1
0
Wednesday 24 Feb 2016 00:45

ہم دیکھتے رہ گئے اور وہ عہد نبھا گئے

ہم دیکھتے رہ گئے اور وہ عہد نبھا گئے
تحریر: ارشادحسین ناصر

زندگی خوبصورت ہے مگر شہادت خوبصورت ترین ہے، یہ ایک جملہ ہے مگر جس کی سمجھ میں آجائے، اس کیلئے ایسا رہنما ہے، جس کی ہر ایک کو تلاش ہوتی ہے، یہ دل پر دستک کی ماند ہے، اگر کوئی محسوس کرسکے تو بہت ہی زور دار دستک سنائی دے سکتی ہے، یہ ایسی دستک ہے جس کی ہر ایک کو تڑپ اور پیاس ہوتی ہے، شہادت، شہید اور اس کے بلند درجات کے بارے آیات قرآنی، احادیث نبوی، فرامین معصومین اور اقوال و اشعار کی لمبی فہرست ہے، جو ہمیں مختلف مجالس، دروس، محافل، کانفرنسز، سیمینارز، علماء کی صحبت و قربت میں سننے کا موقعہ ملا، مگر جو اثر اس ایک جملہ یا مصرعہ جو دراصل فارسی زبان میں ہے، (زندگی زیبا است ولے شہادت زیبا ترین است) ہے، کو پڑھ کے ہوا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس ایک جملہ نے اس کے اندر ایسا تحرک اور جذبہ پیدا کر دیا کہ پھر وہ کبھی چین سے نہیں بیٹھا، اس نے اپنی زندگی جو خوبصورت تھی، اسے خوبصورت ترین بنانے کی ٹھان لی اور ا سے اپنا ہدف قرار دے دیا۔ اپنے ہدف کے حصول کیلئے اس کی پرخلوص کوشش اور جدوجہد بھی مثالی کہی جا سکتی ہے۔

میں تاریخ کے نہاں خانے سے جھانکنے لگا تو مجھے وہ وقت یاد آگیا، جب پاکستان کے ہمسائے ملک ایران، جہاں اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہوا تھا تو پوری دنیا کی طاقتیں اسے نیست کرنے کیلئے سرتوڑ کوشش کر رہی تھیں اور انہی کا ایک پالتو صدام کی شکل میں سامنے آیا اور اپنے آقاؤں کے اشارے پر چڑھ دوڑا تھا۔ اتنے طویل عرصہ کے بعد اسلام حقیقی کے نفاذ اور نظام اسلامی کے طاقت میں آنے کے بعد اس کی حفاظت و نگہبانی بھی فرض کی حیثیت رکھتے تھے۔ امام خمینی کی عظیم رہبری میں آٹھ سال تک مسلط کردہ جنگ میں دفاع مقدس ہوتا رہا۔ اس زمانے میں پاکستان کے دونوں ہمسایوں افغانستان اور ایران میں جنگیں جاری تھیں، مگر ان میں ایک واضح فرق یہ تھا کہ افغانستان کی جنگ روس کے خلاف سی آئی اے کی سرپرستی میں دنیا بھر سے لائے گئے اسلامی مجاہدین کے ذریعے سے لڑی جا رہی تھی اور پاکستان سرکاری سطح پر یہ کام کر رہا تھا جبکہ ایران میں مسلط کردہ جنگ میں صرف اہل ایران ہی شریک تھے۔ ہاں ان کے خلاف اٹھاون ممالک صدام کو مدد فراہم کر رہے تھے، ان میں وہ ممالک بھی تھے، جو افغان جنگ کے سرخیل تھے۔ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی نے یہ حکم ضرور جاری فرمایا تھا کہ "ہر کس می توانند باید بہ جھبہ می رود" یعنی جو بھی طاقت رکھتا ہے، وہ محاذ پر جائے۔ شائد یہ اہل ایران کیلئے خصوصی حکم نہیں تھا مگر اس حکم کو ایسا ہی سمجھا گیا، اس لئے کہ کسی بھی ملک سے اس جہاد میں حصہ لینے کیلئے نوجوان شریک نہیں ہوئے بلکہ یہ جنگ اکیلے ایران نے اپنے جوانوں کے بل بوتے پہ لڑی اور لاکھوں جوانیاں لٹا کر اسلام ناب محمدی اور سرزمین اسلام کا دفاع کیا۔ یہ جنگ آج بھی جاری ہے اور ایران اسے بڑی خوبصورت حکمت عملی سے لڑ رہا ہے۔

میرے خیالوں کی دنیا میں یہ بھی ابھر رہا تھا کہ ایران عراق جنگ جو ایران پر مسلط کی گئی تھی اور آٹھ برس تک جاری رہی تھی، کے دوران پاکستانی شیعہ نوجوانوں کیلئے بالکل اسی طرح عظیم موقعہ تھا، جیسے دوسرے مکاتیب فکر بالخصوص دیوبندی و سلفی نوجوانوں کو روس افغان جنگ میں حصہ لینے سے جنگی تربیت اور گوریلا جنگ لڑنے کے تجربات نیز ہتھیاروں و اسلحہ و گولہ بارود تک رسائی کے مواقع میسر آئے تھے، مگر شیعہ قائدین اور علماء نے اس جانب دھیان ہی نہیں دیا، ان کی حکمت عملی کا محور پاکستان ہی تھا، اس کیوجہ ضیاءالحق کی جابر و ظالم حکومت بھی ہو سکتی ہے، جس نے اس دوران شیعوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ یہ ایک فرق اور عدم توازن تھا جو اس دوران پیدا کیا گیا، اس کے فوائد اپنی جگہ مگر نقصانات کا اندازہ لگانا بے حد مشکل ہے۔ آج بھی پاکستان پر جولوگ حملہ آور ہیں، ان میں وہی نوجوان ہیں جنہیں سی آئی اے کی سرپرستی میں سلفی و دیوبندی مدارس سے نکال کے بظاہر روس کیلئے تیار کیا تھا، مگر وہ ہمارے ہی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے پہ جت گئے۔

چار سال قبل جب مصر، تیونس اور یمن و لیبیا میں عرب سپرنگ کا غوغہ اٹھا تو استعمار نے اپنی چال چلی، اس کے سامنے ایران کی مثال تھی اور وہ کسی بھی طور اس بیداری اسلامی کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اسلئے اس نے ان تمام ممالک میں اپنے مہروں کو استعمال کیا، عرب سپرنگ کے نام پر اس نے فقط مزاحمت اسلامی کے بلاک کو ختم کرنے کی سازش کی اور بیداری کی لہر کو جعلی طریقہ سے شام لے آیا۔ دنیا بھر سے اسلامی شدت پسندوں کو جمع کر کے شام میں لایا گیا اور بشارالاسد کی مزاحمت دوست حکومت کے خلاف لا کھڑا کیا۔عجیب اور مضحکہ خیز بات یہ ہو گئی کہ سعودی عرب اور خطے کے عرب شاہی حکمران شام میں جمہوریت کے نفاذ کیلئے سر توڑ کوشش کرتے دکھائی دینے لگے، حالانکہ یہی حکمران مصر میں بیداری کے نتیجہ میں حسنی مبارک کی کرپٹ حکومت کے خاتمہ کے بعد وجود مین آنے والی اخوان کی جمہوری حکومت کے خاتمہ کیلئے بھی سرگرم تھے اور جنرل سیسی کو بھاری امداد دے رہے تھے۔

شام میں اسد حکومت کے خاتمہ کیلئے دنیا بھر سے آنے والے دہشت گردوں کی تکفیری فکر نے اپنا گند باہر نکالا اور ان کے اندر موجود تعصب نے رنگ دکھانا شروع کیا، پھر کیا تھا، مزارات مقدس انبیاء و اہلبیت و صحابہ کرام کی قبور کو اپنے زیر اثر علاقوں میں بارود کے ڈھیر لگا کر مٹی کے ڈھیر میں بدلے جانے لگے، انسانوں کو بھیر بکریوں اور غیر انسانی و غیر اسلامی انداز میں شہید کرنے کے مناظر نظر آنے لگے، سعودی عرب سے مفتیان فتوے جاری کرتے نظر آئے کہ مزارات مقدس کو زمیں بوس کر دیا جائے۔ اسلام کے نام پر اسلام کے محسنین کے ساتھ یہ سلوک کسی بھی طور برداشت نہیں کیا جاسکتا تھا، غیرت مند نوجوان جسے اہلبیت نبوت کیساتھ محبت تھی، وہ کیسے اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں کے سامنے نبی آخر کی دختر کی قبر کو بارود کے ڈھیر سے مٹی میں بدلتا دیکھ سکتا۔ تکفیری مفتیان کی دھمکیوں سے بھرپور فتاویٰ نے دوطرفہ کام کیا، ایک طرف تو تکفیریوں کو تقویت دی، دوسری طرف کئی ایک ممالک سے تعلق رکھنے والے عقیدت و جذبوں سے سرشار محبان اہلبیت کو بھی آمادہ کرنے اور حرمین مقدس کے دفاع کیلئے خود کو پیش کرنے کی راہ دکھائی اور وہ اس مادی دنیا کی خوبصورتی کو چھوڑ کر شہادت کی زیبا ترین دنیا کو حاصل کرنے کیلئے کسی نا کسی طرح مقامات مقدس تک پہنچ گئے۔

یہ خوشبخت نوجوان ہم سب کیلئے باعث فخر ہیں، جنہوں نے یہ راستہ اختیار کیا ہے۔ اگرچہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، مگر بحیثیت قوم ان کی موجودگی سے ہماری قوم کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہوگیا ہے، جنہوں نے دنیا کی آلائشوں پر دفاع مقامات مقدس کو ترجیح دی ہے اور اپنی جانوں کو اس راستے پر فدا کیا ہے۔ دنیا اسے جو مرضی نام دے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ان نوجوانوں نے مقامات مقدس کے دفاع کیلئے جان کی بازی لگائی ہے اور ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے ملک، وطن اور اس کے محافظین و اداروں کے خلاف صف آراء نہیں ہوا، نہ ماضی میں ایسا ہوا اور نہ ہی مستقبل میں اس کے چانسز ہیں۔ میرے سامنے ایسے ہی ایک شہید کا نورانی میت رکھا ہوا ہے، جس کے بوڑھے والدین پاکستان سے اپنے لخت جگر کو اس زندگی سے خوبصورت زندگی کے سفر پر روانہ کرنے آئے ہیں، میں یہ ساری باتیں جن کا تعلق ماضی قریب سے بھی ہے، اس جوان کی میت کے سامنے بیٹھا سوچ رہا ہوں، مجھے یہ لکھتے ہوئے کوئی خوف یا ڈر نہیں کہ یہ شہید اور اس راہ کے دیگر شہداء ہم سب پہ بازی لے گئے ہیں، ہم ہاتھ ملتے رہ گئے اور انہوں نے منزل کو چھو لیا۔ ہم سوچتے رہ گئے اور وہ ہدف کو پاگئے۔ ہم دیکھتے رہ گئے اور وہ عہد نبھا گئے، حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ جوان ہیں، جنہوں نے لشکر خمینی میں آج کے دور میں شمولیت اختیار کی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دور کی کربلا کو اپنے خون سے سجایا ہے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو بھی ان پاک طینت عاشقان کی صف میں شمار فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 523219
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
Iran, Islamic Republic of
سلام ارشاد بھائی کیا بات ہے، بہت جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا ہے آپ نے ۔۔ اللہ آپ کے قلم کو اور قوت دے۔ اور ان شہداء کی زندگیوں پر لکھنے کی توفیق دے۔ جو کہ اس ملت تشیع پاکستان کا اثاثہ ہیں۔ جنہوں نے ہماری عزت رکھی، اس جہاں میں بھی اور اگلے جہاں میں بھی رسول اللہ کے سامنے۔
ہماری پیشکش