0
Sunday 7 Feb 2016 09:24

سعود ی عرب، بڑھتی ہوئی دہشتگردی کی لپیٹ میں

سعود ی عرب، بڑھتی ہوئی دہشتگردی کی لپیٹ میں
تحقیق و تنظیم: ایس این حسینی

آج کل دنیا میں کوئی دن تشدد کے بغیر نہیں گزرتا۔ میڈیا کے کسی ذریعے، ریڈیو ہو یا ٹی وی یا کوئی اور ذریعہ، کو تشدد، دہشتگردی اور قتل و مقاتلے کے ذکر سے خالی نہیں پائیں گے۔ ہر قوم و ملک اپنے ہاں تشدد و دہشتگردی کا ڈھنڈورہ تو پیٹتے ہی رہتے ہیں، لیکن عجیب بات یہ کہ ہر ایک اسے دوسروں کی کاشت سمجھتا ہے، جبکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا  بھر میں آج نہیں بلکہ سو سال سے جاری تشدد و دہشتگردی کے پیچھے امریکہ، اسکے یورپین اور دیگر حواریوں ہی کا ہاتھ رہا ہے، جبکہ امریکہ کے منظر عام پر آنے سے قبل یہ ذمہ داری تنہا بوڑھے استعمار (برطانوی حکومت) کی ہوا کرتی تھی۔ تشدد کی کارروائیوں سے آجکل دنیا بھر میں۹۰ فیصد کے قریب مسلمان ہی متاثر ہو رہے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی عیاں ہے کہ امریکہ یا کسی بھی دہشتگرد ملک کو تشدد اور دہشتگردی کروانے کے لئے انسانوں کی صورت میں جس خام مال کی ضرورت ہے، وہ تنہا مسلمان ہی پوری کر رہے ہیں، یعنی یہ کہ بیشتر مسلمان آج خود مسلمان ہی کے ہاتھوں مر رہے ہیں۔ اگرچہ پیچھے ہاتھ امریکہ یا اسرائیل یا کسی بھی دوسرے غیر مسلم کا ہوتا ہے، لیکن کٹھ پتلی مسلمان ملک، حکمران یا بادشاہ ہی ہوتا ہے۔ تاہم جن ملکوں نے یہ سیاہ دھندہ شروع کر رکھا ہے، وہ خود بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں، کیونکہ جس گھر میں ایک سانپ رکھا اور پالا جاتا ہے، بالآخر ان کے بچے بھی اس سے سالم نہیں رہ سکتے۔

یقین نہ آئے تو دیکھیں آج سعودی عرب ہی کی مثال لیں۔ جس  نے نوے کی دھائی میں محض امریکہ کی خوشنودی کی خاطر افغانستان میں مجاہدین کی صورت میں شدت پسندی کو فروغ دیا۔ پھر اگلی دھائی میں القاعدہ کی صورت میں یہ ذمہ داری نبھاتا رہا اور اسکے بعد داعش اور دیگر انگنت شرپسندوں کی امداد کی صورت میں اپنا فرض پورا کرتا رہا، تو آج خود اس ملک کی حالت پر تو ذرا نظر دوڑائیں کہ یہ ملک اندرورنی طور پر کس بحران سے دوچار ہے۔ معروف عرب صحافی ترکی الدخیل اس حوالے سے اپنا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’القاعدہ کے خلاف جنگ کے وقت سے لے کر آج داعش کے خلاف جاری جنگ تک، اگر عسکری تنظیموں کے خلاف میدان پر نظر دوڑائی جائے تو یہ دونوں محاذ کمزور ترین مقام پر نظر آتے ہیں۔ مثلاً اس منظرنامے میں ہم اس حملے کو لیتے ہیں، جو القاعدہ تنظیم نے گذشتہ سال 6 اگست کو ابھا شہر میں "ایمرجنسی فورسز" کی مسجد پر کیا تھا۔ اس سلسلے میں رواں سال 31 جنوری کو وزارت داخلہ کی جانب سے پیش کردہ معلومات دھچکا پہنچانے والی تھیں۔ تفصیلات کے مطابق دھماکہ خیز مواد سے بھری بیلٹ عبیر الحربی نامی ایک خاتون نے پہنچائی۔ ایک فوجی اہلکار نے خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گرد گروپ کے سرغنے کے ساتھ تعاون کیا، تاکہ حملہ آور کا مسجد میں داخلہ آسان ہوجائے اور پھر دھماکے کے بعد اپنے ساتھیوں کی ہنگامی امداد میں شامل ہوکر حقائق کی پردہ پوشی کا مرتکب ہوا۔‘‘

انکا اندیشہ بالکل بجا ہے کہ آج سعودی عرب، جسکا اپنا دفاعی  نظام کافی حد تک دوسروں کا دست نگر ہے، کے اندر اب نہ صرف دھماکہ خیز مواد کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، بلکہ اسے ایک اہم فوجی مرکز تک پہنچانے میں بھی کوئی دشواری نہیں۔ آج القاعدہ یا داعش کے نام پر دہشتگردوں نے اس ملک کے اندر وہ خوف پیدا کر رکھا ہے کہ میرے خیال میں اب آئندہ دو تین دھائیوں تک سعودی عرب دوسرے ممالک میں مداخلت کے لئے فرصت ہی نہیں کر پائے گا۔ دہشتگردی کے لئے آج کل زیادہ تر کمسن بچوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ خواتین کا استعمال بھی کافی حد تک ہو رہا ہے۔ سعودی عرب نے خود ہی یہ آگ بھڑکا رکھی ہے۔ یہاں کے علماء نے فتاویٰ کے ذریعے نہ صرف مردوں کو بلکہ خواتین کو بھی اس جہاد میں شریک کرکے ثواب دارین کے لئے امیدوار بنا دیا ہے۔ لہذا اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے، کے مصداق آج اپنی بھڑکائی ہوئی آگ سے خود ہی جھلس رہے ہیں۔ فاضل صحافی کا اس حوالے سے موقف ہے کہ یہ دہشت گردانہ رسوخ اور سرائیت (القاعدہ) تنظیم کی طاقت کا اہم عنصر ہے، جو مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے صنف نازک کو بھی استعمال کرتی ہے۔

جب تک زمین پر عسکری کارروائی کو میڈیا کی اور نظریاتی سپورٹ حاصل نہیں ہوگی، تب تک یہ دہشت گرد گروپ جنم لیتے رہیں گے اور تشدد صنف نازک کے استعمال سے بھی آگے بڑھ کر خدا نخواستہ اپنی بدترین شکل اختیار کر لے گا۔ وزارت داخلہ نے جن گروپوں کے متعلق اعلان کیا تھا، وہ آپس میں نیٹ ورک قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے ایک طرف تو کوآرڈینیشن پیدا کی اور دوسری جانب متعدد اداروں میں سرائیت کرگئے۔ خواتین کی بھرتی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ کارروائی کی منصوبہ بندی انتہائی ہوشیاری اور خطرناک ذہن کے ساتھ کی گئی۔ اگرچہ سعودی عرب میں دہشتگردوں کا ایک جال پھیلا ہوا ہے، جس میں ہر کوئی شامل ہو رہا ہے۔ خود آل سعود خاندان کے اندر لوگ اس میں شامل ہیں۔ تاہم اب تک ہونے والے حملوں میں زیادہ تر ایک خاص خاندان کے لوگ شامل ہیں۔ اس حوالے سے الترکی کا موقف ہے کہ القاعدہ اور داعش تنظیموں میں ایک ہی خاندان کے کئی افراد موجود ہیں۔ میں یہاں ایک ہی مثال پر اکتفا کروں گا۔ آگے ذکر کئے جانے والے تمام تخریب کاروں کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔ عبدالجبار بن حمود بن عبدالعزيز التويجري (سکیورٹی اور عسکری اداروں کے ہیڈ کوارٹرز کو نشانہ بنانے والے مجرم) کو 3 جنوری کو سزائے موت دی گئی، عبدالله عبدالعزيز إبراهيم التويجري (جس نے فروری 2006ء میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا)، عبدالرحمن عبدالله سليمان التويجري (29 جنوری کو الاحساء کی مسجد الرضا پر حملے کا پہلا خودکش بمبار) جبکہ اس کا بھائی عراق میں شورش زدہ علاقوں میں داعش میں شامل ہوا۔ یہ بہت بڑا نیٹ ورک ہے، جس پر شدت پسند تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔

خاص افراد کی القاعدہ میں شمولیت

لیکن ایک خاص قبیلے یا صنف کے لوگوں تک ہی یہ نظریہ محدود نہیں بلکہ خاص اور اعلٰی عہدوں پر فائز افراد بھی القاعدہ سے متاثر ہوکر اس راہ میں شامل ہو رہے ہیں اور سعودی عرب کے لئے یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس حوالے سے ایک سعودی پائلٹ کا نام لینا کافی ہوگا۔ ماجد البکری الشھری کا نام ایسے ہی افراد میں سے ہے جسکے سر کی قیمت 10 لاکھ ریال مقرر کی جاچکی ہے۔ سعودی ذرائع کے مطابق ماجد زاید البکری نامی اشتہاری جنوبی سعودی عرب کے علاقے عسیر میں پچھلے سال ایمرجنسی سروسز کی مسجد میں خودکش حملے کے منصوبہ سازوں میں شامل ہے۔ وہ اس سے قبل بھی کئی سال تک فوجداری عدالت سے قید کی سزا پانے کے بعد جیل میں قید رہا۔ سعودی وزارت داخلہ کے ترجمان میجر جنرل منصور الترکی نے بتایا کہ ماجد الشھری نامی اشتہاری ملزم ریاض کی ایک فوج داری عدالت سے ساڑھے چار سال قید کی سزا پوری کرنے کے بعد 1435ھ کو رہا ہوا، جس کے بعد وہ رپوش ہوگیا۔

متنازعہ فتاویٰ
سعودی عرب میں دہشتگردی کے حوالے سے سب سے خوفناک امر اس دھندے میں مفتی صاحبان کی شمولیت ہے، کیونکہ عام شخص تو ایک فرد ہی تصور ہوتا ہے جبکہ مفتی صاحبان تو ایک مکتب کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں اور ان سے ایک خاص طبقہ بھی متاثر ہوجانے کا امکان ہوتا ہے۔ لہذا یہ ایک لاینحل مسئلہ ہے جو سعودی عرب کی سالمیت کے لئے ایک بہت بڑی دھمکی اور چیلنج ہے۔
ایسے مفتیوں میں سے ایک مثال محمد طرھونی کی ہے۔ طرھونی ماجد الشھری سے قبل داعش کا حمایتی تھا۔ الشھری کے جیل جانے سے ایک سال قبل طرھونی کو عسیر کی جیل میں رکھا گیا تھا۔ فیس بک کے صفحات سے ملنے والی معلومات میں ماجد الشھری کے بارے میں صرف اتنا پتہ چلا ہے کہ اس نے سکیورٹی اداروں اور مساجد پر حملوں کی منصوبہ بندی کا دعویٰ کیا ہے۔ محمد الطرھونی کی پروفائل دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ انہوں نے مصر کی جامعۃ الازھر سے تفسیر اور علوم القرآن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے رکھی ہے۔ اس نے بتدریج شدت پسندی کا راستہ اپنایا۔ انصار السنہ اور اخوان المسلمون کی بھی حمایت کی، مگر بعد میں ان سے بھی علیحدگی اختیار کی۔ تاہم اس نے خواتین کے نام اپنے پیغامات میں اخوانی لیڈر کمال السنانیری کی اہلیہ امینہ قطب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہر قیدی کی اہلیہ کو اسی طرح قربانی پیش کرنی چاہیے۔

شدت پسند محمد الطرھونی نے سعودی عرب میں قیام کے دوران کئی متنازع فتاویٰ بھی جاری کئے۔ اپنی ایک ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں اس نے شدت پسندی کی مخالفت کرنے والے اقارب کو موت کے گھاٹ اتارنے، سکیورٹی اداروں کے اعلٰی افسران اور سپاہیوں پر قاتلانہ حملے کرنے، سعودی عرب کو قتال کا میدان بنانے، دولت اسلامیہ کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف ہر سطح پر قتال کرنے اور نوجوانوں کو دہشت گرد گروپوں میں شمولیت کی دعوت پر مبنی فتاویٰ شامل تھے۔ محمد طرھونی کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب اس نے القاعدہ کے ترجمان جریدوں ’’صوت الجہاد‘‘ اور ’’معسکر البتار‘‘ میں شام میں قتل کے حق میں مضامین اور فتاویٰ دینا شروع کئے اور ساتھ ہی فنڈ ریزنگ مہم شروع کی تھی۔ اسے 1427ھ کو حراست میں لیا گیا اور 1434ء کو الشھری کے جیل بھیجے جانے سے کچھ عرصہ پہلے رہا کر دیا گیا تھا۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر دہشت گردوں کے صفحات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد طرھونی نے اپنے صفحے پر داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی کے ساتھ اپنی شمولیت کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے نوجوانوں کو بھی دہشت گرد گروپوں میں شامل ہونے کی ترغیبات پر مبنی فوٹیجز پوسٹ کر رکھی تھیں۔
خبر کا کوڈ : 518727
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش