QR CodeQR Code

ایران کے دشمن شکن پارلیمانی انتخابات

27 Feb 2016 14:30

اسلام ٹائمز: مجلس خبرگان رہبری کے اہم ترین امیدواروں میں آیت اللہ احمد جنتی، آیت اللہ محمد یزدی، آیت اللہ مصباح تقی یزدی، مشہد کے امام جمعہ آیت اللہ علم الہدیٰ اور تہران کے قائم مقام امام جمعہ آیت اللہ احمد خاتمی شامل ہیں۔ اس الیکشن کا سارا زور ان پانچ افراد کی مخالفت پر مبنی رہا ہے۔ اصلاح طلبان اور رفسنجانی صاحب کی بدقسمتی کہ امریکا کے صہیونی روزنامہ نیویارک پوسٹ اور بی بی سی فارسی نے اور ایک سزا یافتہ ایرانی اکبر گنجی نے ان کی حمایت پر مبنی خبریں دیں اور رائے زنی کی، جس کی وجہ سے ایران کے نظریاتی انقلابی حلقوں میں ان کے گروہ کے بعض افراد کو لیست انگلیسی یعنی انگریزوں کی فہرست کے امیدوار قرار دیا گیا۔ یوں الیکشن مہم میں تلخی پیدا ہوئی، لیکن یہ تلخی صرف تحریروں میں نظر آئی، کسی بھی جگہ ان کا آپس میں چھوٹا سا بھی تصادم یا معمولی نوعیت کا جھگڑا نہیں ہوا۔ سبھی امیدواروں کا نظریہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹرز گھر سے نکلیں اور ووٹ ڈالیں۔ رفسنجانی صاحب نے کہا کہ جو لوگ ووٹ ڈالنا نہیں چاہتے وہ بتائیں کہ اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا، بہتر ہوگا کہ ووٹ ڈالیں۔


تحریر: عرفان علی

مجھ سے پوچھیں تو دنیا میں امریکا وہ ملک ہے جس کے الیکشن کی شہرت بین الاقوامی سطح پر پائی جاتی ہے، لیکن دنیا میں واحد ایک ملک ایران ہے کہ جہاں کے ہر الیکشن پر امریکا اور برطانیہ سمیت بڑی طاقتیں نظریں جمائے بیٹھی ہوتی ہیں۔ ایران کے انتخابی عمل کے ایک ایک پہلو کی شروع سے آخر تک مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ اس کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے، تاکہ کوئی بھی کمزور پہلو یا منفی پہلو ملے اور اسے بی بی سی، وائس آف امریکا، سی این این، رائٹر، اے ایف پی سمیت دیگر مغربی ذرائع ابلاغ کے توسط سے دنیا بھی میں پھیلا کر ایران کے سیاسی نظام کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر ایران کے موجودہ الیکشن جو جمعہ 26 فروری 2016ء کو منعقد ہوئے ہیں، اس میں حصہ لینے کے لئے دسمبر میں بارہ ہزار خواہشمند سامنے آئے۔ ایران کے الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران کی جانب سے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے بعد یہ تعداد کم ہوگئی، جیسا کہ دنیا کے ہر ملک کے پارلیمانی الیکشن میں ہوتا ہے۔ رائٹر کے مطابق 6،200 امیدوار الیکشن میں حصہ لینے کے لئے اہل قرار دیئے گئے۔ اگر آپ ایرانی ذرایع ابلاغ سے رجوع کریں تو معلوم ہوگا کہ کل کے الیکشن میں ایران کی قومی اسمبلی (یعنی مجلس شورائے اسلامی) کی 290 نشستوں کے لئے کل4،844 امیدوار میدان میں اترے تھے۔ کوئی رائٹر سے یہ پوچھے کہ چھ ہزار دو سو کیوں نہیں رہے اور بقیہ جب اہل قرار دے دیئے گئے تھے تو پھر دستبردار کیوں ہوگئے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نا اہل امیدواروں کی نااہلی کو ایران کے الیکشن کمیشن یا ریٹرننگ افسران کے کھاتے میں ڈالنا ان کا مقصد تھا، لیکن اہل امیدواروں کی دستبرداری کا الزام خود انہی پر عائد ہوتا۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔

ایران کی آبادی تقریباً آٹھ کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس کے کل ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 49 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس الیکشن میں 30 لاکھ 88 ہزار ایسے نوجوان ووٹرز تھے، جنہیں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنا تھا۔ ووٹرز کی 60 فیصد تعداد جوانوں پر مشتمل بتائی جاتی ہے۔ صرف تہران صوبے میں 80 لاکھ سے زائد ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ کل نہ صرف یہ کہ مجلس شورائے اسلامی (قومی اسمبلی) کے لئے الیکشن ہوئے بلکہ 88 اراکین پر مشتمل مجلس خبرگان رہبری کے لئے بھی عام انتخابات ہوئے۔ 500 امیدوار خواتین ہیں۔ غیر مسلم اقلیت کے لئے 14 نشستیں بتائی جاتی ہیں۔ پولنگ ایرانی وقت کے مطابق آٹھ بجے شروع ہوئی اور اسے شام چھ بجے تک بغیر کسی وقفے کے دس گھنٹے تک جاری رہنا تھا۔ ووٹرز کی طویل قطاروں کے پیش نظر اس میں مزید دو گھنٹوں کا اضافہ کر دیا گیا۔ جب بارہ گھنٹے گذرنے کے باوجود پولنگ اسٹیشن کھچا کھچ بھرے نظر آئے تو اس میں تین مرتبہ ایک ایک گھنٹے کی توسیع کی گئی۔ یعنی گیارہ بجے تک ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے باوجود تہران سمیت بہت سے صوبوں میں ووٹرز کی طویل قطاروں نے ایران کی وزارت کشور کو مجبور کیا کہ وہ ایرانی وقت کے مطابق پونے بارہ بجے تک ووٹ ڈالنے کی اجازت دے۔ یعنی پانچ مرتبہ کی توسیع کے بعد یہ پونے سولہ گھنٹے کا وقت بنتا ہے، لیکن اس کے باوجود اسے پورے 16 گھنٹے جاری رکھا گیا۔ دنیا کے کسی اور ملک میں اتنی طویل ووٹنگ کی مثال نہیں ملتی۔ آج بروز ہفتہ ایران کی وزارت کشور نے اعلان کیا کہ اب تک کی گنتی کے مطابق تینتیس ملین ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا یعنی 60 فیصد سے زیادہ ووٹرز ٹرن آؤٹ رہا۔

کل ہی ایرانی حکومت کے متعلقہ شعبے کے ایک مسئول نے یہ بتا دیا تھا کہ مہدی کروبی چونکہ نظر بند ہیں، اس لئے بیلٹ بکس ان کے گھر لے جایا گیا اور وہاں انہوں نے ووٹ ڈالا۔ انہوں نے پہلے سے اس کی درخواست دے رکھی تھی۔ لیکن بی بی سی فارسی نشریات نے یہ غلط بیانی کی کہ ان کی درخواست کے باوجود انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جس ایرانی حکومتی اہلکار نے مہدی کروبی کے ووٹ ڈالنے کی تصدیق کی، انہوں نے کہا کہ اس وقت تک یہ تصدیق نہیں کرسکتے کہ آیا میر حسین موسوی اور ان کی اہلیہ زہرا رہنورد نے بھی نظر بندی کے دوران ووٹ ڈال دیا ہے یا نہیں، لیکن آج رائٹر نے یہ ایک خبر میں کہا ہے کہ موسوی کے ایک اتحادی نے رائٹر کو بتایا کہ میر حسین موسوی اور ان کی اہلیہ نے بھی ووٹ کاسٹ کیا۔ یہ ایران کی سیاست کی ہائی پروفائل شخصیات تھیں اور 2009ء کے الیکشن میں جو فتنہ گری ہوئی، اس کے الزام میں انہیں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ اتنے سنگین الزامات کے ملزم ہونے کے باوجود انہیں ان کے ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم نہیں رکھا گیا۔ یہ وہ نکات تھے جنہیں بیان کرنا ضروری تھا۔

اب یقیناً سبھی یہ جاننے کے مشتاق ہیں کہ اس الیکشن میں کون جیتا اور کون ہارا۔ تو جناب اس کے لئے سرکاری نتائج کے اعلان سے قبل کچھ کہنا مناسب نہیں۔ اہم ترین نکات یہ ہیں کہ اس مرتبہ اصول گرایان کے اہم دھڑے یکجا ہوکر ایک انتخابی اتحاد کے تحت میدان میں اترے جبکہ صدر حسن روحانی اور ایرانی سیاسی کے ہیوی ویٹ ہاشمی رفسنجانی کے حامی جنہیں اعتدال گرا کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا، وہ اور سابق صدر خاتمی کے سیاسی اتحادی جنہیں اصلاح طلبان کہا جاتا ہے، انہوں نے بہت سے مقامات پر اتحاد کرکے یہ الیکشن لڑا ہے۔ اس کے باوجود اصلاح طلبان گیارہ چھوٹے دھڑوں میں تقسیم دکھائی دیئے، یعنی ان کے انتخابی امیدواروں کی فہرست گیارہ مراکز نے جاری کی۔ البتہ بڑی سطح پر انہوں نے تین فہرستیں پیش کی تھیں۔ بہت سے فہرستوں میں بہت سے نام ایک جیسے تھے۔ اصلاح طلبان کی اہم ترین شخصیت خاتمی دور کے نائب صدر محمد رضا عارف ہیں، جو اس وقت اصلاح طلبان اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں۔ رفسنجانی اور روحانی صاحبان دونوں ہی مجلس خبرگان رہبری کے الیکشن میں امیدوار تھے اور روحانی صاحب کا نام ایک سے زیادہ فہرستوں میں ان کے مختلف اتحادیوں نے پیش کیا تھا۔

مجلس خبرگان رہبری کے اہم ترین امیدواروں میں آیت اللہ احمد جنتی، آیت اللہ محمد یزدی، آیت اللہ مصباح تقی یزدی، مشہد کے امام جمعہ آیت اللہ علم الہدیٰ اور تہران کے قائم مقام امام جمعہ آیت اللہ احمد خاتمی شامل ہیں۔ اس الیکشن کا سارا زور ان پانچ افراد کی مخالفت پر مبنی رہا ہے۔ اصلاح طلبان اور رفسنجانی صاحب کی بدقسمتی کہ امریکا کے صہیونی روزنامہ نیویارک پوسٹ اور بی بی سی فارسی نے اور ایک سزا یافتہ ایرانی اکبر گنجی نے ان کی حمایت پر مبنی خبریں دیں اور رائے زنی کی، جس کی وجہ سے ایران کے نظریاتی انقلابی حلقوں میں ان کے گروہ کے بعض افراد کو لیست انگلیسی یعنی انگریزوں کی فہرست کے امیدوار قرار دیا گیا۔ یوں الیکشن مہم میں تلخی پیدا ہوئی، لیکن یہ تلخی صرف تحریروں میں نظر آئی، کسی بھی جگہ ان کا آپس میں چھوٹا سا بھی تصادم یا معمولی نوعیت کا جھگڑا نہیں ہوا۔ سبھی امیدواروں کا نظریہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹرز گھر سے نکلیں اور ووٹ ڈالیں۔ رفسنجانی صاحب نے کہا کہ جو لوگ ووٹ ڈالنا نہیں چاہتے وہ بتائیں کہ اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا، بہتر ہوگا کہ ووٹ ڈالیں۔ میری ذاتی رائے ہمیشہ یہی رہی کہ جس امیدوار کو الیکشن میں حصہ لینے کے لئے ایران کے آئینی ادرے نے اہل قرار دے دیا ہو، اس پر تہمت دھرنا درست عمل نہیں۔

میرے خیال میں ایران کے الیکشن میں امیدوار بنیادی طور پر دو گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو معاشرے کے پسے ہوئے محروم اور ستم رسیدہ انسانوں کے بھلے کے لئے نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ ایران کے انقلاب کی مستضعف دوست پالیسی کا ثمر ایران کے مستضعف عوام کو ملے۔ رائٹر سمیت مغربی ذرائع ابلاغ کی خبر میں جو quotes آپ کو ملیں گے، اس میں یہ ظاہر کیا جا رہا ہوگا کہ اصلاح طلبان ملک کی اقتصادیات اچھی کرنا چاہتے ہیں جبکہ ان کے مخالفین ایران کی نظریاتی مذہبی شناخت کو ترجیح دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ اصلاح طلبان کی فہرست میں ایک بھی امیدوار ماہر اقتصادیات نہیں۔ اصلاح طلبان یا اعتدال گرا عوام پر اخراجات کا بوجھ ڈال کر اس میں اضافہ کرتے رہے ہیں، جبکہ اصول گرایان کی احمدی نژاد حکومت نے عوام کو سبسڈی ان کے اکاؤنٹ میں بھیج کر براہ راست انہیں ایران کی قومی آمدنی میں حصے دار بنادیا تھا۔ حسن روحانی نے اپنی صدارت کا پہلا سال اس پالیسی کو ریورس کرتے گذارا تھا۔

یقیناً امریکا نے بڑی ٹائمنگ کے ساتھ ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ہٹانے کا ٹائم ٹیبل سیٹ کیا تھا اور بظاہر یہ نظر آرہا تھا کہ اس طرح امریکا کے بارے میں نرمی دکھانے والے شاید جیت جائیں گے، لیکن اصول گرایان نے یہ سوال اٹھا دیا کہ تاحال ایران کے 107 بلین ڈالر کی ادائیگی نہیں ہوسکی ہے، آخر یہ رقم کب ادا کی جائے گی؟ ایران کے پانچ آزاد اداروں نے اصول گرایان کی کامیابی کی پیشن گوئی کی تھی کہ یہ شہری علاقوں کی 106 میں سے 80 نشستوں پر کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور یہی صورتحال دیہی حلقوں کی بھی ہے۔ یعنی دو تہائی اکثریت سے زیادہ نشستیں۔ اصلاح طلبان کے مصطفٰی معین کہتے ہیں کہ ان کا اتحاد دو تہائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کا انتظار کیا جانا چاہئے، اس کے بعد مستند بات سامنے آجائے گی کہ کون جیتا اور کون ہارا۔ ایک جملے میں کہا جائے تو یہ ایران کے دشمن شکن الیکشن تھے، کیونکہ عوام کی اتنی بڑی تعداد نے ووٹ ڈالے جو کہ اسلامی جمہوریت کی کامیابی کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔


خبر کا کوڈ: 523932

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/523932/ایران-کے-دشمن-شکن-پارلیمانی-انتخابات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org