0
Saturday 27 Feb 2016 11:43

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، مسئولین اور کارکنوں کیلئے زندہ نمونہ

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، مسئولین اور کارکنوں کیلئے زندہ نمونہ
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

اللہ تعالٰی نے ہر انسان کو ذمہ دار پیدا کیا ہے۔ یہ ذمہ داری کا احساس ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے ممتاز کرتا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی اور شہادت اس بات کی شاہد ہیں کہ آپ ایسے ہی انسانوں میں سے ہیں، جنہوں نے اپنی مسئولیت کو پورا کیا، ایک ذمہ دار ہونے کے ناطے دوسروں کو اجتماعی کردار ادا کرنے کے لئے منظم کیا اور رہبریت کی اطاعت میں مثالی کارکن ہونے کا مظاہرہ کیا۔
مسئولیت پذیری:
ڈاکٹر محمد علی نقوی اوائل عمر سے ہی اجتماعی اہداف و مقاصد کی حامل شخصیت تھے۔ نہ فقط ذاتی طور پر بلکہ قومی، تنظیمی لحاظ سے بھی آپ میں یہ احساس ہمیشہ جاگزیں رہا۔ زمانہ طالب علمی میں آئی ایس او کے قیام سے لیکر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ سمیت ملت پاکستان کی تعلیمی، فلاحی، سیاسی، معاشی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ سب سے اہم یہ کہ آپ نے ملت کی اجتماعی حیثیت اور تشخص کو بحال اور برقرار رکھنے کے لئے مسلسل اپنی ذمہ داری کو انجام دیا۔ آپ کی پوری زندگی اسکی مثال ہے۔ لیکن ہمیشہ نمود نمائش سے گریزاں رہے۔
1976-77 کے دورانیہ کے لئے جب مرکزی صدر کے امیدوار کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو مجلس عاملہ، مجلس مشاورت اور سینیئر برادران کی نظریں ڈاکٹر محمد علی نقوی پہ ہی مرکوز ہوگئیں۔ جب آپ سے برادران نے اظہار فرمایا کہ وہ اگلے سال کے لئے انہیں بطور امیدوار برائے مرکزی صدر لانا چاہتے ہیں، تو آپ نے معذرت کی اور فرمایا "مرکزی صدر بننا میرے مزاج کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی میں خود کو اتنی بڑی مسئولیت کے قابل سمجھتا ہوں۔" جب آپ نے تمام برادران کو واضح الفاظ میں انکار کیا، تو مجلس مشاورت کے معزز رکن سید امجد علی کاظمی ایڈووکیٹ نے آپ سے گلاب دیوی ہسپتال لاہور میں ملاقات کی۔ کاظمی صاحب کئی گھنٹوں تک آپ پر تنظیمی ضرورت اور حالات کے تقاضوں کو واضح کرتے رہے مگر آپ نہ مانے۔ جب تنظیمی احباب اور مجلس مشاورت کے اراکین کے تقاضے بڑھے تو آپ نے استخارہ کرنے کی استدعا کی۔ استخارہ حق میں آیا تو آپ بطور امیدوار رضا مند ہوگئے۔ یہ استخارہ ذمہ داری سے گریز کے لئے نہیں تھا بلکہ آپ کے مزاج میں یہ شامل تھا کہ ظاہری عہدوں سے پرہیز کرتے تھے۔ ذمہ داری کا احساس آپ سے زیادہ کسی میں نہیں تھا۔

اسی طرح جب بطور مرکزی صدر ڈاکٹر محمد علی نقوی کو سٹیج پر لایا گیا تو آپ اشکبار تھے۔ سید امجد علی کاظمی رکن مشاورت نے آپ سے حلف لیا۔ حلف کے دوران جب یہ جملے آئے کہ "میں خدا، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام زمانہ ؑ کے روبرو اقرار کرتا ہوں۔" تو آپ کی آواز گلے میں دب گئی اور آپ دیر تک سسکیاں لیتے رہے۔ آپ ایک دفعہ حلف لینے کے بعد تمام عمر اسی حلف پر قائم رہے۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے۔ "دوستو! بھائیو! حلف، عہدہ کے ایک سال کے لئے نہیں ہوتا بلکہ حلف کا تعلق زندگی سے ہوتا ہے۔ آئی ایس او کی مرکزی کابینہ میں مرکزی جنرل سیکرٹری، نشر و اشاعت سیکرٹری، آفس سیکرٹری اور جوائنٹ سیکرٹری کے عہدوں پر کام کرتے رہے۔ ڈاکٹر شہید کو آفس سیکرٹری کی ذمہ داری ہمیشہ پسند رہی، مرکزی دفتر میں مسلسل کام اور روابط چلتے رہتے ہیں۔ آپ نے ہمیشہ فرمایا کہ جس تنظیم کا مرکزی آفس جس قدر مستحکم اور یونٹس سے مربوط ہوگا، وہ تنظیم اسی قدر ترقی کرے گی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے دو سال میں تنظیمی ڈھانچے اور امور کو اس خوش اسلوبی سے انجام تک پہنچایا کہ تنطیم کی جڑیں مضبوطی پکڑ گئیں۔ یہ احساس ذمہ داری اور تنظیمی فرائض کی بجاآوری کی ایک بہترین مثال ہے۔

ایک مرتبہ آئی ایس او کی مجلس عاملہ کے پروگرام ’’مرکزی صدور طلباء کے حضور‘‘ میں آپ نے احباب پر واضح کیا کہ آج آپ کے سامنے آدھے سے زائد سابق صدور غیر حاضر ہیں، جس کا مجھے افسوس ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کم از کم سال میں ایک مرتبہ تو یہ برادران اکٹھے مل بیٹھتے۔ یہاں آپؒ نے حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’بعض برادران اپنے عہدہ کا حلف لیتے وقت اس بات پر قطعاً غور نہیں کرتے کہ وہ کن کن ہستیوں کو حاضر و ناظر جان کر اقرار کر رہے ہیں۔ جب ایک سال گزر جاتا ہے تو یہ برادران اپنے اقرار سے روگردانی شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا نظریہ ہوتا ہے کہ خدا و معصومینؑ کے روبرو اٹھایا جانے والا حلف، عہدہ تک ہی قائم رہتا ہے۔ جبکہ ان کی یہ سوچ غلط ہے، حلف کا تعلق زندگی سے ہوتا ہے، عہدہ کی مدت سے نہیں۔ پس وہ برادران جو شعوری طور پر حلف اٹھاتے ہیں، وہ آخری دم تک اس پر قائم رہنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ کسی ساتھی کو عہدیدار بنانے سے قبل اس کا شعور بیدار کیا جائے، تاکہ وہ زندگی کو عمل کی لطافتیں بخش سکے اور وہ تنظیم کے نصب العین کے مطابق مومن بن کر عہد حاضر کی تاریکیوں، فتنہ پردازیوں اور چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو۔‘‘

اجتماعی ذمہ داری، سب سے پہلی ترجیح:
ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کی شادی ہوئی تو خاصے خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ "اب تو ہماری ایک رکعت کنوارے نمازیوں کی ستر رکعتوں سے افضل ہوگئی۔" جب بارات آپ کی رہائش گاہ پہنچی تو آپ نے اسی دوران اپنے ایک تنظیمی دوست سے زیر طبع پوسٹر کے رنگ اور پرنٹنگ کے بارے میں پوچھا، بالفاظ دیگر شادی کی رسومات کے دوران میں آپ ؒکے ذہن میں تنظیم کا پوسٹر گھومتا رہا۔ اہلیہ سے پہلی ملاقات ہوئی تو آپ ؒنے ان پر واضح کیا کہ "یہ میری دوسری شادی ہے" بیگم خاصی پریشان ہوئیں تو آپ ؒنے وضاحت کی کہ "پہلی شادی تنظیم سے ہوچکی ہے، لہٰذا گھر کو زیادہ وقت نہ دینے کا شکوہ نہ کرنا" 9 نومبر کو اپنے ولیمہ سے پہلے آپؒ نے پریس کا چکر لگایا اور پوسٹرز اٹھا لائے۔
سمعا و طاعۃ:

شہید امام خمینی کو نائب امام زمانہ علیہ السلام اور اپنا رہبر مانتے تھے، ایک پیروکار ہونے کے ناطے انہوں نے پوری زندگی لیڈرشپ کی اطاعت کا حق ادا کیا۔ جن ایام میں ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی ؒسرکاری ملازمت سے فارغ ہوئے ان دنوں عراق ایران جنگ عروج پر تھی۔ ایران، عراق پر آخری ضرب لگانے کے لئے اپنے تمام وسائل استعمال کر رہا تھا۔ آخر ایک وقت ایسا آیا کہ امام خمینی رصوان اللہ علیہ نے امام زمانہ ؑ کی سرزمین سے "صدائے ہل من ناصر" ان الفاظ میں بلند کی "ہر کس می تواند باید جھبہ برود" جو شخص جنگ کی طاقت رکھتا ہے وہ محاذ پر جائے۔ نائب امام اور ولی فقیہ کی یہ صدا دنیا بھر میں گونجی تو پاکستان میں ڈاکٹر محمد علی نقوی ؒنے اسے کربلا کی سدائے استغاثہ سمجھا اور محاذ پر پہنچ گئے۔ آپ ؒ نے زخمی مجاہدین کی خدمت اس انداز میں کی کہ آپ "ڈاکٹر پریشان" کے نام سے مشہور ہوگئے۔ ایرانی ڈاکٹر آٹھ گھنٹے جبکہ ڈاکٹر شہید محمد علی نقویؒ سولہ گھنٹے زخمیوں کے زخموں اور تکالیف کا علاج کرتے۔ چشم دید گواہان کے بقول ڈاکٹر صاحب اپنی ڈیوٹی کے دوران انتہائی کم سوتے اور کم کھاتے، جب آپ سے آرام کر نے کو کہا جاتا تو آپ جواباً کہتے "میں خدمت کرنے آیا ہوں آرام کرنے نہیں۔

1986ء میں جب امام خمینیؒ نے فرمایا "ہر وہ شخص جو طاقت رکھتا ہے محاذ پر پہنچے" تو یہ صدا ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کے کانوں تک بھی پہنچی اور آپ بغیر حیل و حجت محاذ پر جانے کیلئے تیار ہوگئے۔ یہاں تک کہ آپ نے گھر والوں کو بھی اپنے پروگرام سے آگاہ نہ کیا بلکہ محاذ پر پہنچنے کے تیسرے روز فون کے ذریعہ اہل خانہ کو اطلاع دی کہ "میں اس وقت محاذ پر ہوں" یہاں سے آپ نے اپنے والد صاحب کو لندن خط تحریر فرمایا، جس کا مفہوم کچھ یوں تھا "اے والد بزرگوار ! میں اس وقت ایران کے محاذ جنگ پر مجاہدین اسلام کی خدمت میں مصروف ہوں۔ میں آپ سے خط کے ذریعہ معذرت چاہتا ہوں کہ یہاں آتے وقت آپ سے اجازت نہیں لے سکا، چونکہ امام ؒ کی صدائے استغاثہ میرے کانوں تک پہنچ چکی تھی اور مجھے اپنی زندگی کی وفا کے بارے میں یقین بھی نہ تھا۔ اس لئے میں کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر یہاں پہنچ گیا ہوں، مجھے اُمید ہے کہ آپ مجھے معاف فرمائیں گے۔ میں آپ سے شہادت کی دعا کا ملتمس ہوں، خدا کرے کہ مجھے ان پاکباز نوجوانوں کے ساتھ شہادتوں کے پُر سرور ماحول میں شہادت نصیب ہو۔"

کارکنوں اور ملازمین سے حسن سلوک:
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی جس طرح اپنے رہبر کی شان کے مطابق انکے مطیع تھے، اسی طرح بطور مسئول اپنے کارکنوں اور ملازمین کیساتھ آپکا سلوک مثالی تھا۔ احباب میں سے ایک شخصیت کا کہنا ہے کہ شیخ زاہد ہسپتال میں ڈاکٹر شہید سے ملنے گئے تو دیکھا کہ ان کے آفس کے سامنے والے سبزہ زار میں ایک مالی اور دوسرا ڈاکٹر صاحب کا چپڑاسی حقہ پی رہے تھے۔ مالی چپڑاسی کو کوس رہا تھا کہ تم کام نہیں کرتے، حقہ پینے آجاتے ہو، کیا تمہارا افسر یہاں نہیں ہوتا؟ میرا افسر تو یہاں ہوتا ہے مگر وہ دوسرے افسروں جیسا نہیں، چپڑاسی نے جواب دیا، کیا مطلب؟ مالی نے پھر استفسار کیا۔ میرا افسر شاہ جی ہے، وہ ہمیں تنگ نہیں کرتا۔ زیادہ تر کام اپنے ہاتھوں سے کرتا ہے، کبھی غصہ میں آ بھی جائے تو گالی نہیں دیتا، صرف "بندہ خدا" کہہ کر خاموش ہوجاتا ہے، جب خوش ہوتا ہے تو اپنی الماری سے بسکٹ نکال کر کھلاتا ہے، ہمیں ضرورت پڑتی ہے تو اپنی تنخواہ سے ہماری مدد کرتا ہے، قرآن مجید پڑھنے کی زیادہ تاکید کرتا ہے، شیعہ ہے مگر تبلیغی اجتماع میں رائیونڈ بھی جاتا ہے، چپڑاسی نے دل کی گہرائیوں سے تعریف کرتے ہوئے یہ جملے کہے۔ مالی یہ باتیں سن کر حیران ہوا اور کہنے لگا "اس کا مطلب ہے کہ تمہارا افسر کربلا والے سیدوں میں سے لگتا ہے، کسی دن مجھے بھی ایسے شخص کی زیارت کروا دینا۔" اسی طرح جب بڑے بڑے تنظیمی اور قومی پروگرام ختم ہوتے تو چاک و چوبند اور کانوں میں لہجے کی مٹھاس کا رس گھولنے والا سفیر انقلاب ڈاکٹر محمد علی نقوی برادران کے حلقوں میں آتا۔ ہر ایک کو گلے لگاتا، ان کی تکالیف دریافت کرتا، ان کے تاثرات لکھتا، مشکلات پر ان سے معذرت چاہتا اور ان کی خدمت کے لئے رواں ہو جاتا۔ دن بھر وہ تنظیمی امور بجا لاتا، رات کو خورد و نوش کے اہتمام کرتا اور اگر اسے وقت مل جاتا تو وہ برتن تک صاف کرتا۔

حمایت حق، مظلومین کی نصرت اور ظالموں سے نفرت کا اظہار:
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی فطری طور پر حق پرست اور انسانی قدروں کے امین تھے۔ آپ نے ہمیشہ ظلم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت کا درس کیا۔
1976ء میں جب عراقی علماء پر امام خمینیؒ کی حمایت کے جرم میں تشدد اور قتل عام ہوا تو ان پر ظلم اور ان کی شہادتوں پر احتجاج کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد علی نقویؒ اور برادر ثاقب نقوی نے ایک پوسٹر شائع کروایا، جس پر درج تھا "ہم قاتل شاہ کا استقبال نہیں کرتے۔" یہ پوسٹر اسلامیان پاکستان کے نام سے چھپوایا گیا۔ جب یہ پوسٹر لاہور کے در و دیوار پر چسپاں ہوا تو حکومتی ایوانوں اور ایران کے قونصل خانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اسی طرح انقلاب کی آمد سے چند ماہ قبل ایرانی طلباء نے لاہور کے مال روڈ پر شاہ ایران کے ظلم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تو ڈاکٹر محمد علی نقویؒ نے اس مظاہرہ کی قیادت کی اور تکبیر کا پہلا نعرہ بھی آپ نے بلند کیا۔ انہیں ایام میں شاہ کی حکومت فدایان خمینی پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی تھی۔ ایک وقت میں سینکڑوں نوجوان شہید کئے جا رہے تھے تو آئی ایس او پاکستان نے امام ؒ کی حمایت اور شاہ کے خلاف پہلی بار مال روڈ لاہور پر مظاہرہ کیا، جس کی قیادت سفیر انقلاب ڈاکٹر محمد علی نقویؒ نے کی، اس موقع پر لاہور کے ڈپٹی کمشنر سعید مہدی نے ڈاکٹر صاحب کو بلا کر کہا "آپ واپس چلے جائیں، وگرنہ ہم ماریں گے" ڈاکٹر صاحب نے جواباً کہا "ہم میدان میں واپس جانے کیلئے نہیں اترے، ہم اپنا مشن پورا کریں گے اور آپ اپنا مشن پورا کریں۔"

جب 1981ء میں ایران میں آیت اللہ بہشتی اپنے 72 ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہوئے تو سب نوجوانوں کے دل شدید غمگین تھے، لیکن اس واقعہ کے ٹھیک ایک ماہ بعد جب اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر محمد علی رجائی اور وزیراعظم آقائی باہنر کے اکٹھے شہید ہونے کی اطلاع پاکستان پہنچی تو پاکستان میں ایک عجب اضطراب کا عالم تھا، لہٰذا آئی ایس او مرکز کی طرف سے اگلے روز مال روڈ لاہور پر مسجد شہداء کے سامنے تعزیتی جلوس نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔ ساری رات تیاری ہوتی رہی، تقریباً 12 بجے ایک خاص طریقے سے بینرز اور پلے کارڈ وغیرہ وہاں پہنچائے گئے، سینکڑوں لوگ موقع پر پہنچ گئے، جونہی جلوس نکلا تو پولیس نے نہ فقط آگے بڑھنے سے روکا بلکہ شرکاء پر تشدد بھی شروع کر دیا اور کئی ساتھی بھی حراست میں لے لئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ صرف چند ایک افراد کے علاوہ نوجوانوں، ڈاکٹر محمد علی نقوی سمیت آئی ایس او مرکز اور لاہور ڈویژن کے عہدیدار اور سابقہ مرکزی صدور کی ایک بڑی تعداد کو زندان میں ڈال دیا گیا تھا، لیکن یہ نوجوان اس قدر جذبات سے لبریز تھے کہ انہوں نے رات بھر تھانہ سول لائنز کو نعروں کی گونج سے لرزائے رکھا، پولیس کے سوالوں کے جواب میں مخصوص جواب تیار کئے گئے تھے اور جب بھی کوئی پولیس والا کسی سے سوال پوچھتا تو وہی مخصوص جواب دیا جاتا۔ تقریباً 24 گھنٹے حوالات میں رہنے کے بعد انتظامیہ نے مذاکرات کے نتیجے میں تمام ساتھیوں کو رہا کر دیا۔ اسی طرح جب 20 ستمبر 1980ء کی رات امریکہ کے اشارہ پر عراق نے ایران پر جارحیت کی تو صبح کی نشریات میں بی بی سی نے حملہ کی خبر نشر کر دی۔ ڈاکٹر محمد علی نقویؒ اس وقت اپنے گھر میں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ جونہی آپ نے عراقی جارحیت کی خبر سنی، ایک دم تڑپے اور ناشتہ چھوڑ دیا۔ پریشانی کے انہی لمحات میں آپ نے فوراً روزنامہ نوائے وقت لاہور کے چیف ایڈیٹر حمید نظامی کو فون کیا اور ان پر گفتگو کے دوران واضح کیا کہ "یہ جنگ سامراج کے اشارہ پر مسلط کی جا رہی ہے اور امریکہ ایران سے نہیں بلکہ اسلام سے شکست کا بدلہ لینا چاہتا ہے، لہٰذا ایسے میں بحیثیت ایک مسلم میں آپ سے اپیل کرتا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ آپ اسلامی انقلاب کا بھرپور دفاع کریں اور مغربی ذرائع ابلاغ کا منہ توڑ جواب دیں۔

امریکہ کے سابق صدر جارج بش کا پاکستان میں سرکاری دورے کا اعلان ہوا تو سفیر انقلاب ڈاکٹر محمد علی نقویؒ نے اپنے احباب کو اکٹھا کیا اور یہ بات ان کے گوش گزار کی کہ "اسلام کا دشمن ہمارے ملک میں قدم رکھنے کا خواہشمند ہے، لہٰذا ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے کانوں تک" Down with U.S.A " (مردہ باد امریکہ) کی صدا پہنچا دیں۔ احباب ذہنی طور پر تیار ہوئے تو آپ انہیں لاہور ائیر پورٹ پر لے گئے۔ آپ کے ساتھیوں نے " Down with U.S.A" کا بڑا بینر بغل میں دبایا ہوا تھا جبکہ آپ کے ہاتھ میں امریکی پرچم تھا۔ طے یہ پایا تھا کہ جونہی جارج بش اور ضیاءالحق کی گاڑی عوام تک پہنچے اس کے سامنے بینر کھولنا اور امریکی پرچم نذر آتش کرنا ہوگا۔ پس جونہی مہمان اور میزبان کی گاڑی ائیر پورٹ سے عوام تک پہنچی، امام خمینیؒ کے عاشقان نے جارج بش کے سامنے "مردہ باد امریکہ" کا بینر کھولا اور بلند آواز میں "Down with U.S.A" کے نعرے لگانا شروع کر دیئے، جس کے باعث جارج بش کے چہرے پر زردی اور ضیاءالحق کے چہرے پر موت کی کیفیت طاری ہوگئی۔ ابتدائی چند لمحوں میں نعروں کا شور سن کر پولیس اہلکاروں اور کمانڈوز کو بھی کچھ سمجھ نہ آیا کیونکہ انہیں اس قسم کی توقع تک نہ تھی، تاہم جلدی سے انہوں نے ایکشن لیا۔ تمام نعرے لگانے والوں کو خاصی مار پڑی۔ سفیر انقلاب کے احباب مشخص ہونے کے باعث گرفتار کر لئے گئے جبکہ سفیر انقلاب پولیس کو چکمہ دے گئے۔ شاید آپ کی داڑھی اور بال بڑھے ہوئے تھے، اس لئے وہاں پر موجود ایس پی آپ کے احباب کے بار بار استفسار کرتا رہا کہ وہ "بے حجامتا" کہاں گیا ہے؟ اس واقعہ کو بعض اپنے افراد نے تنقید کا نشانہ بنایا، جس پر گرفتار ہونے والے ایک ساتھی نے علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کی خدمت میں ایک خط ارسال کیا اور اپنے خط میں اس فعل پر آپ کی رائے چاہی، اس خط کا جواب "سفیر نور" نے اپنے مقدس ہاتھوں سے لکھا، جس پر درج تھا کہ "امریکہ مردہ باد کا نعرہ بلند کرنا آپ کی اور ہماری ذمہ داری ہی نہیں بلکہ یہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔"

جذبہ جہاد و شہادت:
آپ کی پوری زندگی حق کے دفاع میں گذری، شہادت کی آپ کی خواہش تھی، ہمیشہ اس کا درس دیتے۔ جیسا کہ کشمیر و فلسطین کانفرنس میں خطاب کے دوران فرمایا کہ برادران عزیز یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ اسلام کا یہ پیغام ہم تک ان کانفرنسوں، سیمیناروں اور اشتہاروں کے ذریعے نہیں پہنچا، بلکہ ہم تک یہ پیغام خون کے ذریعے پہنچا ہے۔ اس دوران آپ نے ایک شہید کا واقعہ یا تمثیل بیان کرتے ہوئے وضاحت کی، اسکا مفہوم یہ تھا کہ ایک شہید دشمن سے کہتا ہے کہ اگر تم میری زبان کاٹ دو گے تو میں اپنی آنکھوں کے اشاروں سے اپنا پیغام اگلی نسل تک پہنچاوں گا، اگر تم میری آنکھیں نکال دو گے تو اپنے ہاتھوں سے، بعد میں اپنے پیروں سے چل کر یہ پیغام آگے منتقل کروں گا، اگر تم میری گردن کاٹ دو گے تو میری گردن سے بہنے والا خون، جس زمین پہ گرے گا اور اس زمین میں جو فصل اگے گی، وہ فصل جو لوگ کھائیں گے، ان تک یہ پیغام پہنچے گا، لہذا ہمیشہ یاد رکھیں کہ سب سے افضل جہاد صف اول کا جہاد ہے۔ اسی طرح آپ کی وصیت میں موجود ہے کہ کاش میں لشکر خمینی میں شامل ہو کر امام خمینی کے جانثاروں کی صف میں شامل ہو جاتا۔ آپ کی آرزو تھی، جسکا آپ نے اظہار کیا کہ اے خدا میری شہادت کو میری متحرک زندگی سے متصل کر دے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے سچے عاشق کی آرزو پوری کی اور آپ درجہ شہادت پر فائز ہوگئے، آپکا مقدس لہو آنے والی نسلوں کو باطل کے سامنے دٹ جانے کی طاقت دیتا رہے گا اور دشمنوں کے حوصلے پست کرتا رہے گا۔ بے شک ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی زندگی ملت پاکستان، کارکنوں اور مسئولین کے لئے مشعل راہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 522856
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش