نے شام آرمی کے حوصلے بلند کر دیئے ہیں۔ شام کی مسلح افواج اب اسلحہ اور جنگی ساز و سامان کی فراہمی سے آسودہ خاطر ہوچکی ہیں، جبکہ روس کی مداخلت نے علاقائی سطح پر بھی سیاسی صورتحال تبدیل کر ڈالی ہے۔ ان تمام واقعات کے نتیجے میں جب شام حکومت کے مخالفین نے یہ محسوس کیا کہ ان کے حمایت یافتہ مسلح گروہ پسپائی کا شکار ہوچکے ہیں تو ان کے حوصلے بھی پست ہوگئے۔ حکومت مخالف دہشت گرد گروہوں کی آپس میں لڑائی، جس کے نتیجے میں گذشتہ ہفتے 50 سے زائد دہشت گرد ہلاک ہوگئے، نئی صورتحال کے باعث ان گروہوں کی پریشانی اور بوکھلاہٹ کو بخوبی ظاہر کرتی ہے۔ ایسے حالات میں ویانا مذاکرات کا انعقاد جو جداگانہ اور بالواسطہ بات چیت کی صورت میں انجام پائے ہیں، شام کے عوام کیلئے ایک بڑی کامیابی محسوب ہوتے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران امریکی حکومت نے اپنا سارا زور شام میں حکومت کی تبدیلی پر لگا رکھا تھا اور مغربی، عرب اور خطے کے ممالک کے ساتھ اتحاد قائم کرکے شام کے سیاسی مستقبل کو اس ملک کی جغرافیائی حدود کے باہر سے اپنی مرضی کے مطابق تعین کرنے کی کوشش کی۔ جنیوا مذاکرات جو سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے نمائندے کی زیر نگرانی شام حکومت اور بعض حکومت مخالف گروہوں کے درمیان انجام پائے، ایک طرف عالمی اور علاقائی سطح پر شام حکومت کی مشروعیت کا اعتراف تھا اور دوسری طرف شام کے مستقبل سے متعلق اہم فیصلوں کو شام حکومت کی مرکزیت میں خود شامی گروہوں کو ہی سونپ دیا گیا۔ یہ امر شام کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت میں کمی کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔

مغربی ممالک کی جانب سے ایسے مذاکرات میں شمولیت جہاں ایران، روس اور شام بھی ایک ساتھ موجود ہیں اور شام کے حکومت مخالف گروہوں پر صدر بشار اسد کی حکومت کو تسلیم کرنے پر زور دینا، اسلامی مزاحمتی بلاک خاص طور پر شام کیلئے ایک شاندار فتح ہے، جبکہ گذشتہ ایک دو سالوں کے دوران امریکہ کی آمرانہ مداخلت اور ترکی، سعودی عرب اور قطر کی مجرمانہ سازشوں کے باعث شام کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ صورت اختیار کرچکا تھا۔ دوسری طرف اس مدت میں دہشت گرد گروہوں نے بھی کئی بار شام حکومت کے خاتمے اور اسلامی مزاحمتی بلاک سے شام کا رابطہ منقطع کرنے کیلئے بڑے بڑے آپریشنز انجام دیئے، جن کے نتیجے میں شام حکومت اور اس کے حامی بھی شدید مشکلات کا شکار ہوئے، لیکن ان کی استقامت اور ثابت قدمی آخرکار رنگ لائی اور وہ تمام مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے۔ جب اس قدر زحمات اور کوششوں کے بعد بشار جعفری شام حکومت کے وفد کے سربراہ کے طور پر ویانا میں مذاکرات کی میز پر حاضر ہوتا ہے اور مخالفین سے بات چیت کیلئے حکومت کی شرائط کا اعلان کرتا ہے تو سب اس حقیقت کو بخوبی درک کر لیتے ہیں کہ امریکی سعودی بلاک ہار مان کر اپنے دونوں ہاتھ اوپر کرچکا ہے۔ ترک حکومت زیادہ سے زیادہ یہ کرسکی کہ اس نے صالح مسلم کی سربراہی میں کرد گروہ PYD کو مذاکرات میں شرکت کرنے سے روک دیا۔ البتہ اس سے سیاسی صورتحال پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ الٹا ترکی کو ہی نقصان پہنچے گا، کیونکہ کرد باشندوں میں ترک حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف سعودی عرب نے بھی پورا زور لگا کر دو دہشت گرد گروہوں احرار الشام اور جیش الاسلام کو مذاکرات میں شریک گروہوں کی فہرست میں شامل کروا لیا۔ یہ مسئلہ بھی سیاسی صورتحال پر زیادہ اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ ان دو دہشت گرد گروہوں نے مذاکرات میں شرکت کیلئے دو شرائط اعلان کر رکھی تھیں، جن میں اپنے بعض دہشت گرد عناصر کی آزادی اور شام آرمی سے اپنے علاقوں کا محاصرہ ختم کرنے کے مطالبات شامل تھے۔ شام حکومت نے ان کے دوسرے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے ان کے بعض گرفتار دہشت گرد عناصر کو آزاد کر دیا۔ شام کا بحران ویانا مذاکرات سے ہرگز ختم ہونے والا نہیں۔ اب بھی شام میں نئے بحرانوں کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ لہذا بعض مخالفین کی جانب سے شام حکومت کو تسلیم کئے جانا یا امریکہ، ترکی، سعودی عرب وغیرہ کی جانب سے صدر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے میں ناکامی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ مستقبل میں ایسی سازشوں سے باز آجائیں گے۔ لیکن جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ اب شام میں کسی کیلئے اس شک کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ حکومت اور مسلح افواج کے خلاف مسلحانہ کارروائیوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا، البتہ عوام کا بہت زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔ شام کے عوام اب پہلے سے زیادہ پرجوش انداز میں دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور وہ ملک میں امن و امان کی بحالی کی نسبت انتہائی پرامید ہوچکے ہیں اور یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔


خبر کا کوڈ: 518045

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/518045/ویانا-مذاکرات-اور-شام-حکومت-کی-اہم-کامیابیاں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org