2
0
Friday 11 Mar 2016 16:53

سعودی عرب کیجانب سے آرمی چیف کو ملازمت کی پیشکش، پاکستان کے وقار پر حملہ

سعودی عرب کیجانب سے آرمی چیف کو ملازمت کی پیشکش، پاکستان کے وقار پر حملہ
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

یمن کی شکست کی پردہ پوشی کے لئے سعودی اتحاد اب شام کی طرف رجوع کرنے کو پر تول رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روس اور ایران کی مدد سے شامی فوج نے پچھلے کئی ماہ کے دوران کئی محاذوں پر سعودی اور ترکی کے حمایت یافتہ شدت پسند گروہوں کے خلاف فیصلہ کن برتری حاصل کر لی ہے۔ رعد الشمال مشقیں عین اس وقت منعقد کی گئی ہیں جب سعودی عرب یمن سے شام کی جانب توجہ منتقل کرنے کا ارادہ ظاہر کرچکا ہے اور اس مقصد کے لئے سعودی عرب نے اپنے اتحادیوں کا دائرہ بھی وسیع کیا ہے، دہشت گردی کے خلاف اسلامی ملکوں کے اتحاد کے نام سے شام پر حملے کے لئے تشکیل دیئے جانے والے سعودی اتحاد میں پاکستان کو بھی شامل سمجھا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے اس نام نہاد 34 ملکی اتحاد میں غیر عرب ملکوں میں واحد پاکستان ہی قابل ذکر عسکری قوت ہے۔ پاکستان دہشت گردی اور کالعدم تحریک طالبان سمیت مختلف باغی گروپوں کی جانب سے مسلح بغاوت کا شکار ہے۔ جنرل راحیل شریف پاکستان میں سیاسی رہنماوں اور حکمرانوں سے زیادہ مقبول ہیں۔ انہوں نے بطور سپہ سالار دہشت گردی کیخلاف اقدامات کئے ہیں۔ دنیا کے اہم اور مقبول ترین فوجی کمانڈروں کی فہرست میں شامل آرمی چیف سے متعلق یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وہ سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے 34 ملکی فوجی اتحاد کی قیادت کریں گے۔ اس خبر سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ مدت ملازمت ختم ہونے سے پہلے پاکستان کے آرمی چیف نئی ملازمت کی تلاش میں ہیں، جیسے انہیں اپنا کیئریر ملکی وقار، عزت اور خود مختاری سے زیادہ عزیز ہو۔ فی الواقع ایسی خبریں پاک فوج کی ساکھ کو مجروح کرنے کی سازش لگتی ہیں۔

اگر ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی چیف کو حقیقت میں سعودی عرب بھرتی کر لیتا ہے تو عساکر پاکستان کی ساکھ داو پہ لگ جائے گی۔ اس سے پہلے بھی پاکستان کی سعودی دوستوں کے ساتھ قرابت داری گہری ہونے کے باوجود احتیاط اور توازن برقرار رکھنے کی پالسیی اپنائی گئی ہے۔ جیسا کہ دسمبر کے وسط میں جب سعودی عرب کی طرف سے اس اتحاد کا اعلان کیا گیا تو ابتدائی طور پر پاکستان کو نئے اتحاد میں شامل کرنے پر حیرت کا اظہار کیا گیا، دفتر خارجہ نے رسمی طور یہی کہا کہ ریاض نے اسلام آباد کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا۔ فروری کے شروع میں سینیٹ نے بھی یمن اور شام میں فوجی مداخلت کے لئے سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ تعاون کے بارے میں حکومت کو سخت تنبیہہ کی۔ ملکی سیاسی جماعتوں میں سب سے پہلے تحریک انصاف نے اس اتحاد کے حوالے سے شکوک ظاہر کئے، اسے ایران مخالف اتحاد قرار دیتے ہوئے رد کیا اور حکومت کو اس کا حصہ بننے سے باز رہنے کی تجویز دی۔ بعد میں وزیر دفاع کا ایک پالیسی بیان بھی سامنے آیا، جس کا مفہوم یہی تھا کہ ایران کے ساتھ پاکستان کی طویل سرحد ملتی ہے، اس تعلق اور دیگر حقائق کے پیش نظر ایران مخالف کسی مجوزہ اتحاد میں شمولیت پاکستان کے شایان شان نہیں۔

گذشتہ برس جب سعودی عرب اور یمن کے اختلافات بڑھے تو پاکستان نے واضح کر دیا تھا کہ کسی مسلم ملک کے خلاف وہ جارحانہ اقدامات میں شریک نہیں ہوگا۔ پاکستان کی یہ پالیسی اب بھی برقرار ہے۔ البتہ اگر کوئی ملک سعودی عرب کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہوا تو پاکستان اس کے تحفظ کے لئے کسی بھی حد تک جائے گا۔ بہرحال ایک بات کا ہمیں بے حد خیال رکھنا ہوگا کہ ہم ثالثی اور صلح کا حصہ تو بنیں، کسی تنازع کا حصہ نہ بنیں، تاکہ مسلم ممالک کے درمیان تعلقات خراب نہ ہوں۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین جاری تنازع ایسا نہیں کہ طے نہ ہوسکے۔ دونوں داعش کا خاتمہ چاہتے ہیں اور دونوں ہی دہشت گردی کے مکمل قلع قمع کے خواہش مند ہیں۔ ان حالات میں تو ان کے اختلافات پیدا ہونے ہی نہیں چاہئیں تھے۔ بہرحال اختلافات پیدا ہو ہی گئے ہیں تو ان کو ختم کرنے کے لئے پُرامن اقدامات ہونے چاہئیں۔ پاکستان ایک عرصے سے خود دہشت گردی کا شکار ہے اور یہاں گذشتہ تقریباً پونے دو برس سے دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔ علاوہ ازیں کراچی اور بلوچستان میں شرپسندوں کا سر کچلنے کے لئے بھی رینجرز، پولیس اور ایف سی کی کارروائیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ اس لئے دہشت گردی کے خلاف بننے والے 34 ممالک پر مشتمل اتحاد میں ہمارا ملک اقدامات کے سلسلے میں اپنے تجربات کی روشنی میں بہتر مشورے دے سکتا ہے۔ تزویرات، اسلحے اور تربیت یافتہ مین پاور کی فراہمی کے سلسلے میں بھی پاکستان کا کردار دوسروں سے ممتاز ہوسکتا ہے۔ تاہم احتیاط کا تقاضا ہے کہ پاکستان مسلح کارروائیوں میں براہ راست حصہ نہ لے۔

اس مسئلے کا ایک رخ اور بھی ہے، کیا آرمی چیف نہیں جانتے کہ سعودی حکمران کربلا معلٰی، دمشق زینبیہ اور نجف اشرف میں موجود مقامات مقدسہ کا کیا حشر کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی شہنشاہ کی جانب سے پاکستان کے آرمی چیف کو کولیشن کی قیادت کی پیشکش ایسے محسوس ہو رہی ہے، جیسے پاکستان کے ریٹائرڈ فوجیوں کو خلیجی ممالک میں نوکریاں دی جاتی ہیں، کیونکہ دہشت گردی کیخلاف اس قسم کے کردار کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے۔ اگر حرمین شریفین کو درپیش خطرے کی بات کی جائے تو سب سے بڑا خطرہ خود سعودی حکمران ہیں۔ جن سے عراق اور شام کے مقامات مقدسہ کو بھی خطرہ ہے، وہاں ان مقامات مقدسہ کی حفاظت کی خاطر اسلامی جمہوری ایران کے جرنیل اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ نشان حیدر کو اعلٰی ترین فوجی اعزاز کا درجہ دینے والے ملک کی فوج کے سپہ سالار کو بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، بنت حیدر کرار سلام اللہ علیہا اور شہید کربلا امام حسین علیہ السلام، شیر خدا مولا علی علیہ السلام کے مزارات کی بے حرمتی کرنیوالے سعودی حکمرانوں کیخلاف علم جہاد بلند کرنا چاہیے۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے نام پہ جو مشقیں سعودی عرب میں اختتام پذیر ہوئی ہیں، یہ دراصل شام، عراق اور یمن کی صورتحال کو مدنظر رکھ کر کی جا رہی ہیں۔ اس تناظر میں پاکستانی افواج اور سیاسی و عسکری قیادت کی مشقوں میں شرکت پاکستانی مفادات کی عکاس نہیں۔ اس سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ نے جو کچھ کہا، وہ بیان بازی ہت تھی، کیونکہ اس سے بڑھ کر پاکستان کی طرف سے کوئی ٹھوس ثبوت اس حوالے سے ابھی تک سامنے نہیں آئے۔ اس صورتحال کو دوہری پالیسی سے تعبیر کیا جائے گا۔

جہاں پاکستان سعودی عرب کی ناراضگی سے بھی ڈرتا ہے اور ایران کے ساتھ اپنے معاملات کو خراب بھی کرنا نہیں چاہتا۔ معاصر دنیا میں یہ پوزیشن کوئی نئی چیز نہیں، متعدد مواقع پر کسی ملک کے دو دوست ملکوں کے مابین چپقلش کی صورتیں پیدا ہوئی ہیں اور ان ملکوں نے اپنی غیر جانبدارانہ پوزیشن کو قائم رکھا ہے۔ سعودی ایران تنازعے میں پاکستان کو بھی اپنی غیر جانبداری ثابت کرنا ہوگی۔ یہ غیر منطقی تو ہوسکتا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانیوالے 34 ممالک کے فوجی اتحاد کی قیادت کے لئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سعودی حکومت ملازمت دے، لیکن پاکستانی قیادت کی سعودی شہنشاہوں کی دعوتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بعید بھی نہیں۔ لیکن پھر بھی امید رکھنی چاہیے کہ پاکستان کی عسکری قیادت کی ایران اور سعودی عرب سے متعلق پالیسیاں جس طرح نیوٹرل پوزیشن میں موجود ہیں، وہ اسی طرح برقرار رہنگی اور اس عہدہ کے سبب پاک فوج کی پالیسیوں میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ ایران چونکہ اِس اتحاد میں شامل نہیں، اِس لئے اس تاثر کو دور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ اتحاد ایران کے خلاف کوئی سرگرمی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، بنیادی طور پر اس اتحاد کا مقصد رُکن ملکوں کو دہشت گردی سے بچانا ہے۔

اُمہ کے مفاد کا تقاضا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات ازسر نو پہلی پوزیشن پہ آجائیں، اِس سلسلے میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے، اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات انتہائی قریبی، دوستانہ اور برادرانہ ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون موجود ہے۔ انہوں نے ایرانی سفیر کو آگاہ کیا کہ پاکستان خطے میں قیام امن کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرے گا۔ پاکستان کے سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ قریبی برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہیں، اپنی اِسی حیثیت کو کام میں لا کر پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کی کوششیں کی تھیں، وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے دورۂ سعودی عرب کے دوران پاکستان کی اہمیت مزید اُبھر کر سامنے آئی ہے۔ ایرانی صدر کا دورہ بھی خطے میں پاکستان کی اہمیت میں مزید اضافہ کرے گا، اِس لئے امید کرنی چاہئے کہ پاکستان مسلم اُمہ کے مفاد میں اپنی پالیسیاں جاری رکھے گا اور تنازعات کے حل میں اپنا مثبت قائدانہ کردار ادا کرنا رہے گا۔ سعودی عرب خود خطے کے غریب اور کمزور ملکوں میں مداخلت کا مرتکب ہے اور کئی جنگوں اور شورشوں کا سرپرست ہے۔ یہ صورتحال اگر سعودی مملکت کے استحکام کے لئے خطرات کا موجب بنتی نظر آئے تو پاکستان کے لئے واجب ہے کہ سعودی عرب کو خطرات کی شدت سے درست طور پر آگاہ کرے۔ سعودی شہنشاہ کی جانب سے پاکستان کے آرمی چیف کو سعودیہ کی قیادت میں بننے والے کولیشن میں بھرتی کرنے کا تقاضا مملکت خداد پاکستان کے وقار پر حملے کے مترادف ہے۔
خبر کا کوڈ : 526655
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

فدا حسین بالہامی
India
نشان حیدر کو اعلٰی ترین فوجی اعزاز کا درجہ دینے والے ملک کی فوج کے سپہ سالار کو بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، بنت حیدر کرار سلام اللہ علیہا اور شہید کربلا امام حسین علیہ السلام، شیر خدا مولا علی علیہ السلام کے مزارات کی بے حرمتی کرنیوالے سعودی حکمرانوں کیخلاف علم جہاد بلند کرنا چاہیے۔
بہت خوب معلومات سے بھرپور تجزیاتی مضمون ہے، خدا جزائے خیر دے۔
Ahsan
United Kingdom
Saudis try to weigh everything in Reyals.

Such offer is a slap on face of Pak Army
ہماری پیشکش