0
Saturday 27 Feb 2016 14:12

شام کے مستقبل کا تعین پرامن یا کچھ اور؟

شام کے مستقبل کا تعین پرامن یا کچھ اور؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر

گذشتہ کئی دنوں بلکہ مہینوں سے عالمی طاقتیں اس کوشش میں لگی ہوئی تھیں کہ کسی طرح شامی فورسز، کہ جن کی کمانڈ شام کے صدر بشار الاسد کر رہے ہیں، ان کے اور شامی حزبِ مخالف کے مختلف دھڑوں کے درمیان بات چیت طے پا جائے، تاکہ فریقین کو جنگ بندی کی طرف لایا جاسکے۔ یہ مگر مشکل بھی ہے اور ناممکن بھی کہ شام میں صرف بشار الاسد کے مخالف دھڑوں کی تعداد کئی درجن ہے، جبکہ داعش اور القاعدہ کی ذیلی دہشت گرد تنظیم النصرہ اس کے سوا ہیں۔ اگر روس اس جنگ میں شامی فورسز کو فضائی مدد فراہم نہ کرتا تو ممکن ہے عالمی طاقتیں عارضی جنگ بندی کے لئے اتنی دلچسپی کا اظہار نہ کرتیں، مگر جب شامی صدر کا سفارتی حامی ماسکو عسکری حامی بن کر وارد ہوا تو خطے میں اپنے مفادات رکھنے والی عالمی طاقتوں نے جنگ بندی کے لئے زیادہ گرم جوشی دکھانا شروع کر دی، جبکہ یہ بھی کہا کہ اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو دوسرا آپشن بہرحال موجود ہے۔ ایک غیر ملکی ویب نیوز نے اپنی لیڈنگ سٹوری ان الفاظ میں شائع کی۔

’’شام میں حکومتی افواج اور صدر بشار الاسد کے مخالف باغی گروپوں کے مابین جاری لڑائی کی عبوری بندش کے معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز ہوگیا ہے۔ اگر جنگی اقدامات اور کارروائیاں روکنے کے معاہدے پر کامیابی سے عمل ہوتا ہے تو یہ عالمی طاقتوں کی کوششوں کے نتیجے میں شام میں گذشتہ پانچ برس سے جاری خانہ جنگی کے دوران آنے والا پہلا وقفہ ہوگا۔ جنگ بندی کا آغاز جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب بارہ بجے سے ہوا ہے اور اس سے قبل شام میں حکومت کے مخالف مرکزی گروہ نے کہا ہے کہ تقریباً 100 متحارب گروپوں نے جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری پر اتفاق کیا ہے۔ اس عبوری جنگ بندی کے معاہدے میں سرکاری فوج اور باغی گروپ شامل ہیں، لیکن اس کا اطلاق دولت اسلامیہ اور القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ جیسی شدت پسند تنظیموں پر نہیں ہوگا۔ النصرہ نے جمعے کو اپنے حامیوں اور اتحادیوں سے کہا ہے کہ وہ شامی صدر بشار الاسد کی افواج اور ان کے اتحادیوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لائیں۔

شام کے لئے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی سٹافن ڈی میستورا نے اعلان کیا ہے کہ اگر جنگی کارروائیاں رکی رہتی ہیں تو شام میں قیامِ امن کے لئے مذاکرات کا عمل سات مارچ کو دوبارہ شروع ہوگا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی شام میں متحارب فریقین کی جانب سے جنگی اقدامات روکنے کے معاہدے کے حق میں امریکہ اور روس کی جانب سے تیار کی گئی ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی ہے۔ امریکہ کے صدر براک اوباما نے شام اور اس کے اہم ترین حلیف روس پر زور دیا ہے کہ وہ بھی معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ انھوں نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا تھا کہ آنے والے دن بہت اہم ہیں اور دنیا کی نظریں ان پر لگی ہوں گی۔ تاہم شام سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق روسی فضائیہ کے طیاروں نے ملک میں مجوزہ جنگ بندی سے قبل حکومت مخالف مسلح گروہوں کے ٹھکانوں پر حملے تیز کر دیئے تھے۔ روس کا کہنا ہے کہ وہ شام کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرتا رہے گا۔

روس کے صدر ولادی میر پوتن نے کہا ہے کہ روس کی فضائیہ النصرہ فرنٹ اور دولت اسلامیہ سمیت ایسے شدت پسند گروہوں کو نشانہ بنا رہی ہے، جنہیں اقوام متحدہ نے جائز ہدف قرار دے رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان گروپوں کے خلاف فیصلہ کن لڑائی بلاشک و شبہ جاری رہے گی۔ خیال رہے کہ عالمی طاقتوں نے 12 فروری کو ایک ہفتے کے اندر شام میں عارضی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی، لیکن مقررہ وقت پر جنگ بندی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا تھا۔ تاہم پھر روس اور امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ 26 اور 27 فروری کی درمیانی شب جنگ بندی کا آغاز ہوگا۔ خیال رہے کہ شام میں مارچ 2011ء سے شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک اڑھائی لاکھ سے زیادہ شامی شہری ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے، جن میں سے 40 لاکھ کو دوسرے ممالک میں پناہ لینا پڑی ہے۔‘‘

ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ شام کی جنگ میں لاکھوں شہری ہلاک ہوئے، کروڑوں بے گھر ہوئے اور 40 لاکھ کو دوسرے ملکوں میں ایسی پناہ لینا پڑی کہ وہ مہاجرین کے کیمپوں تک محفوظ ہو کر رہ گئے۔ یہ اپنی جگہ ایک الگ المیہ ہے۔ جنگوں میں مگر لوگ مرتے بھی ہیں اور بے گھر بھی ہوتے ہیں۔ تسلیم شدہ امر یہی ہے کہ بشار الاسد کی حکومت گرانے کے لئے کئی ’’مقدس اتحاد‘‘ وجود میں آئے تو اس کی حکومت بچانے کے لئے بھی خطے کے ممالک نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔ بشار الاسد کو ابھی تک کے سفر میں کامیابی نصیب ہوتی نظر آ رہی ہے کہ اس کے وہ مخالفین جنھیں حزبِ اختلاف کہا جاتا ہے، وہ جنگ بندی پر آمادہ ہوئے، اس کے لئے شامی عوام نے مگر بڑی دردناک قیمت چکائی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا بشار الاسد کی سرکاری فوج، اس ملک کہ جسے فلسطین کی آزادی کی تحریکیوں کا دوسرا گھر کہا جاتا ہے، کی حزب اختلاف سب مل کر اپنے ملک کو النصرہ اور داعش سے پاک کریں گی؟ میرا نہیں خیال کہ حزب اختلاف ایسا کچھ کرے گی۔ اگرچہ ملک میں عبوری جنگ بندی کا آغاز ہوچکا ہے، مگر جہاں 100 سے زائد متحارب گروہ ہوں، وہاں یہ امکان غالب رہتا ہے کہ کسی بھی وقت، کسی بھی گروپ کی رگ پھڑک سکتی ہے، جو عالمی طاقتوں کو کئی ایک جواز فراہم کر دے گی۔

پھر یہ عبوری جنگ بندی ان گروپوں پر نہیں، جنھیں النصرہ اور داعش کہا جاتا ہے۔ چنانچہ بشار الاسد اور اس کا اتحادی ماسکو ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف زیادہ جارحانہ کارروائیاں کریں گے کہ انھیں کچھ دن کے لئے حزبِ مخالف کے مختلف دھڑوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا نہیں ہوگا۔ ایسے میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ امریکی سی آئی سے کے سابق عہدیدار کا بیان اس مرحلے پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سعودی عرب کے پاس 4 سے 7 سے تیار ایٹم بم تیار ہیں۔ اس مرحلے پر ایسی خبر کو سامنے لانا ماسکو اور تہران کو خبردار کرنا ہے۔ سعودی عرب کے جنگی طیارے ترکی پہنچ چکے ہیں اور اگلے دنوں بشار االاسد کو ہٹانے کے لئے گھمسان کا رن پڑ سکتا ہے، جبکہ اسد حکومت کو بچانے کے لئے روسی طیارے ہوا میں ضرور تیرتے رہیں گے۔ اس دوران میں اگر ترکی پر حملہ ہوتا ہے تو وہ اپنے نیٹو کا رکن ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیٹو ممالک کو اپنی مدد کی درخواست بھی کرسکتا ہے۔ اوباما کا وہ بیان ہم کیوں بھولیں، جس میں انھوں نے کہا کہ آنے والے چند دن شام کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔ کیا صرف شام کے حوالے سے؟ پورے خطے اور پوری دنیا کے حوالے سے اہم، میں اگرچہ اپنی بیماری کے باعث خبروں اور تجزیات پہ پوری نظر نہیں رکھ پایا، مگر میرا گمان ہے کہ شام میں فیصلہ کن مرحلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 523936
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش