0
Sunday 13 Mar 2016 11:11

سیاست ۔۔۔ اسلام کی حریف یا رفیق

سیاست ۔۔۔ اسلام کی حریف یا رفیق
تحریر: ابراہیم صابری

اسلامی دنیا میں علمائے اسلام کا طرز زندگی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ علماء سے سیاست کا کوئی تعلق نہیں، علماء فقط نماز پڑھائیں، لوگوں کو اذان دینا سکھائیں، تجوید پڑھائیں، نکاخ کے صیغے پڑھیں اور اگر کوئی دنیا سے رخصت ہو جائے تو  زیادہ سے زیادہ اس کا نماز جنازہ پڑھائیں۔ علاوہ ازیں اگر محلے والے کسی کام کے لئے چندہ مانگنا چاہتے ہوں تو چندے کے لئے حدیث یا آیت کا بتانا بھی علماء کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم علماء کے جوتے پالش کرنے بلکہ سر پر اٹھانے کے لئے تیار ہیں، لیکن خدا را علماء میدان سیاست سے نکل جائیں، اس میدان کو صرف ہمارے لئے چھوڑ دیں۔

بہرحال آیئے اب اس مسئلے کو حقائق کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ہر نبی اپنے دور میں ایک عالم، پیش امام، ایک مبلغ، ادیب اور ایک بہترین سیاستدان تھا۔ جب یہ بات واضح ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ علماء کو انبیاء سے جو ارث ملی ہے، اس میں سیاست بھی شامل ہے۔ وہ لوگ جو دین کو سیاست سے جدا سمجھتے ہے، اگر وہ سمجھنا چاہیں تو ان کے لئے عرض ہے کہ پیغمبر اسلام بھی ایک بہترین سیاستدان تھے، پیغمبر اسلام فقط مبلغ نہیں تھے۔

علامہ اقبال کے نزدیک بھی دین اور سیاست کی جدائی کا نتیجہ چنگیزی ہے۔ حضرت امام حسن مجتبیٰ ؑ سے کسی نے پوچھا کہ سیاست کیا ہے۔؟ امام نے جواب میں فرمایا: سیاست خدا کے حقوق، زندہ لوگوں کے حقوق اور مردہ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کا نام ہے، خدا کے حقوق یہ ہیں کہ جس بات کا حکم دے، اس کو انجام دیا جائے اور جس سے منع کرے، اس سے پرہیز کریں، زندہ لوگوں کے حقوق یہ ہیں کہ لوگوں سے متعلق جو فرائض ہیں، ان کو انجام دیا جائے، ان کی خدمت کی جائے، قائد اسلامی سے مخلص رہا جائے، جب تک کہ وہ خدا سے مخلص ہے اور جب وہ منحرف ہوجائے تو اسکے خلاف آواز بلند کرنا۔ مردہ لوگوں کے حقوق یہ ہیں کہ ان کی خوبیوں کا ذکر کرنا اور ان کی برائیوں کو یاد نہ کرنا، کیونکہ خدا انکے اعمال کی باز پرس کے لئے موجود ہے۔ اب ہم امام حسن کے اس فرمان کو غور سے پڑھیں تو ہم پر واضح ہوجائے گا کہ علماء ہی بہترین سیاستدان ہیں۔

اور ہم دیکھیں کہ امام جعفر صادق ؑ کے زمانے میں بنی امیہ اور بنی عباس اقتدار کی جنگ میں مصروف تھے، اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ اور آپ کے والد بزرگوار حضرت امام محمد باقر ؑ نے اسلامی تعلیمات کو پھیلانا شروع کیا اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ دونوں نے اس زمانے میں پہلی اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ اس یونیورسٹی کا مقصد خالص اسلام کی ترویج تھا، اس کے ساتھ ساتھ امام صادق ؑ نے اپنے زمانے کے خلیفہ کو یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ حکومت اور معاشرے کی رہبری ہمارا حق ہے۔ امام جعفر صادق ؑ نے منصور دوانیقی کے زمانے میں جبکہ بنی عباس اپنی حکومت قائم کرچکے تھے، لیکن حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے ہر مخالف کو تہہ تیغ کر رہے تھے، حضرت ؑ نے اس وقت بھی اپنے اقوال کے ذریعے سے خلیفہ تک یہ بات پہنچائی کہ حکومت اور معاشرے کی قیادت ہمارا حق ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امام نے ان شعیان کو جو ظلم و ستم کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے تھے کہ حکومت کوئی الگ چیز ہے اور دین ایک دوسری چیزی، ان کے لئے بھی یہ واضح کر دیا کہ حکومت حق ولایت ہے۔ اب ہم یہاں ذرا بھی غور فکر کریں تو ہمیں یہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی کہ سیاست سے علماء کا تعلق ہے یا نہیں۔

آگے جا کے ہم دیکھیں تو آئمہ ؑ کی زندگی میں بھی ایک قطعی اور مشترک اصول جو کہ تمام زاویوں سے نظر آتا ہے، وہ سیاست میں شرکت کرنا ہے۔ المختصر یہ کہ آئمہ معصومینؑ کی زندگیوں کو سیاست سے جدا کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اسی لئے امام خمینی ؒ فرماتے ہیں کہ ”خدا کی قسم اسلام پورے کا پورا سیاست ہے، اسلام کو غلط طریقہ سے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔" امام خمینیؒ کی قیادت اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اگر معاشرے کی سیاسی رہنمائی علمائے اسلام کے ہاتھوں میں آجائے تو  پوری دنیا کا نقشہ ہی تبدیل ہو جائے گا، لیکن اگر معاشرے کی سیاسی قیادت مغرب زدہ لوگوں اور دین سے عاری افراد کے ہاتھوں میں چلی جائے تو اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو آج ہم سب کے سامنے ہے۔
خبر کا کوڈ : 527195
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش