QR CodeQR Code

ایران الیکشن میں کون جیتا، کون ہارا

1 Mar 2016 17:17

اسلام ٹائمز: حسب توقع بعض دوستوں نے تہران کے نتائج یا مغربی ذرائع ابلاغ کی خبروں کی بنیاد پر مجھے فون کرکے تشویش کا اظہار کیا کہ یہ کیا ہوگیا۔ میں نے بھی حسب عادت قہقہ لگایا کر کہا کہہ حضور جب ایران کے الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران نے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دے دیا تو اس کے بعد ان امیدواروں کی کردار کشی کیوں کر کی جاسکتی ہے؟ اور یہ فیصلہ بہرحال ایران کے ووٹرز نے ہی کرنا تھا کہ کون ان کی پارلیمنٹ اور مجلس خبرگان میں نمائندگی کرے۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ملک بھر میں جہاں سے اصولگرایان کی اکثریت کامیاب ہوئی، وہاں ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ 62 فیصد تھا جبکہ تہران کا ٹرن آؤٹ 50 فیصد تھا۔ ایرانی اپنے سیاستدانوں کو سبق سکھاتے رہے ہیں اور اس مرتبہ بھی انہوں نے بہت سوں کو سبق سکھایا۔


تحریر: عرفان علی

دل تھام کر بیٹھئے، ابھی ایرانی الیکشن میں کسی کی ہار اور کسی کی جیت کے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا, کیونکہ ایران کے پارلیمانی انتخابات کا پہلا مرحلہ تمام ہوا ہے, لیکن ابھی تقریباً 70 نشستوں کے لئے دوبارہ انتخابات ہونا باقی ہیں۔ ایران میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے لئے کاسٹ ہونے والے کل ووٹوں کا پچیس فیصد حاصل کرنا لازمی شرط ہے، سادہ اکثریت سے کوئی امیدوار رکن منتخب نہیں ہوسکتا اور وہ نشستیں جہاں کوئی بھی امیدوار پچیس فیصد ووٹ نہیں لے سکا، تاحال خالی ہیں اور اب یہاں دوبدو مقابلہ ہوگا یعنی اب صرف وہ دو امیدوار آمنے سامنے ہوں گے، جنہوں نے عام انتخابات میں پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی ہوگی۔ اصولگرایان کے حامی ایک اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پہلے مرحلے میں انہوں نے پارلیمنٹ کی 48 فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے اور اصلاح طلبوں نے پارلیمنٹ میں تیس فیصد نمائندگی حاصل کرلی ہے۔ آزاد اراکین پارلیمنٹ نے سترہ فیصد اور اعتدال گرایان کو محض پانچ فیصد نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ لیکن ایک اور فہرست کے مطابق 221 اراکین پارلیمنٹ میں ایک سو ایک اصول گرایان اور 85 اصلاح طلبان منتخب ہوئے ہیں، انتیس آزاد امیدوار اور چھ اعتدال گرا اراکین ہیں۔ ایک امیدوار بیک وقت آزاد اور اعتدال گرا میں شمار کیا جا رہا ہے۔ اس فہرست میں اصولگرایان کی فیصدی تعداد چھیالیس ہے۔ اس فہرست کے مطابق اصلاح طلبان نے پارلیمنٹ میں 37.5 فیصد نشستیں حاصل کر لی ہیں۔ دوسرے مرحلے کے الیکشن کے دلچسپ اعداد و شمار یہ ہیں کہ 68 یا 69 نشستوں پر اصولگرایان کے 55 امیدوار میدان میں موجود ہیں جبکہ اصلاح طلبان کے 39 اور اعتدال گرایان کے صرف چار امیدوار اور آزاد امیدوار 28 ہیں۔

تہران نے اپنا فیصلہ اصلاح طلبان کی فہرست امید میں موجود تیس افراد کے حق میں سنا دیا ہے۔ تیس کی تیس نشستیں وہ حاصل کرچکے ہیں، لیکن یہاں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اصلاح طلبان کی فہرست میں دوسرے نمبر پر جس امیدوار کو سب سے زیادہ ووٹ ملے وہ شہید مرتضٰی مطہری کے فرزند علی مطہری ہیں اور وہ خود غرب زدگی کو پسند نہیں کرتے۔ تہران میں بدحجابی کے خلاف تقریر یں کرچکے ہیں۔ اصلاح طلبان کی فہرست میں کاظم جلالی خود کو آزاد اصولگرا کہتے ہیں، وہ چھٹے نمبر پر کامیاب امیدوار ہیں۔ یاد رہے کہ تہران کے 30ویں کامیاب رکن پارلیمنٹ نے 10 لاکھ 78 ہزار 817 ووٹ لئے ہیں اور پہلے نمبر پر محمد رضا عارف نے 16 لاکھ سے بھی زائد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ 31 ویں نمبر پر پہلے ناکام امیدوار غلام علی حداد عادل کو ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد بھی دس لاکھ سے زائد ہے۔ تو یہ نہ سمجھا جائے کہ ناکام امیدواروں کو بہت ہی کم ووٹ پڑے ہیں۔ اس فہرست کے سربراہ محمد رضا عارف ایران کی مجمع تشخیص مصلحت نظام کے رکن ہیں اور انہیں اس اہم ادارے میں خود امام خامنہ ای نے نامزد کیا تھا۔ یہ نکات اس لئے بیان کئے جا رہے ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اردو زبان سمجھنے والے افراد یہ جان لیں کہ تہران سے کامیاب امیدواروں کو انقلاب کا دشمن سمجھنا یا امریکا و برطانیہ کا ایجنٹ قرار دینا، ایرانی نظام سے ناآگاہی پر مبنی لغو رائے زنی ہے۔

یہ ایران ہے جہاں سیاست کے ہیوی ویٹ کے وزن کا تعین خود ووٹرز کرتے ہیں۔ اس کی آسان مثال محمد خاتمی کا صدر بننا تھا۔ اس وقت سیاست کے ہیوی ویٹ ناطق نوری تھے لیکن ہار گئے۔ 2005ء میں محمود احمدی نژاد کو ایران سے باہر شاید ہی کوئی جانتا ہوگا لیکن ہاشمی رفسنجانی جیسے اہم اور زیرک سیاستدان کے مقابلے میں خاصے بڑے مارجن سے جیت جانا اور مہدی کروبی اور میر حسین جیسے عالمی شہرت یافتہ ایرانی سیاستدانوں کے مقابلے میں اور زیادہ ٹرن آؤٹ سے جیت جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ایران کی سیاست میں بڑے بڑوں کو دھچکا لگتا رہا ہے۔ آج اگر آیات عظام محمد یزدی اور تقی مصباح یزدی بھی پہلے 16 امیدواروں میں جگہ نہیں پاسکے، تب بھی سترہویں اور انیسویں نمبر پر انہی کے ووٹ تھے۔ ہاشمی رفسنجانی صاحب کی انتخابی فہرست خبرگان مردم میں انہوں نے چن چن کر دو فہرستوں سے نام شامل کئے۔ علمائے کے دو گروہوں کی دو بڑی تنظیموں جامعہ روحانیت مبارز اور مجمع روحانیون مبارز کے حمایت یافتہ علمائے کرام کی فہرست میں سے انہوں نے سولہ نام شامل کئے تھے۔ اصولگرایان کی مجلس خبرگان کے امیدواروں کی فہرست برائے تہران میں جو نام تھے، ان میں سے غالباً 9 علماء کامیاب ہوچکے ہیں۔ ہاشمی رفسنجانی صاحب کی فہرست میں شامل بعض علماء نے ان کی فہرست سے لاتعلقی کا اظہار بھی کیا، اس کے باوجود جیت گئے۔ غور فرمایئے کہ ایران کی قوہ قضائیہ کے سربراہ آیت اللہ لاریجانی (مازندران)، شورائے نگہبان کے سربراہ آیت اللہ جنتی (تہران)، امام جمعہ مشہد آیت اللہ سید علم الہدیٰ مشہد سے اور تہران کے قائم مقام امام جمعہ آیت اللہ احمد خاتمی (کرمان سے) مجلس خبرگان رہبری کے اراکین کے طور پر منتخب ہوگئے جبکہ ایران بھر میں ان چاروں کے خلاف بھی پروپیگنڈا مہم چلائی گئی تھی۔

حسب توقع بعض دوستوں نے تہران کے نتائج یا مغربی ذرائع ابلاغ کی خبروں کی بنیاد پر مجھے فون کرکے تشویش کا اظہار کیا کہ یہ کیا ہوگیا۔ میں نے بھی حسب عادت قہقہ لگایا کر کہا کہہ حضور جب ایران کے الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران نے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دے دیا تو اس کے بعد ان امیدواروں کی کردار کشی کیوں کر کی جاسکتی ہے؟ اور یہ فیصلہ بہرحال ایران کے ووٹرز نے ہی کرنا تھا کہ کون ان کی پارلیمنٹ اور مجلس خبرگان میں نمائندگی کرے۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ملک بھر میں جہاں سے اصولگرایان کی اکثریت کامیاب ہوئی، وہاں ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ 62 فیصد تھا جبکہ تہران کا ٹرن آؤٹ 50 فیصد تھا۔ ایرانی اپنے سیاستدانوں کو سبق سکھاتے رہے ہیں اور اس مرتبہ بھی انہوں نے بہت سوں کو سبق سکھایا۔ انہوں نے 53% تا 70% موجودہ اراکین پارلیمنٹ کو ووٹ نہیں دیا ہے اور اصولگرایان ہوں یا اصلاح طلبان دونوں ہی نے کئی حلقوں سے نئے امیدوار نامزد کئے تھے۔ سب سے اہم سبق یہ ہے کہ ایران کے صدارتی الیکشن کے بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں صدر مملکت کے حامیوں کی اکثریت کامیاب ہوجاتی تھی، لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا ہے۔ مائیکرو سطح پر جائزہ لیں تو صدر حسن روحانی اعتدال گرا ہیں۔ یہ اصطلاح سابق صدر ہاشمی رفسنجانی کے نظریاتی رجحان کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ پہلی مرتبہ ان کے نظریئے کو اعتدال گرائی کہا گیا۔ حسن روحانی بھی اسی رجحان کے حامی ہیں۔ اصلاح طلبان کی اصطلاح صدر محمد خاتمی کے دور حکومت میں سامنے آئی اور اصولگرایان کی اصطلاح محمود احمدی نژاد کے دور صدارت میں۔ ابھی یہ تینوں اصطلاحیں ایرانی پارلیمانی سیاست میں زیر استعمال ہیں۔ اب اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت ایسے اراکین پر مشتمل ہے کہ جو موجودہ حکومت کے ناقدین ہیں، یعنی ان پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ایران کے عوام اور ان کا سیاسی نظام ہر الیکشن میں جیت جاتا ہے۔ امیدوار کوئی سا بھی جیتے یا ہارے، ان کی ہار یا جیت نظام ولایت فقیہ کی ہار یا جیت نہیں ہوتی۔ رکن پارلیمنٹ کو چار سال کے لئے آئینی کردار انجام دینے بھیجا جاتا ہے، جبکہ مجلس خبرگان کی آئینی مدت زیادہ ہوتی ہے۔ دوسرے الیکشن میں اراکین پارلیمنٹ کو اگر دوبارہ منتخب کرلیا جائے تو مطلب عوام اس کی کارکردگی سے مطمئن رہے اور مسترد کر دیا جائے تو سمجھو کہ عوام کے معیار پر پورا نہیں اترا۔ نظام ولایت فقیہ کی طرف سے رہبری اور رہنمائی کی جاتی ہے اور الیکشن میں عوام کو آزاد چھوڑا جاتا ہے کہ وہ جسے چاہیں ووٹ ڈال دیں۔ ذرا سوچیں کہ بنی صدر کو عوام نے ووٹ دے کر کامیاب کروایا تھا تو امام خمینی کو معلوم تھا کہ یہ آدمی کیسا ہے اور انہوں نے خود بھی اس کو ووٹ نہیں دیا تھا، لیکن عوام کے ووٹوں کا احترام تھا، اس سے صدارت کا حلف لیا اور جب اس نے خیانت کی تو پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کا ووٹ دے کر اسے ہٹا دیا۔ کسی الیکشن سے پہلے کبھی کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ ولی فقیہ کس کی حمایت میں ووٹ ڈالیں گے۔ یہی اس نظام کی شفافیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ تہران بھی ایران کا حصہ ہے اور ملک کے دیگر 30 صوبے بھی ایران ہی کا حصہ ہیں۔ تہران اور دیگر صوبوں کے ایرانی بھی ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کر رہے ہیں۔ سبھی نے نتائج تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اصلاح طلبان کے انتخابی اتحاد کے سربراہ محمد رضا عارف نے رہبر معظم انقلاب اسلامی، شورائے نگہبان اور الیکشن کا انعقاد کروانے والے اداروں اور شخصیات کا شکریہ ادا کیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ثابت ہوگا کہ پارلیمنٹ میں اکثریت اصولگرایان کو ملی یا اصلاح طلبان اور ان کے اتحادی اعتدال گرایان کو۔ لیکن اب دو تہائی اکثریت کا خواب جو دونوں طرف سے دیکھا جا رہا تھا، وہ شاید شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ ایران کے باہر جو ایران کے ہمدرد انقلابی ہیں، وہ ہلکان نہ ہوں۔


خبر کا کوڈ: 524766

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/524766/ایران-الیکشن-میں-کون-جیتا-ہارا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org