0
Monday 29 Feb 2016 16:59

جے این یو واقعے پر بھاجپا کی سینہ زوریاں

جے این یو واقعے پر بھاجپا کی سینہ زوریاں
تحریر: جاوید عباس رضوی

گزشتہ کئی دنوں سے عالمی شہرت یافتہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی میں آزادی اظہار پر قدغن، افضل گورو کی صلیب پر تحفظات، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے طلباء کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات، جے این یو طلبہ یونین کے صدر کنیہا کمار اور سابق پروفیسر سید عبدالرحمن گیلانی کی گرفتاریاں اور ان ہر دو کے خلاف غداری کے مقدمات کی رجسٹریشن، اس کے ردعمل میں احتجاجی مظاہرے وغیرہ جیسے موضوعات دہلی سمیت پورے ملک میں قوم پرستی اور قوم سے بغاوت کے عنوان سے زیر بحث ہیں۔ گزشتہ 20 روز سے میڈیا، کالج، یونیورسٹیوں، سیول سوسائٹی سے لے کر کیفٹیریوں میں مختلف الخیال نظریات کے حامل افراد ان موضوعات پر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ قوم پرستی کا دعویٰ کرنے والی جماعتوں نے اس بارے میں اپنا سخت گیر موقف منوانے بلکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے مخالف سوچ رکھنے والے افراد پر حملے بھی کئے جب کہ میڈیا بھی اس موضوع پر متوازی خظوط پر بٹا ہوا ہے۔ جب افضل گورو اور مقبول بٹ کی حمایت میں جے این یو کی طلباء یونین نے احتجاجی مظاہرہ کیا تو اس واقعہ کو سبھی نظریات سے وابستہ لوگ اپنے اپنے انداز سے پیش کرنے لگے۔

بی جے پی، آر ایس ایس اور اس قبیل کی دوسری جماعتوں نے جے این یو طلباء پر ”دیش دروہی“ یا ملک دشمنی کا الزام عائد کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھ چھوڑی اور میڈیا کے ایک مخصوص طبقے کی جانب سے افضل گورو اور مقبول بٹ کے حق میں پروگرام منعقد کرنے والے طلباء کے خلاف ایک زوردار منفی تشہیر مہم چھیڑ دی گئی بلکہ بعض ٹیلی ویژن چینلوں نے اپنے پیشے اور منڈیٹ کے تقاضوں کو لتاڑتے ہوئے چند ایک جعلی ویڈیوز کا سہارا لیا تاکہ جے این یو طلباء یونین کی قیادت پر ”ملک دشمنی“ کا الزام تھوپ کر حکومت پر ان طلباء کی گرفتاری کیلئے دباﺅ ڈالا جاسکے اور یہ مایوس کن سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ اس دوران خود عدالت کے احاطے میں طلباء اور اُن کے محبوس لیڈر کنہیا کمار پر بعض سنگھی وکلاء نے سرعام حملہ بھی کیا جس نے نہ صرف احتجاجی طلبہ اور سول سوسائٹی کو مشتعل کیا بلکہ ملک کی خاموش اکثریت سے لے کر مختلف سیاسی حلقوں نے اس پر کافی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ یوں اس ساری گھمبیر صورتحال کے تناظر میں ملک بھر میں ایک نیا سیاسی ایشو زور شور سے کھڑا ہوا جس کا لب لباب اس وقت جب یہ سطور سپرد قلم کی جارہی ہیں، پارلیمنٹ میں نظر آرہا ہے۔ حکمران جماعت بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتیں اور لیڈر کنہیا کمار، عمر خالد اور ان کے ساتھیوں پر بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کا دفاع کررہی ہیں جب کہ کانگریس اس وقت طلباء کے حق میں بیان بازی سے کام لے رہی ہیں جب کہ کمیونسٹ پارٹی، جس کا جے این یو میں طلباء پر کافی اثر و نفوذ ہے، کنہیا کمار اور ان کے ساتھیوں کی رہائی اور جے این یونیورسٹی کے خلاف سخت گیر عناصر کے حملوں کے خلاف مزاحمت کررہی ہے۔

مرکز میں حکمران بھاجپا نے اس سارے حساس معاملے میں جس طرح اپنے موقف کو سامنے رکھا ہے، اس سے یہی لگتا ہے گویا قوم پرستی کے مسئلے میں پورے ملک کا حرف آخر یہی پارٹی ہے، جو بغیر کسی لاگ لپٹی کے افضل گورو کی پھانسی کو سو فیصد ٹھیک مانتی ہے اور اس پر سوال اٹھانے والوں کو ’’دیش دروہی“ہونے کا الزام تھوپنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہی ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ آندھرا پردیش کے ایک سینئر ممبر نے گزشتہ روز پارلیمنٹ میں کھل کر یہ بات تک کہہ ڈالی کہ بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ ہمیشہ دھوکہ دہی سے کام لیا ہے۔ یہ قدرے حیرت انگیز بیان جو ایک ممبر پارلیمان کی جانب سے سامنے آیا، اس پر بھی سیاسی جماعتوں نے آگے بڑھ کر اصل مسئلے پر کھل کر بحث کے بجائے ایک طرح سے سارے مباحثے کو قوم پرستی اور قوم مخالفت کے منقسم موضوع میں ہی سمیٹ لیا۔ عوامی سطح پر اس بار پارلیمنٹ میں جاری بحث کے دوران اپوزیشن کی جانب سے مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کے اس بیان پر بحث کی امید تھی، جس میں انہوں نے جے این یو واقعے کو سرحد پار سے ملنے والی خیالی حمایت اور اس میں حافظ سعید کی قیاسی رول کو اُچھالا تھا، چونکہ یہ دونوں چیزیں خلاف حقیقت ہیں، اس لئے عوامی سطح پر یہ توقع کی جارہی تھی کہ اس بیان پر اپوزیشن وزیر داخلہ سے وضاحت طلب کرے گی اور اس سنگین الزام جو کہ کسی بھی فرد کو پھانسی کے پھندے تک پہنچا سکتا ہے، کے حق میں ثبوت و شواہد مانگے جائیں گے لیکن اپوزیشن نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کر لی جس سے یہ عام تاثر بڑھنے لگا ہے کہ پارلیمنٹ اجلاس کے دوران بھی اپوزیشن اس سارے مسئلے اور قضیے کو محدود نظریے سے ہی دیکھ رہی ہے بلکہ ایسی کسی بھی کھلی بات اور نکتے سے جان بوجھ کر احتراز کیا جارہا ہے جو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بحث پر منتج ہو۔


بھارتی حکمران جماعت کی من مانی اور شدت پسندی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی امور داخلہ کے مرکزی وزیر راجناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی معاملے میں جو کوئی بھی قصوروار ہوگا اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ بھی ملک کے خلاف نعرے بازی میں ملوث ہونگے ان کو معاف کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے چاہیے وہ کس طبقے سے بھی وابستہ ہوں۔ انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ بے قصوروں کو بھی اس معاملے میں پھنسایا جارہا ہے۔ راجناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ ہندوستان کے خلاف سازشیں کرنے والے اور نعرے بازی کرنے والوں کو کسی بھی طور برداشت نہیں کیا جائے گا اور ناہی ان عناصر کی طرف آنکھیں بند کی جائیں گی جنہوں نے مبینہ طور سے جے این یو میں ملک مخالف نعرے بازی میں حصہ لیا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی میں منگل کو شہید افضل گورو کی برسی پر تقریب پاکستان نواز طلاب کی طرف سے آزادی اور بھارت مخالف نعروں کا سخت نوٹس لیتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے دہلی پولیس کو ہدایت دی ہے کہ ملک مخالف نعرہ بازی میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائی جبکہ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے کہا کہ کسی بھی طرح سے بھارت ماتا کی توہین کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس دوران معلوم ہوا ہے کہ دہلی پولیس نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر کو بھی گرفتار کیا ہے اور اس سلسلے میں مزید تحقیقات کا عمل جاری ہے۔

بھاجپا کے اقتدار میں آتے ہیں بھارتی قانون اور جمہوریت کا کھوکھلا پن کھل کر سامنے آگیا ہے، حال ہی میں کچھ بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں نے بی جے پی کی ایسی کارروائیوں کی سخت مخالفت بھی کی ہے، حال ہی میں ایک امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے مذہب سے متاثر جارحانہ قومیت پرستی مسلط کرنے کی کوششوں نے بھارت میں ثقافتی جنگ شروع کردی ہے۔ امریکی اخبار ’’وال اسٹریٹ‘‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی جواہر لعل یونیورسٹی میں کشمیری حریت رہنما شہید افضل گورو کی برسی کے موقع پر تقریب کے حوالے سے پروفیسر ایس اے آر گیلانی اور طلباء کی گرفتاری اور اس کیخلاف احتجاج نے کٹر ہندو قوم پرستوں اور اعتدال پسندوں کے درمیان کشیدگی کی نئی لہر پیدا کردی، نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے جس جارحانہ قوم پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ وہ لوگوں کو اس بات پر مجبور کر رہی ہے کہ وہ ہر اس شخص کی مذمت کریں جس کو حکمراں جماعت بی جے پی غدار قرار دے، نریندر مودی کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد روایتی ایورویدک ادویہ، یوگا، سنسکرت کے فروغ کی مہم شروع کی اور جد و جہد آزادی کے رہنما سردار پٹیل کو خصوصی اہمیت دی، مودی حکومت کی طرف سے اس ہندو قوم پرست ایجنڈے کے فروغ کے خلاف گزشتہ سال کئی ممتاز بھارتی شخصیات جن میں ادیب بھی شامل تھے نے احتجاجاً قومی ایوارڈ واپس کئے حتیٰ کہ ایک مسلم اداکار کو یہاں تک کہنا پڑا کہ وہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ بھارت چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔

ادھر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکام کو مخالفین کے بارے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی فضا کو بڑھاوا دینے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ہند فرقہ وارانہ تشدد کے ایسے سینکڑوں واقعات روکنے میں ناکام رہی جس میں اکثریتی ہندو آبادی کی طرف سے مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اطلاعات کے مطابق لندن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ہند فرقہ وارانہ تشدد کے ایسے سینکڑوں واقعات روکنے میں ناکام رہی جس میں اکثریتی ہندو آبادی کی طرف سے مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ حکمراں جماعت بی جے پی کے ارکان پارلیمان نے اپنی اشتعال انگیز تقاریر اور تشدد کا جواز دے کر مذہبی تناؤ کو فروغ دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ حکومت نے سول سوسائٹی کے ایسے گروپوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جو حکومتی اقدام پر سوال اٹھاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 524394
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش