0
Friday 18 Mar 2016 22:48

ماسکو، تہران، انقرہ

ماسکو، تہران، انقرہ
تحریر: سعداللہ زارعی

سیاسی ماہرین ترکی کے وزیراعظم داود اوگلو اور روسی صدر کے خصوصی ایلچی بوگدانوف کے ایک ہی وقت تہران آنے کو "انتہائی اہم" قرار دے رہے ہیں۔ بعض سیاسی ماہرین شام کے بحران کو مدنظر قرار دیتے ہوئے اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان دوروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہران شام کے حق میں علاقائی سطح پر ایک توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ایسا کردار صرف ایران ہی ادا کر سکتا ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

1)۔ شام کے بارے میں ایران اور ترکی کے درمیان ماضی کے اختلافات کے پیش نظر داود اوگلو کا حالیہ دورہ تہران اس اہم ایشو کے بارے میں دونوں ممالک کے موقف میں قربت کی علامت ہے۔ ترک وزیراعظم نے تہران سے واپسی پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترکی ایران کے ساتھ مل کر شام میں جاری "برادرانہ جنگ" کے خاتمے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترکی ہر ایسے منصوبے کا مخالف ہے جس کا نتیجہ شام کی تقسیم کی صورت میں نکل سکتا ہو۔ اگرچہ پورے یقین سے نہیں کہا جا سکتا، لیکن موجودہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترک حکومت نے شام کے مسئلہ میں مثبت کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ترک وزیراعظم کی جانب سے شام کی تقسیم کی مخالفت اور موجودہ شام حکومت کو قانونی قرار دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی اپنے اس موقف کو ترک کرنے کا ارادہ کرچکا ہے، جس پر خود ترکی میں ہی شدید تنقید شروع ہونا شروع ہوگئی تھی۔

2)۔ ترک وزیراعظم کا دورہ تہران ایسے منصوبوں پر کاری ضرب تھی جو حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بعض بڑی طاقتوں کی جانب سے پیش کئے گئے تھے۔ لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایسے حالات میں جب سیاسی ماہرین یہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ اور روس میں مفاہمت کے باعث ترکی گوشہ نشین ہوچکا ہے، داود اوگلو کے دورہ تہران نے ثابت کر دیا کہ انقرہ اپنے قومی مفادات کو درپیش خطرات دور کرنے میں بے بس نہیں۔ داود اوگلو کی جانب سے واضح انداز میں اس بات کا اعلان کہ مسئلہ شام سے متعلق اہم ایشوز، جیسے شام کی تقسیم کی مخالفت پر ایران اور ترکی میں اتفاق رائے پیدا ہوچکا ہے۔ یہ امر شام کے مسئلے کے حل اور ترکی کی سکیورٹی صورتحال میں بہتری میں انتہائی موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ ترکی اور ایران میں پیدا ہونے والے اتفاق رائے کا مطلب امریکا اور روس کے درمیان ممکنہ خفیہ مفاہمت سے مقابلے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک بار پھر علاقائی سیاست عالمی سیاست پر برتری حاصل کرچکی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایرانی حکام کی جانب سے ایک بار پھر شام مسئلے کے راہ حل کے سیاسی ہونے اور خالصتاً شامی ہونے پر زور دیئے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہران عالمی سطح پر اپنائی جانے والی سیاست سے متاثر ہو کر اپنے اتحادی کی حمایت سے غفلت کا شکار نہیں ہوا۔

3)۔ دوسری طرف ترک وزیراعظم داود اوگلو کا دورہ تہران، ترکی کی جانب سے شام سے متعلق سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے موقف سے دوری اختیار کرنے کی واضح علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر سمیت تمام سعودی حکام صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے طاقت کے استعمال پر زور دے رہے ہیں، جبکہ ایک خبر ایسی بھی ملی ہے کہ سعودی جنگی طیاروں نے شام کی حدود میں داخل ہو کر بمباری کی ہے۔ اگرچہ ترکی کے وزیراعظم نے تہران سے واپسی پر اعلان کیا ہے کہ وہ بدستور شام کے بارے میں سعودی موقف کی حمایت کرتا ہے، لیکن سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس نے تہران میں ایسے معاہدے پر دستخط کئے ہیں، جس کی رو سے موجودہ شام حکومت کو قانونی قرار دیا گیا ہے اور صدر بشار الاسد کے اقتدار میں رہنے پر تاکید کی گئی ہے۔

اس سے پہلے جب ترک وزیراعظم نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا تو اکثر ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ انہوں نے سعودی عرب کے تمام مطالبات مان لئے ہیں۔ اسی طرح ایک ترک حکومتی عہدیدار نے یہ خبر بھی دی کہ سعودی جنگی طیارے انجرلک ہوائی اڈے پر پہنچ چکے ہیں، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے۔ دوسری طرف ترکی اور ایران میں معاہدہ طے پاچکا ہے اور یہ معاہدہ تہران اور انقرہ کے درمیان وسیع تر تعاون کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی بنیاد پر ترکی کے بعض سیاسی حلقوں نے دورہ تہران کے دوران ترک وزیراعظم کے ساتھ 160 تاجروں پر مشتمل وفد کی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران – انقرہ تعلقات تیزی سے بہبودی کی جانب گامزن ہیں اور عنقریب دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت 30 ارب ڈالر تک جا پہنچے گی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ترکی کے تجارتی اور سیاسی وفود کو ایران آنے کی اجازت دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کی طرف سے بھی ترکی کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور دو طرفہ تجارت میں اضافہ کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔

4)۔ لیکن واضح ہے کہ ایران مختلف آپشنز میں سے ایک کو چننا نہیں چاہتا اور ایسا کرنے کی کوئی خاص وجہ بھی نہیں۔ ایران اپنے دونوں بڑے ہمسایہ ممالک یعنی روس اور ترکی کے ساتھ گرمجوش تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے۔ اسی طرح ایران کی خواہش ہے کہ ان دونوں ہمسایہ ممالک کے باہمی تعلقات بھی حسن رواداری پر استوار ہوں۔ تہران بارہا اس بات کا اظہار کرچکا ہے کہ وہ ماسکو سے اپنے تعلقات کی اہمیت اور قدر کو جانتا ہے، لہذا گذشتہ چند برس خاص طور پر گذشتہ دو سالوں کے دوران ایران کے مختلف وفود روس کا دورہ کرچکے ہیں جبکہ دوسری طرف روس کے صدر اور دیگر اعلٰی سطحی روسی حکومتی عہدیدار بھی کئی بار ایران آچکے ہیں۔ بعض ایران مخالف عناصر نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ایران نے ایسے وقت ترک وزیراعظم داود اوگلو کو ایران آنے کی اجازت دے کر جب ایران اور روس کے درمیان شام میں جنگ بندی کے ٹائم ٹیبل، وسعت اور شرائط پر اختلافات پائے جاتے ہیں، روسی حکام کو یہ یاد دہانی کروانے کی کوشش کی ہے کہ ایران ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر تحفظات کا شکار ہے اور شام پر اس کے منفی اثرات سے چشم پوشی نہیں کرسکتا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ شام میں جنگ بندی کی کیفیت کے بارے میں ایران اور روس کے درمیان اختلافات اس قدر شدید نہیں کہ تہران روس سے انتقام لینے کا ارادہ کرے۔ دوسری طرف بعض روسی حکام کا موقف ظاہر کرتا ہے کہ ماسکو تہران سے معاہدات کی اسٹریٹجک اہمیت سے بخوبی واقف ہے اور دونوں ممالک میں موجود اعتماد کی فضا کو دھچکہ پہنچانا نہیں چاہتا۔ روسی صدر پیوٹن کی جانب سے شام میں فیڈرل نظام کے نفاذ سے متعلق وضاحت دیئے جانا اور شام میں صدر کے انتخاب میں بیرونی قوتوں کی عدم مداخلت پر بارہا تاکید اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ روس ایران کے ساتھ انجام پائے معاہدے کا پابند ہے۔ روس کے نائب وزیر خارجہ میخائل بوگڈانوف نے حالیہ دورہ ایران کے دوران ایرانی حکام کو یقین دہانی کروائی کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے مکمل خاتمے سے قبل شام میں مناسب سیاسی نظام کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا اور یہ ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں حتمی فیصلہ شام میں امن و امان بحال ہونے کے بعد خود شامی گروہ ہی کریں گے۔

5)۔ امریکی حکام نے شام کے بارے میں "بی پلان" کا اعلان بھی کیا، جس کا مقصد شام حکومت پر دباو بڑھانا، ایران اور روس میں فاصلہ ڈالنا اور ایک وقت میں ایران اور روس کی طاقت کو دھچکہ پہنچانا تھا۔ امریکی "بی پلان" درحقیقت شام کی تقسیم پر مبنی ہے اور اس ملک کی موجودہ جغرافیائی حدود میں تبدیلی پر مشتمل ہے۔ اس پلان کے تحت شام کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور شام کے جنوب، مرکز، مشرق اور شمال مغرب میں چار نئی ریاستوں کا قیام عمل میں لائے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ترک وزیراعظم داود اوگلو کا یہ بیان کہ ہم 100 سال سائیکس – پیکو معاہدے کا درد برداشت کرنے کے بعد اب کسی نئے سائیکس – پیکو معاہدے کی اجازت نہیں دے سکتے، ظاہر کرتا ہے کہ بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے "بی پلان" کے بارے میں کہی جانے والی باتوں میں کچھ حد تک حقیقت ضرور پائی جاتی ہے۔

6)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شام جنگ بندی کا محتاج ہے، لیکن اس جنگ بندی کا مقصد ایسے دہشت گرد عناصر کو اپنی طاقت کی بحالی کا موقع دینا نہیں ہونا چاہئے جنہوں نے گذشتہ چار برس سے شام کے امن و امان کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ حلب کے جنوبی اور مغربی حصوں میں وقت سے پہلے اعلان شدہ جنگ بندی میں اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا، جس کی وجہ سے یہ خطرہ موجود ہے کہ دہشت گرد عناصر موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آزاد شدہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کریں۔

7)۔ ترک وزیراعظم کا دورہ ایران خطے میں امن و امان اور سیاسی استحکام کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ جیسا کہ ترکی کے وزیر خارجہ چاوش اوگلو نے اعلان کیا ہے کہ ایران کے ساتھ اتفاق رائے کا حصول خطے میں جاری فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خاتمے میں موثر ثابت ہوگی۔ یہ موقف ایران اور روس کے درمیان فوجی معاہدے کے بعد شام کے مسئلے کے حل کیلئے دوسرا قدم شمار کیا جا رہا ہے۔ البتہ حلب میں النصر 2 آپریشن کی کامیابی نے خطے کے ممالک کو نئی صورتحال کے پیش نظر نیا موقف اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 528279
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش