1
0
Saturday 5 Mar 2016 00:31

آل سعود کیجانب سے اسرائیل کی خدمت گزاری

آل سعود کیجانب سے اسرائیل کی خدمت گزاری
تحریر: ہادی علی

خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی وزرا کونسل نے بدھ 2 مارچ کو تیونس میں اپنے 33ویں اجلاس کے اختتام پر ایک بیانیہ صادر کیا، جس میں حزب اللہ لبنان کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا گیا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے شام، عراق اور یمن میں اپنی تمام علاقائی سازشوں کی ناکامی اور اپنی تمام امیدوں پر پانی پھر جانے کے بعد غاصب صہیونی رژیم اور تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف برسرپیکار اسلامی مزاحمتی بلاک سے انتقام لینے کی ٹھانی اور اس بار اپنے زہر آلود تیروں کا رخ حزب اللہ لبنان کی جانب موڑ دیا۔ سیاسی ماہرین خلیج تعاون کونسل کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد گروہ قرار دیئے جانے کو غاصب صہیونی رژیم اور تکفیری دہشت گرد عناصر کی حمایت قرار دیتے ہیں، سعودی اتحاد کے اس فیصلے کو خلیج تعاون کونسل کے بعض رکن ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے اسرائیل کی پیشگی شرائط کا تحقق قرار دے رہے ہیں۔

سعودی عرب اسرائیل گٹھ جوڑ کا آشکار ہو جانا:
لبنان کے ڈیلی الاخبار کے مطابق خلیج تعاون کونسل کی جانب سے حزب اللہ لبنان کا نام دہشت گروہوں کی فہرست میں قرار دینے کے ساتھ سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزید بہتر بنانے کا آغاز کر دیا ہے۔ سعودی عرب کا یہ اقدام عرب ممالک کے خلاف اس کے تنازعات کا تکمیلی قدم ہے، لیکن یہ مسئلہ حزب اللہ اور اسلامی مزاحمتی بلاک کیلئے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں بلکہ اس کا نقصان لبنان میں سعودی عرب کی اتحادی سیاسی جماعتوں خاص طور پر "المستقبل" پارٹی کو ہوگا۔ ڈیلی الاخبار کے مطابق ابھی اسرائیل کے چینل 10 کی جانب سے اعلٰی سطحی اسرائیلی وفد کے دورہ سعودی عرب پر مبنی خبر کو شائع ہوئے چند دن ہی گزرے تھے کہ سعودی عرب نے حزب اللہ لبنان کے خلاف نفسیاتی جنگ کا دائرہ مزید وسیع کرتے ہوئے اس کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر دیا۔ سعودی عرب اور اسرائیل کی وزارت خارجہ، وزارت دفاع اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان دسیوں سال سے جاری خفیہ تعلقات اور تعاون کے بعد سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد قرار دیا جانا درحقیقت سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے منظر عام پر آجانے کا پہلا قدم شمار ہوتا ہے۔ ڈیلی الاخبار مزید لکھتا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے حزب اللہ کو دہشت گرد گروہ قرار دیا جانا، حزب اللہ لبنان کیلئے غیر متوقع اقدام نہیں تھا۔

سعودی عرب اور اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں حزب اللہ کے خلاف قرارداد منظور کروانے میں ناکامی اور حزب اللہ لبنان کی جانب سے اسرائیلی جاسوسی ادارے "موساد" کے سربراہ یوسی کوہن کے ہمراہ اعلٰی سطحی اسرائیلی وفد کا دورہ سعودی عرب فاش کئے جانے کے بعد سعودی عرب کی جانب سے ایسی انتقامی کارروائی کی توقع کی جا رہی تھی۔ اس دورے کے دوران موساد کے سربراہ یوسی کوہن اور سعودی حکام نے اسلامی مزاحمت کو نشانہ بنانے پر اتفاق کیا۔ سعودی عرب کا حالیہ اقدام لبنان اور لبنانیوں کے خلاف اس کے دیگر اقدامات کی تکیمل ہے۔ سعودی حکام نے لبنانی شہریوں کی ایسی بڑی تعداد کو سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں سے نکال باہر کرنے کی کوشش کی، جو گذشتہ کئی سالوں سے ان ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب نے لبنان میں مقیم سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے شہریوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلد از جلد لبنان کو ترک کر دیں۔ مزید برآں، ریاض نے لبنان کی مسلح افواج اور سکیورٹی فورسز کو دی جانے والی امداد بھی منقطع کر دی ہے۔ لبنان کے باخبر ذرائع کے بقول خلیج تعاون کونسل کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد گروہ قرار دیئے جانے پر مبنی اقدام ان دیگر اقدامات سے مکمل ہماہنگی رکھتا ہے، جو سعودی عرب شام، عراق، یمن اور بحرین کے خلاف انجام دے رہا ہے۔ حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد گروہ قرار دینے کا مطلب درحقیقت اسلامی مزاحمت کے خلاف اسرائیل اور سعودی عرب کی جانب سے آپس میں متحد ہو جانے کا اعلان ہے اور سعودی عرب کی جانب سے مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کیلئے پس پشت ڈال دیئے جانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

ڈیلی الاخبار مزید لکھتا ہے: یہ سعودی اقدام ایسے حالات میں انجام پایا ہے جب سعودی عرب کی جانب سے مسلح ہو کر شام، عراق اور لبنان جانے والے گروہوں کی بڑی تعداد کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے اور سعودی عرب خود کو قانونی فوجی ونگز سے بے بہرہ محسوس کر رہا ہے۔ لہذا سعودی عرب کی کوشش ہے کہ وہ ایسے گروہوں کو بھی دہشت گرد قرار دلوائے، جو خطے میں اس کے رقیب تصور کئے جاتے ہیں، تاکہ آئندہ مذاکرات میں اپنی پوزیشن بہتر بنا سکے۔ لبنان کے باخبر ذرائع کے مطابق جب تک سعودی عرب داعش اور النصرہ فرنٹ جیسے گروہوں کی حمایت کرنے میں مصروف ہے، کسی بھی گروہ کو دہشت گرد قرار دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ سعودی عرب نے وہابی طرز فکر تمام دنیا میں پھیلایا ہے، جبکہ حزب اللہ لبنانی عوام میں محبوبیت اور غاصب صہیونی رژیم سے مقابلے کے باعث مکمل طور پر جائز اور قانونی گروہ جانا جاتا ہے، جبکہ دوسری طرف سعودی عرب دنیا بھر میں جاری دہشت گردی کا حقیقی سرچشمہ سمجھا جاتا ہے۔

ریاض کی جانب سے تل ابیب کی خدمت گزاری:
لبنان کے ڈیلی الدیار کے مطابق انصاراللہ یمن کی سیاسی کونسل نے خلیج تعاون کونسل کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد گروہ قرار دیئے جانے کو سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کی مفت خدمت گزاری قرار دیا ہے۔ اسرائیل کے چینل 1 نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں خلیجی ریاستوں کی جانب سے حزب اللہ لبنان کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنے کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے: عرب دنیا نے حزب اللہ لبنان کے خلاف موقف اپنا کر اپنا موقف اسرائیلی موقف سے نزدیک کر لیا ہے۔ صحیح ہے کہ یہ فیصلہ عجیب نظر آتا ہے، لیکن ہم گذشتہ کچھ عرصے سے اپنے ساتھ ان عرب ممالک کے تعلقات میں گرم جوشی محسوس کر رہے تھے۔ جیسا کہ روس کے خبر رساں ادارے اسپوٹینک نے حال ہی میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اور سعودی انٹیلی جنس سربراہ خالد الحمیدان کی سربراہی میں ایک اعلٰی سطحی وفد کے دورہ اسرائیل کی خبر دی تھی۔ اسرائیل کا چینل ون اپنی رپورٹ میں عرب ممالک کی جانب سے حزب اللہ لبنان کے خلاف موقف اختیار کرنے کو اہم قرار دیتا ہے اور اسے سعودی عرب کی سربراہی میں حزب اللہ لبنان کے خلاف انجام پانے والے اقدامات میں شمار کرتا ہے۔

سعودی عرب کیجانب سے خطے میں اپنے مجرمانہ اقدامات سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کی کوشش:
تعمیر نو فرنٹ لبنان کے سیکرٹری جنرل زہیر الخطیب نے سعودی عرب کے دباو پر خلیج عرب ریاستوں کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد گروہ قرار دیئے جانے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اسے اسرائیلی موقف اور تکفیری دہشت گروہوں کے اغراض و مقاصد کے ہمسو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں نے تکفیری دہشت گرد گروہوں کی پیدائش میں اپنا کردار واضح ہو جانے، مغربی معاشروں میں اپنی حکومتوں پر یمن کے خلاف سعودی جنگی جرائم، غیر انسانی اقدامات کی مذمت اور روک تھام کرنے کے مطالبے کے زور پکڑ جانے کے بعد حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد گروہ قرار دیا ہے، تاکہ اس طرح رائے عامہ کی توجہ اپنے مجرمانہ اقدامات اور غلط پالیسیوں سے منحرف کرسکیں اور خود کو یورپ تک دہشت گردی پھیلانے جیسے الزام سے مبرا قرار دے سکیں۔

سعودی عرب کا حزب اللہ سے انتقام:
لندن سے شائع ہونے والے روزنامے رای الیوم نے اپنی ایک رپورٹ میں یوں لکھا ہے: اس میں کوئی شک نہیں کہ حزب اللہ لبنان سے سعودی عرب کی دشمنی کی اہم وجوہات میں سے ایک شہزادہ عبدالمحسن بن ولید بن عبدالعزیز کی گرفتاری ہے۔ یاد رہے یہ شہزادہ کچھ عرصہ قبل لبنان میں اپنے ذاتی ہوائی جہاز کے ذریعے منشیات اسمگل کرتے وقت لبنان سکیورٹی فورسز اور حزب اللہ لبنان کے کمانڈوز کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا تھا۔ مزید برآں، حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی جانب سے میڈیا پر کھلے عام سعودی عرب کی غلط پالیسیوں پر تنقید بھی سعودی عرب کی دشمنی کا باعث بنی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے حال ہی میں اپنی ایک تقریر میں یمن میں بیگناہ شہریوں کے قتل عام پر سعودی حکام کی پرزور مذمت کی اور کہا کہ سعودی عرب یمن میں اسکولوں، اسپتالوں، مساجد، بازاروں اور دیہاتوں کو اپنے ہوائی حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔ سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا کہ ہم سعودی عرب کے مجرمانہ اقدامات پر مزید خاموش نہیں بیٹھ سکتے اور اگر ہمارا جرم سعودی مظالم کے خلاف خاموش نہ رہنا ہے تو ہمیں اس پر فخر ہے۔ یمنی عوام مظلوم ترین انسان ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 525545
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Noor Syed
Pakistan
شامی جنگجو کس اسلام دشمن ملک میں اپنا علاج کروا رہے ہیں؟ مغربی میڈیا کا تہلکہ خیز انکشاف
23 نومبر 2015 (20:25)
ڈیلی بائیٹس
سڈنی (نیوز ڈیسک) شام میں برسر پیکار حکومت مخالف معتدل جنگجوﺅں کو امریکی حمایت حاصل ہے تو صدر بشارالاسد کی حکومت کو روسی حمایت حاصل ہے، جبکہ روس اور امریکہ دونوں ہی داعش کے مخالف ہونے کا اعلان کرچکے ہیں، لیکن اس جنگ میں اسرائیل جو کردار ادا کر رہا ہے، وہ انتہائی مشکوک ہے کیونکہ یہ ملک چوری چھپے کچھ ایسے جنگجوﺅں کی پشت پناہی کر رہا ہے کہ جو داعش کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں اور شامی صدر بشار الاسد کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں۔
ان عجیب و غریب معاملات کا انکشاف اس وقت ہوا جب میڈیا کمپنی "نیوز کور" کی رپورٹر شیری مارکسن دیگر صحافیوں کے ساتھ اسرائیل کے دورے پر گئیں۔ اخبار دی گارڈین کے مطابق شیری ایک اسرائیلی ہسپتال میں گئیں تو یہ دیکھ کر حیران ہوئیں کہ وہاں کچھ شامی جنگجوﺅں کا علاج کیا جا رہا تھا۔ سکیورٹی اہلکاروں سے نظر بچا کر شیری نے کچھ جنگجوﺅں کے ساتھ گفتگو کی اور ان سے انتہائی اہم معلومات حاصل کیں، لیکن دریں اثناء اسرائیلی سکیورٹی کے اہلکار ان پر جھپٹ پڑے اور انہیں علیحدگی میں لے گئے، جہاں پر ان سے خاصی دیر تک تفتیش کی جاتی رہی۔
مزید جانئے: عراق میں داعش کے تین سعودی رہنماﺅں سمیت 13سعودی جنگجو گرفتار
شیری مارکسن نے آسٹریلیا لوٹنے پر اس واقعے کے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کے ہسپتال میں جن جنگجوﺅں کا علاج کیا ج ارہا ہے، وہ شام میں بشارالاسد اور داعش کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ انہوں نے لکھا ”شامی جنگجوﺅں نے میری تفصیلات حاصل کیں، تاکہ وہ شام لوٹنے پر ایک صحافی کے ساتھ رابطے میں رہ سکیں۔ انہوں نے مجھے اپنے متعلق بھی تفصیلات فراہم کیں۔ اسرائیلی سکیورٹی اہلکار زبردستی پر مائل تھے اور انہوں نے میرے فون اور نوٹ بک میں موجود معلومات کو ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ “
اخبار گارڈین کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں پہلے ہی 1300 شامی جنگجوﺅں کا علاج کیا جاچکا ہے، جن میں سے 533 کا علاج زییو ہسپتال میں کیا گیا۔
http://dailypakistan.com.pk/daily-bites/23-Nov-2015/297339
ہماری پیشکش