0
Saturday 19 Mar 2016 00:40

اسلامی معاشرہ ۔۔۔ خواتین کی معاشرتی صورتحال

اسلامی معاشرہ ۔۔۔ خواتین کی معاشرتی صورتحال
تحریر: سید قمر عباس حسینی

ہمیں مسلمان ہونے کے ناتے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پیغمبر اسلام ﷺ اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے۔ ان کے لئے چادر بچھا دیا کرتے تھے۔ ان کے حقوق کا پورا خیال رکھتے تھے۔ ان کو خاص اہمیت دیتے تھے، ان سے مشورہ فرماتے، ان کی رائے کو خاص اہمیت دیتے، غرضیکہ عزت، حمیت، عصمت اور حقوق جیسے سارے الفاظ دین اسلام نے عورت کے لئے مخصوص کر دیئے ہیں، جو بدقسمتی سے ہمارے ہاں ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ بقدرِ ضرورت دینی تعلیمات سے بُعد اور مغربی تعلیمات سے قرب نے مسلمان خواتین کو امورِ خانہ داری انجام دینے کے بجائے، آفس، ہوٹلوں اور ہسپتالوں میں (Reception) رسپشن کی زینت بنا دیا ہے، دینی تعلیمات سے صرفِ نظر نے پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے بدلے، لڑائی جھگڑے کے طور طریقے سکھلا دیئے۔ الغرض اسلامی زندگی کے جس موڑ پر آپ اسلامی روح کو تڑپتے ہوئے دیکھیں گے، اس کا نتیجہ دینی تعلیمات کا زندگی میں نہ ہونا پائیں گے، خواتین کو بازاروں، دفتروں اور ہوٹلوں  کی زینت بنا کر ان کا جائز اور فطری حق چھین لیا گیا ہے۔ تعلیمات اسلامی کے مطابق ان کی دو ذمہ داریاں ہیں: ایک اپنے شوہر کی تابع داری اور دوسری اپنے بچوں کی پرورش۔ لیکن ان اسلامی اصولوں پر پابندی کا موقع آئے تو کہتے ہیں سلب آزادی۔

اسلام نے عورت کو شہزادی کی حیثیت دی ہے، پورا معاشرہ باپ، بیٹا، شوہر، بھائی اور دیگر احباب اسکی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دنیا کی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، موسم کا بدلاؤ، دنیا کی تلخ و سخت باتیں اور بہت کچھ برداشت کرتے ہیں، تاکہ اپنی شہزادی کی خواہشات کو پورا کرسکیں اور اسکو دنیا کی تلخی کا اندازہ بھی نہ ہو۔ لیکن  کتنا بڑا المیہ ہے کہ آج کی عورت چاہتی ہے کہ نوکر بن کر کام کرنے لگے اور جو مشکلات مرد اٹھاتا ہے وہی وہ اٹھانے لگے اور اسی کو آزادی کہتی ہے۔ ایک بیٹی، رحمت اسی وقت بن سکتی ہے جبکہ اس کا قلب اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور ہو، وہ فاطمی کردار و گفتار کی پیکر ہو، ایک عورت، مرد کے لئے شریکِ حیات کی شکل میں، روحِ حیات اور تسکینِ خاطر کا سبب اسی وقت بن سکتی ہے، جبکہ اس کا دل سیرتِ خدیجہ سے سرشار ہو، وہ ایک مشفق اور ہر درد کا درماں، مصائب کی گرم ہواؤں میں، نسیم صبح کی صورت میں ”ماں“ اسی وقت ثابت ہوسکتی ہے؛ جبکہ اس کی گود بچے کے لئے پہلا اسلامی مکتب ثابت ہو۔

مغربی تہذیب و تمدن کی تقلید نے پورے معاشرے کو بے حیا بنا دیا ہے اور بےحیائی عورت سے عزت اور مرد سے غیرت چھین لیتی ہے، جب غیرت نہ رہے تو قوم تباہ ہو جاتی ہے۔ مغربی طاقتیں پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان پر ہر طرف سے تہذیبی، تمدنی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی حملے کر رہے ہیں اور ہمارے دانشمند اسے Modern Age کے تقاضے سمجھ کر چشم پوشی فرما رہے ہیں۔ آج بے حیائی نے ہمارے بچوں کے دلوں سے ادب و احترام کا جذبہ ختم کر دیا ہے۔ آج بچے اپنے والدین کا احترام نہیں کرتے تو کہاں کسی بزرگ کا احترام کریں گے۔ یورپ اور مغربی کلچر کا یہ بھوت اور ناسور ہمارے معاشرے میں اتنی تیزی کے ساتھ سرایت کر رہا ہے کہ اس پر قدغن لگانا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔ آج گلگت بلتستان کے معاشرے میں بھی مغرب کی طرح ہماری بیٹیوں کا لباس، ان کی مخلوط تعلیم، ان کا آزادانہ پارکوں کی سیر کرنا، موبائل فون اور نیٹ کا غلط استعمال، نیم عریاں لباس زیب تن کرنا، بازاروں اور دوکانوں میں آزادانہ گھومنا عام ہوچکا ہے۔

آج دینی تعلیم کی ضرورت جتنی مردوں کو ہے، اس سے کہیں زیادہ عورتوں کو ہے، عورت کا قلب اگر دینی تعلیمات سے منور ہو، تو اس چراغ سے کئی چراغ روشن ہوسکتے ہیں، وہ دیندار بیوی ثابت ہوسکتی ہے، وہ ہر دل عزیز بہو بن سکتی ہے اور نیک اور شفیق ساس ہوسکتی ہے، وہ اپنے بچوں کی معلم اوّل ہوسکتی ہے، وہ خاندانی نظام کو مربوط رکھ سکتی ہے، معاشی تنگی کو خوش حالی سے بدل کر معاشی نظام مضبوط کرسکتی ہے، وہ شوہر کے مرجھائے اور افسردہ چہرے پر گل افشانی کرسکتی ہے، میخانے کو مسجد اور بت خانے کو عبادت خانہ بنا سکتی ہے، اولاد کو دولت ایمان سے سرشار کرسکتی ہے۔ اگرچہ دنیا بھر کی طرح گلگت بلتستان اسمبلی میں بھی 18 فیصد سیٹیں خواتین کے ساتھ مختص  ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ حقوق نسواں کے نام پر اسمبلی نشستوں پر براجمان خواتین کو معاشرے میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے استحصال کا کوئی علم نہیں ہے۔ خواتین کے حقوق کے سلسلے میں بلند و بانگ نعرے لگانے والے جا کر حلقہ نسوان میں ان کے ساتھ ہونے والے بدسلوکیوں کا کم از کم جائزہ تو لیں، تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ایوانوں میں نشستیں مختص کرنے سے عام عورتوں کو کوئی فائدہ نہیں ملتا۔

سب سے بڑا ظلم یہی ہے کہ انہیں آزادی کے نام پر گھروں سے بے گھر کر دیا گیا ہے۔ عورتوں کے ذہن میں بٹھا دیا گیا ہے کہ نوکری کرنا زندگی کا اعلٰی معیار ہونے کی دلیل ہے اور یوں عورت نام نہاد آزادی کی حصول کے لئے سرگردان ہوچکی ہے۔ اس سلسلے کی ابتدا  1760ء میں برطانیہ کے صنعتی انقلاب سے ہوئی، جب برطانیہ کا صنعتی انقلاب اپنےعروج پر پہنچا تو انہیں جس بہت بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا وہ تھی افرادی قوت کی کمی۔ اب ان کے پاس مشینیں بھی بےحساب تھی اور وسائل بھی، مگر انکو چلانے اور ان وسائل کو بروئےکار لانے کے لئے لوگ موجود نہ تھے۔ انہوں نے اپنی پیداوار کی طلب کو پورا کرنے کے لئے گھروں میں بیٹھی اولاد کی تربیت میں مصروف خواتین کو آزادی نسواں کے نام پر گھروں سے باہر لا کر فیکڑیوں میں کام پے لگا دیا۔ مغرب اپنی خواتین کو گھروں سے نکال کر جنسی حیوان بنا چکا ہے اور آج ہم بھی مغرب کی تقلید میں اسی راہ پر چل پڑے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم واپس پلٹ جائیں۔ بصورت دیگر شاید آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
خبر کا کوڈ : 528302
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش