0
Wednesday 24 Feb 2016 20:40

کیا سعودی عرب لبنان پر حملہ کریگا؟

کیا سعودی عرب لبنان پر حملہ کریگا؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر

انسانی زندگی خواہشات اور اندیشوں کے بیچ ہی بسر ہوتی ہے۔ خواہشیں لاتعداد ہوا کرتی ہیں اور اندیشے بھی بے شمار۔ طاقت کے حصول کی خواہش جس قدر قوی ہوگی، اندیشے بھی اسی قدر لاتعداد ہوں گے۔ یہ مگر فطری ہے۔ سوائے انبیا علیہ السلام اور آئمہ اہلبیت ؑ کے، کوئی ان خواہشات سے بچ نہ سکا۔ ہاں مگر اللہ کے وہ برگزیدہ بندے جنھوں نے اپنی زندگیوں کو انبیا علیہ السلام کے راستے پر ڈال دیا، یا اہلبیت ؑ کے نقشِ قدم پر چل پڑے۔ عام آدمی مگر خواہشوں کا اسیر ہوتا ہے اور اندیشوں کا ڈسا ہوا۔ وہ خواہ مخواہ اپنے ہمسائے کو شک کی نظروں سے دیکھتا ہے تو گاہے خود کو طاقت کے اس منصب پہ تصور کرتا ہے کہ اس کا ہمسایہ اگر اونچی آواز میں بات بھی کرے تو اسے سبق سکھانے کی ٹھان لیتا ہے۔ یہ کلیہ فرد سے لے کر معاشرے تک کار فرما نظر آتا ہے۔ مجموعی رویے اسی طرح بنتے بگڑتے ہیں۔ دنیا کا جمہوری نظام ہو یا خاندانوں کی شہنشہاہیت کا آمرانہ نظام، سب کا مقصود اپنے مقاصد کا حصول ہے۔ جمہوری و بادشاہی نظاموں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر دو نظام اپنے مقاصد کے حصول کے لئے علیحدہ علیحدہ طریقہ کار استعمال کرتے ہیں تو گاہے ایک جیسا طریقہ۔

امریکہ، برطانیہ اور نیٹو کے دیگر ممالک کہ جو اپنی اصل میں کافر کہلاتے ہیں سوائے ترکی کے، انھیں جب کسی ملک کو سبق سکھانا ہو تو یہ پہلے مرحلے میں بیان بازی سے کام لیتے ہیں، معاشی لگامیں کھنچتے ہیں، مستقبل کی منظر کشی کرتے ہیں، اپنے شہریوں کو اس ملک، کہ جہاں انھیں اپنے مقاصد کے لئے کچھ کرنا ہوتا ہے، کو کھلے عام سڑکوں، پارکوں اور شاپنگ مالز میں خریداری کرنے اور رات کو ریسٹورنٹس میں کھانے کھانے سے پرہیز کی ہدایت کرتے ہیں، اگلے مرحلے میں اپنے شہریوں کو اس ملک کا سفر کرنے سے پرہیز کرنے کی ہدایت کرتے ہیں، کچھ تو پابندیاں بھی عائد کر دیتے ہیں اور آخری مرحلے میں اپنے سفیروں کو واپس بلا کر کارروائی کی جاتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ نے جب اسامہ بن لادن اور ملا عمر والے طالبان نے نائن الیون کیا اور اس کی ذمہ داری قبول کی تو کابل میں جشن ہوا، کئی ایک اور ممالک میں بھی مگر امریکہ کا مطلوب ملزم افغانستان میں ہی تھا، چنانچہ عقلی طور پر اس نے کارروائی بھی یہی کرنا تھی اور اس نے کی۔

اس کارروائی کے پیچھے اس کے دیگر کیا مقاصد تھے؟ یہ ایک الگ کہانی ہے، اگرچہ اس کہانی کی جزئیات پہ میں اپنے کالمز میں کئی بار بات کر چکا ہوں۔ امریکہ نے پاکستان کو اپنا اتحادی بننے کو کہا اور جنرل (ر) مشرف نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فرنٹ لائن اتحادی بننے کا فیصلہ کر دیا۔ اس سے قبل مگر امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا سمیت دیگر یورپی ممالک نے اپنے شہریوں کو پاکستان کا غیر ضروری سفر کرنے سے سختی سے منع کیا کیونکہ پاکستان میں پرو طالبان مذہبی جماعتوں کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف بڑے جارحانہ مظاہرے ہو رہے تھے۔ ان مظاہروں کے پیچھے کیا تھا؟ طالبان، اسامہ بن لادن اور ان کی دہشت گردانہ پالیسیوں کی حمایت اور امریکہ و اس کے اتحادیوں سے نفرت۔ پاکستان اور بھارت کی اس حوالے سے ایک مثال علیحدہ موجود ہے۔ جب بھی پاک بھارت لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو دونوں ممالک ایک دوسرے ممالک کے سفرا کو بلا کر احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں، جبکہ بعض مواقع پر پاکستان نے بھارت اور بھارت نے پاکستان کے سفیر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک بدر کر دیا۔ حال ہی میں پاک بھارت دوستی بس سروس دو دن تک صرف اس وجہ سے معطل رہی کہ بھارت میں جاٹ برادری احتجاج کر رہی تھی۔

القصہ مختصر دنیا بھر سے ایسے کئی واقعات رقم کئے جاسکتے ہیں، جہاں کوئی ملک اپنے شہریوں پر کسی دوسرے ملک کے سفر پر پابندی عائد کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ مگر صاف ظاہر ہے کہ حالات ٹھیک نہیں۔ حالات مگر کیوں ٹھیک نہیں؟ یہ وہی پالیسیاں ہیں جنھیں ہم غاصب پالیسیاں کہتے ہیں۔ یہ وہی پالیسیاں ہیں جو خواہشات کے گھوڑے پہ سوار بادشاہوں کو اندیشوں کی دلدل تک لے آتی ہیں۔ ایک خبر نے توجہ فوراً کھینچ لی۔ ’’سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اپنے شہریوں کو لبنان کے سفر سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ بحرین اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ نے اپنے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی حفاظت کے لئے لبنان چھوڑ دیں۔ تاہم متحدہ عرب امارات نے لبنان کے سفر پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے اور کہا ہے کہ وہ زیادہ تر سفارتکاروں کو بیروت سے بلا رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے لبنانی حکومت کی جانب سے ایران میں سعودی سفارتخانے پر حملے کی مذمت نہ کرنے کے بعد سعودی عرب نے اس کی دو ارب ڈالر کی فوجی امداد روک دی تھی۔ خیال رہے کہ رواں برس جنوری میں سعودی حکام کی جانب سے معروف شیعہ عالم دین شیخ باقر النمر کو سزائے موت دیئے جانے کے بعد تہران میں سعودی سفارتخانے اور مشہد میں قونصل خانے پر مظاہرین نے حملہ کیا تھا۔

دوسری جانب حزب اللہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے امداد بند کرنے کا اعلان اس لئے کیا ہے کیونکہ اس پر یمن میں جاری تنازعے اور تیل کی آمدن میں کمی کے باعث اقتصادی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد یمن پر چڑھائی کئے ہوئے ہے۔ لبنان میں سنی سیاست دان سعد الحریری نے سعودی عرب پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لبنان کو تنہا نہ چھوڑے اور اس کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اسے قبول کرے۔ سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے وزرا خارجہ نے منگل کے روز لبنان کا سفر کرنے سے گریز کی وجہ سوائے حفاظتی اقدامات کے علاوہ کوئی اور نہیں بتائی۔‘‘ اس خبر میں چپھے خدشات بہت گہرے ہیں۔ سعودی عرب اور بحرین نے اگر اپنے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد لبنان چھوڑ دیں تو متحدہ عرب امارات نے اپنے شہریوں پر لبنان کے سفر پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بیروت سے اپنے سفارت کاروں کو واپس بلا رہے ہیں۔

میں خارجہ امور کا ماہر تو نہیں ہوں نہ ہی دفاعی تجزیہ نگاری کا زعم ہے، لیکن سعودی عرب اور بحرین نے ایسا کیوں کیا؟ اور متحدہ عرب امارات کو ایسی ضروت کیوں پیش آئی؟ یہ اپنی جگہ ایک حیرت افروز مگر تشویش ناک بات ہے۔ اس آیت کی تلاوت بھی بہت کی جاتی ہے اور مسجدوں میں کنندہ بھی کیا جاتا ہے کہ ’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘ کیا سعودی عرب اور اس کا بحرین سمیت 34 ملکی اتحاد لبنان کو ایک اور یمن بنانے پرتلا ہوا ہے؟ یا پھر لبنان کی فوجی و سفارتی امداد اور حمایت روک کر اس سے اپنے مقصد کا کام لینا چاہتا ہے؟ شام و یمن میں تو وہ مقاصد حاصل نہ ہوئے جو سعودی عرب چاہتا تھا، اب مگر اس کی نظریں لبنان پر کیوں ہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 523425
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش