0
Wednesday 10 Feb 2016 00:31

شام میں جاری نصر 2 آپریشن کی کامیابیاں

شام میں جاری نصر 2 آپریشن کی کامیابیاں
تحریر: سعداللہ زارعی

شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف نصر 2 آپریشن جاری ہے۔ یہ آپریشن گذشتہ بدھ دو شہروں "نبل" اور "الزھرا" کی آزادی کے بعد اپنے عروج تک جا پہنچا ہے۔ اس آپریشن نے شام کی سیاسی اور ملٹری صورتحال پر انتہائی گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ آپریشن نصر 2 نے بہت حد تک شام میں جاری جنگ کے نتیجے کو واضح کر دیا ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

1)۔ نصر 2 آپریشن ایک انتہائی وسیع علاقے میں شروع کیا گیا ہے اور اس میں شام کے چار صوبے حلب، ادلب، لاذقیہ اور حماہ شامل ہیں۔ جس علاقے میں یہ آپریشن جاری ہے وہ کئی نکات پر ترکی کی سرحد سے متصل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس آپریشن کو انتہائی "اسٹریٹجک" قرار دیا جا رہا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آپریشن نصر 2 مذکورہ بالا صوبوں اور ترکی سے ملحقہ شام کے سرحدی علاقوں میں سیکورٹی صورتحال کو بہتر بنانے میں اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ لہذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کی سربراہی میں شام مخالف اتحاد کی جانب سے اس آپریشن پر پریشانی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

2)۔ آپریشن نصر 2 کا آپریشنل ایریا النصرہ فرنٹ اور اس سے مربوطہ دہشت گرد گروہوں کے ہیڈکوارٹر اور لاجسٹک سپورٹ کے مرکز پر مشتمل تھا۔ اس ہیڈکوارٹر نے جنوبی ترکی میں واقع "ہاتا" کمانڈ سنٹر کے ساتھ مضبوط رابطہ برقرار کر رکھا تھا اور درحقیقت اس کے تحت سرگرم عمل تھا۔ ہاتا کمانڈ سنٹر 2012ء کے آخر میں امریکی، برطانوی، سعودی اور ترک فوجی افسروں پر مشتمل ایک ٹیم کے ذریعے تشکیل پایا۔ اس کمانڈ سنٹر میں اسرائیلی فوجی افسر بھی امریکی افسروں کے بھیس میں موجود تھے۔ ان کا بنیادی مقصد شام میں جاری جنگ پر نظر رکھنا اور شام میں سرگرم دہشت گردوں کی منیجمنٹ کے علاوہ انہیں اسلحہ اور مالی مدد فراہم کرنا تھا۔ اس مدت میں النصرہ فرنٹ کا ہیڈکوارٹر ہاتا کمانڈ سنٹر سے موصولہ ہدایات کی روشنی میں سرگرم عمل رہا۔ امریکی حکام کی ترجیحات کے پیش نظر یہ رابطہ النصرہ فرنٹ کی دو اہم ذیلی شاخوں "جیش الاسلام" اور "احرار الشام" کے ذریعے انجام پاتا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکہ نے النصرہ فرنٹ کو دہشت گرد گروہوں کی بلیک لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔ آپریشن نصر 2 اس اعتبار سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے کہ اس نے ایک طرف النصرہ فرنٹ کے ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بنایا اور دوسری طرف شام میں سرگرم دہشت گروہوں کا ترکی میں واقع ہاتا کمانڈ سنٹر سے رابطہ منقطع کر دیا ہے۔

3)۔ نصر 2 آپریشن میں شام آرمی اور رضاکار فورسز کی فتوحات نے بہت حد تک شام جنگ کی آئندہ صورتحال کو واضح کر دیا ہے۔ مغربی طاقتیں اور خطے میں ان کے اتحادی ممالک شام پر سیاسی اثرورسوخ قائم کرنے کیلئے النصرہ فرنٹ اور اس کے دو ذیلی گروہ یعنی احرار الشام اور جیش الاسلام سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر چکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان گروہوں میں شامل دہشت گرد عناصر مخصوص انتخاب شدہ اور تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ہیں۔ چند ہفتے قبل اسرائیل کی مسلح افواج کے ایک کمانڈر نے کہا: "ان گروہوں میں شامل ہر فرد دس اسرائیلی سپاہیوں کا مقابلہ کر سکتا ہے"۔ النصرہ فرنٹ نے ادلب کے جنوبی حصے، حلب اور دو صوبوں قنیطرہ اور درعا میں کچھ کامیاب فوجی آپریشنز انجام دیے جن کے باعث مغربی ممالک، ترکی، عربستان وغیرہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ شام کا مستقبل النصرہ فرنٹ کے ہاتھ میں ہو گا لہذا مغربی ممالک نے ویانا مذاکرات میں بنیادی کردار النصرہ فرنٹ کو دیا اور اسے مرکزی حیثیت دینے پر زور دیا۔ مثال کے طور پر جب ویانا مذاکرات کے دوسرے دور میں احرار الشام کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنے کی بات کی گئی تو امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر ظریف کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا: "ایسی صورت میں حزب اللہ لبنان کو بھی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنا چاہئے"۔

مغربی ممالک ویانا 2 اور ویانا 3 مذاکرات کی درمیانی مدت میں اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ صدر بشار اسد کی حکومت کا خاتمہ نزدیک ہے۔ دوسری طرف حلب، ادلب، درعا، قنیطرہ، سویدا اور لاذقیہ، حما اور حمص کے بعض حصوں پر النصرہ فرنٹ کا قبضہ اس دہشت گرد گروہ کو خاص اہمیت کا حامل گروہ بنا چکا تھا۔ لیکن حال ہی میں شام کے شمال اور جنوب میں اس گروہ کی پے در پے شکست نے اس کی حیثیت کا خاتمہ کر دیا اور اس سے وابستہ تمام امیدیں مایوسی میں تبدیل ہو گئیں۔ نصر 2 آپریشنل ایریا میں النصرہ فرنٹ کی شدید شکست کے نتیجے میں اس علاقے کے مرکز پر شام آرمی کا قبضہ ہو گیا جس کے باعث اس دہشت گرد گروہ کی کمر ٹوٹ گئی۔ شام کے تین صوبوں حلب، حما اور درعا کو ملانے والے مرکزی علاقے پر شام آرمی کے قبضے کے باعث شمالی، جنوبی اور مغربی حصوں میں سرگرم دہشت گرد عناصر مکمل طور پر محاصرے میں آ چکے ہیں۔ لہذا ان دہشت گردوں کی بڑی تعداد یا تو ہتھیار پھینک کر خود کو شام آرمی کے حوالے کر چکی ہے اور یا پھر میدان جنگ سے فرار اختیار کر چکی ہے۔ گذشتہ چند روز کے دوران ترکی کی سرحد پر واقع شام کے شمالی حصے، جس کا رقبہ تقریبا 30 کلومیٹر مربع ہے، سے 10 ہزار دہشت گرد میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں۔ دوسری طرف آزاد ہونے والے علاقوں کے مکین تیزی سے واپس لوٹ رہے ہیں اور انہیں چند دنوں میں تقریبا 20 ہزار شہری اپنے گھروں میں واپس آ چکے ہیں۔ یہ زمینی حقائق مغربی ممالک، اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور ان سے وابستہ ممالک کو نئی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کر دیں گے۔

4)۔ نصر 2 آپریشن نے شام میں مغرب کے اکثر منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے روک دیا۔ اس سے قبل بعض اوقات شام کے شمالی حصے میں "نو فلائی زون" کے قیام کی باتیں سننے میں آتی تھیں جبکہ بعض اوقات امریکہ اور ترکی کی جانب سے شام میں فوجی آپریشن کا عندیہ دیا جاتا تھا۔ اگرچہ نصر 2 آپریشن سے قبل بھی امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے شام میں "براہ راست مداخلت" کی راہ میں کئی رکاوٹیں پائی جاتی تھیں لیکن اس آپریشن نے ایسے منصوبوں کے امکان کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا۔ نو فلائی زون حلب اور حسکہ کے علاقوں پر قائم کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ نصر 2 آپریشن کے نتیجے میں حلب میں شام آرمی کی طاقت کا پلڑا بھاری ہو چکا ہے۔ اگر ماضی میں اس علاقے میں شام حکومت کی پوزیشن کمزور تھی تو آج اس اسٹریٹجک خطے کا 80 فیصد حصہ شام حکومت کے قبضے میں آ چکا ہے۔ صوبہ حسکہ جو پہلے انتہائی خطرناک علاقے میں تبدیل ہو چکا تھا نصر آپریشن کے نتیجے میں وہاں شام حکومت کی رٹ قائم ہو چکی ہے۔ نصر 2 آپریشن کے نتیجے میں کردوں کی پوزیشن بھی مضبوط ہوئی ہے لہذا انہوں نے اس آپریشن کے دوران شام آرمی اور رضاکار فورسز سے بہت تعاون کیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں امریکہ اور ترکی کی جانب سے شام میں براہ راست مداخلت کا امکان بھی ختم ہو چکا ہے کیونکہ ادلب کے علاوہ شام کے دیگر سرحدی علاقے بند ہو چکے ہیں جبکہ ادلب کا علاقہ کوہستانی اور جنگلی ہونے کے ناطے وہاں سے زمینی حملہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ لہذا نصر 2 آپریشن کے بعد امریکہ اور ترکی کی جانب سے شام میں فوجی مداخلت ممکن نہیں رہی۔

5)۔ النصرہ فرنٹ اور اس کے حامی گروہوں نے خطے پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور گذشتہ دو ماہ کے دوران جب سے نصر آپریشن شروع ہوا ہے، خطے میں 4 ہزار دہشت گرد بھیجے جا چکے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب اور امریکہ نے بھی دہشت گردوں کی مدد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور انہیں ٹاو میزائل سمیت جدیدترین اسلحہ سے لیس کیا۔ اس سے قبل امریکہ النصرہ فرنٹ اور اس کے حامی دہشت گرد گروہوں کو بہت محدود حد تک اور مخصوص حالات میں ٹاو میزائل فراہم کرتا تھا لیکن گذشتہ ایک ماہ کے دوران امریکہ نے اس دہشت گرد گروہ کو 600 ٹاو ٹو میزائل فراہم کئے ہیں۔ النصرہ فرنٹ نے شام کے دیگر علاقوں سے اپنے دہشت گردوں کو بلا کر نصر آپریشن والے علاقے میں جمع کیا جس سے ان کیلئے اس علاقے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود گذشتہ دو ماہ کے دوران 3 ہزار دہشت گرد مارے جا چکے ہیں اور علاقے کا بڑا حصہ بھی ان کے قبضے سے چھڑوا لیا گیا ہے۔ لہذا شام آرمی اور رضاکار فورسز کو دو اہم کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں۔ دہشت گرد عناصر کے افراد کے خلاف کامیابی اور ان کی فوجی طاقت کے خلاف کامیابی۔

6)۔ اس کامیاب آپریشن میں شریک فورسز کے بارے میں بہت کچھ کہا اور سنا جا رہا ہے اور ہر کوئی اپنے گمان کے مطابق اظہار خیال کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نصر 2 آپریشن میں شام آرمی اور شام کی عوامی رضاکار فورس نے انتہائی بنیادی کردار ادا کیا ہے جبکہ ان کے ساتھ ساتھ نبل اور الزھراء کے شجاع اور مظلوم مجاہدین نے بھی بھرپور شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر نبل اور الزھراء کے مجاہد مغربی جانب سے پیش قدمی نہ کرتے تو حلب شہر کے شمالی حصے کو اس علاقے سے ملحق کرنا ممکن نہ تھا۔ نبل اور الزھراء کی آبادی تقریبا 70 ہزار کے قریب تھی جو جنگ کے دوران کم ہو کر 30 ہزار رہ گئی تھی۔ یہ شہر گذشتہ 44 ماہ سے دہشت گرد گروہوں کے نرغے میں تھے اور انہیں اوسطا ہر دو ماہ میں ایک بار دہشت گردوں کی جانب سے بڑے حملے کا سامنا تھا۔ لیکن نبل اور الزھراء کے مجاہدوں نے دہشت گرد عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا۔ النصرہ فرنٹ کے دہشت گرد ان دونوں شہروں کو فتح کرنا چاہتے تھے۔ اسی طرح نصر 2 آپریشن میں حزب اللہ لبنان کے مجاہدوں نے بھی انتہائی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ روس نے ہوائی حملوں کے ذریعے شام آرمی کی مدد کی۔ مغربی ذرائع ابلاغ اس آپریشن کی کامیابی میں روس کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں جس کا مقصد اسلامی مزاحمتی قوتوں کی توانائیوں پر پردہ ڈالنا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شام میں حاصل ہونے والی کامیابیاں دہشت گرد عناصر کے خلاف برسرپیکار مجاہدین کی بہادری اور شجاعت کے بغیر ممکن نہ تھیں۔
خبر کا کوڈ : 519626
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش