1
0
Saturday 27 Feb 2016 16:05

تنظیمیں ۔۔۔ حسد، حرکت، تربیت اور انتہا پسندی

تنظیمیں ۔۔۔ حسد، حرکت، تربیت اور انتہا پسندی
تحریر: سید قمر عباس حسینی

گذشتہ دنوں برادر نذر حافی کی ایک تحریر بعنوان “تنظیمیں ۔۔۔ حسد، حرکت اور تربیت “ دیگر قارئین کی طرح میری نظروں سے بھی گزری۔ ہمارے دور اور زمانے کے لحاظ سے یہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اس پر مختلف زاویوں سے مسلسل کام ہوتے رہنا چاہیے۔ چنانچہ میں نے سوچا کہ تنظیمی انتہا پسندی کو بھی زیرِ بحث لایا جائے۔ معتدل مزاجی اور تحمل مزاجی اوصاف حسنہ میں سے ہیں۔ میری رائے میں تنظیمی افراد کو ان دونوں اوصاف کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کسی بھی تنظیم کا کوئی مسئول یا ممبر اپنی جماعت یا تنظیم کی حمایت میں حد سے گزر جائے تو  یہ انتہا پسندی ہے۔ انسان اپنے تنظیمی موقف میں اگرچہ حق پر ہی ہو، لیکن پھر بھی اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں سے حق زندگی ہی چھیننے کے درپے ہوجائے۔ ایسے لوگ جو تنظیمی  انتہا پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ ایک دم مشہور تو ہو جاتے ہیں، لیکن پھر جلد ہی ان کی اپنی شخصیت بھی دلکشی کھو دیتی ہے اور ان کی اپنی محبوب و مرغوب تنظیم کو بھی انہی سے نقصان پہنچتا ہے۔ ایسے لوگوں کو وقت کے ساتھ ساتھ ان کے دیرینہ اور مخلص دوست تک چھوڑ دیتے ہیں۔

ہم نے اپنے معاشرے میں ایسے بہت سے افراد کو دیکھا ہے کہ جو پہلے کسی جماعت یا تنظیم کو ایک وسیلہ بنا کر متعارف کرواتے ہیں اور بعد ازاں اسی کو بت بنا کر اس کی پرستش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور دیگر تمام جماعتوں کو الحادی اور باغی قرار دینے لگتے ہیں۔ اگرچہ تنظیموں کے مرکزی قائدین بھی اس طرح کے لوگوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے، تاہم پھر بھی اس طرح کے لوگ  اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم ہی فلاں پارٹی کے مرشدِ کامل اور ستونِ اساسی ہیں۔ ایسے افراد کی وجہ سے بہت ساری جگہوں پر تنظیموں کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تنظیمی بت پرستی یا کسی شخصیت کی پرستش کے نتیجے میں اس تنظیم یا شخصیت کو ہی ضرر پہنچتا ہے، جس کی عبودیت کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ دراصل کسی تنظیم یا شخصیت کے پروانے نہیں ہوتے بلکہ وہ کسی تنظیم یا شخصیت کو سیڑھی بناکر اپنی پہچان کروا رہے ہوتے ہیں۔

ایسے افراد کا پسندیدہ مشغلہ دوسروں کو بے عزت کرنا ہے، خواہ اس کے لئے ان کی اپنی عزت ہی داؤ پر کیوں لگ جائے۔ ایسے افراد یوں تو اجتماعیت، قومی درد اور سیاسی بصیرت کی بہت باتیں کرتے ہیں، لیکن یہ اپنے ہی دوستوں کے ساتھ چند قدم بھی نہیں چل پاتے۔ ان کی پہچان کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اجتماعیت پر بہت زور دیتے ہیں اور اس اجتماعیت سے ان کا مقصد صرف اپنی تنظیم یا جماعت ہوتی ہے اور یا وہ شخص جسے وہ غیر معمولی حیثیت کا حامل فرد سمجھتے ہیں  اور اس کے حکم سے انحراف کو بہت بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیڈر کے حکم پر جان بھی قربان کر دی جاتی ہے جبکہ والدین کے حکم سے سرتابی کی جاتی ہے۔

تنظیمی ممبران کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ دوسرے کو بھی زندہ رہنے، بولنے، سوچنے اور اجتماعی فعالیت کا حق دیا جائے۔ اپنی تنظیم کی ہی طرح ہمیں دوسری تنظیموں کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ اپنی عزت کروانے کے لئے دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔ دینِ اسلام ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اپنے نظریات کو دوسروں پر زبردستی مسلط کریں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں بہت ساری ایسی تنظیموں نے جنم لیا جو شہرت و عزت کی بلندیوں کو چھونے میں خوب کامیاب ہوئیں، مگر آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہوگئیں، یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور جب تک دنیا قائم ہے عروج و زوال کے یہ نظارے چشم فلک ملاحظہ کرتی رہے گی۔

اگر ہم تنظیموں کے عروج و زوال کی بنیادی وجوہات جاننا چاہیں تو ہمیں تحقیق سے یہی پتہ چلے گا کہ جو تنظیمیں اپنے افراد کی تربیت کرتی ہیں اور ان کے ممبران اخلاقی اقدار اور اجتماعی حدود و قیود کا احترام کرتے ہیں، وہ عروج پاتی ہیں، لیکن جن تنظیموں میں تخریبی ذہن، تنقیدی مزاج، انتقامی افراد، چاپلوس اور چرب زبان لوگ گھس جائیں، وہ عارضی طور پر جھاگ کی طرح پھولی ہوئی دکھائی تو دیتی ہیں، لیکن تاریخ بشریت میں کوئی اہم کارنامہ ادا نہیں کرسکتیں۔ یہ بات اب محتاج دلیل نہیں رہی کہ غیر معتدل اور بدمزاج لوگ موجودہ دور میں تنظیموں کے لئے ناسور بن چکے ہیں۔ یہ تنظیمی تھنک ٹینکس کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ تنظیمی افراد میں پائے جانے والے عدمِ برداشت کے مادے کو سنجیدگی سے لیں اور تعاونوا علی البر کے تحت مختلف تنظیموں کے درمیان اتفاق و اتحاد کی فضا کو پروان چڑھایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 523963
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

hasan jamali
United States
باسلام
بہت ہی عالی تحریر تھی اپوچو نہایت ہی اھم موضوع پر تحریر فرمانے کی زحمت فرمائی ہے، ایسے موضوعات مزید تشنہ تحریر ہیں، یا اللہ
خدا قوت۔
ہماری پیشکش