0
Sunday 20 Mar 2016 19:25

حکمرانوں کی ادنٰی سی کرپشن

حکمرانوں کی ادنٰی سی کرپشن
رپورٹ: آئی اے خان

وطن عزیز پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اس پہ مسلط حکمرانوں کے دامن ہمیشہ ہی اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ، رشوت، ناجائز مراعات کے حصول، یہاں تک کہ پاکستان دشمنوں کے ساتھ مالی و ذاتی مفادات کی شراکت داری سے داغدار نظر آئے ہیں۔ حکمرانوں کی اس روش کا عمومی شکار قومی خزانہ، عوام اور ادارے بنے ہیں۔ حکمرانوں نے ہمیشہ ہی شخصی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داخلی و خارجی سطح پر ملک کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شریف برادران کو پاکستان پہ سب سے زیادہ مرتبہ حکمرانی کا اعزاز حاصل ہے، جبکہ پنجاب میں عرصہ حکمرانی انہی کا سب سے زیادہ ہے۔ چنانچہ قومی اداروں میں جہاں جہاں انتظامی غفلت کے باعث خرابیاں موجود ہیں، اس غفلت کی ذمہ داری موجودہ حکمرانوں پر بالواسطہ یا بلا واسطہ عائد ہوتی ہے۔

جمہوری طرز حکومت میں وزیراعظم، وزیراعلٰی ریاست یا صوبے کا منتظم اعلٰی تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے موجود حکمران اچھے منتظم اعلٰی ہیں، جس کی تصدیق ان کے اندرون و بیرون ملک پھیلے وسیع کاروبار اور اس سے حاصل شدہ منافع کی شرح سے ہوتی ہے، کیونکہ اگر یہ اچھے منتظم اعلٰی نہ ہوتے تو ان کے اپنے ذاتی کاروبار بھی انہی مسائل کا شکار ہوتے، جن مسائل کا شکار پاکستان کے قومی ادارے ہیں۔ جیسے کہ پی آئی اے۔ پی پی دور حکومت میں موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے ببانگ دہل یہ دعویٰ کیا تھا کہ جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو خسارے کا شکار یہی پی آئی اے، منافع اگلنے لگے گی، مگر بعد ازاں دنیا نے دیکھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد نجکاری کے نام پر اسی پی آئی اے کو سب سے پہلے بیچنے کی کوشش کی گئی۔

قومی ادارے کی نجکاری کے اشتہارات اخبارات میں شائع ہوئے، یہ باور کرایا گیا کہ ملازمین کی وجہ سے خسارہ ہو رہا ہے، مگر کچھ ہی عرصے میں روز ویلٹ ہوٹل کی انتہائی کم قیمت پر فروخت کی کوشش کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد حقائق سے پردے الٹتے چلتے گئے۔ پاکستان ائیر لائن کسی دور میں دنیا کی چوٹی کی ائیر لائن تھی اور تب بھی وہ پرائیویٹ نہیں بلکہ پبلک سیکٹر میں ہی لاجواب سروس بھی تھی۔ جس میں باکمال لوگ سفر کیا کرتے تھے۔ برصغیر تو کیا پورے براعظم ایشیا میں پہلے سفری جیٹ، پہلے بوئنگ اور جدید بوئنگ کا استعمال پی آئی اے کا اعزاز ہے۔ چین، نیپال، امارات، اتحاد، سنگاپور، سعودی عرب، مالٹا، لیبیا، سوڈان، کینیا، صومالیہ، ملائشیا، کویت اور عراقی ائیرلائنز کے قیام میں پی آئی اے کا کلیدی کردار رہا ہے۔ پی آئی اے کی تنزلی کی کہانی نوے کی دہائی سے شروع ہوتی ہے۔ جس کے تحت سفری اور تجارتی حقوق کے ساتھ نجی ائیرلائنز کیلئے پاکستان کی فضاوں کو کھول دیا گیا۔

انتظامی امور میں شفافیت کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ پی آئی اے کے دو سابق ڈائریکٹرز خاقان عباسی، شجاعت عظیم نے اپنی ائیر لائنز بنالیں، جبکہ پی آئی اے مسلسل زوال کا شکار رہی ہے، جبکہ ائیر بلیو اور رائل ائیر کا شمار بہترین اور منافع بخش اداروں میں ہوتا ہے۔ رائل ائیر کے پاس گراونڈ سروزز کے تمام ٹھیکے بھی ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر غیر ضروری بھرتیوں نے ادارے کو شدید نقصان سے دوچار کیا۔ آج مٹھی بھر مینیجمنٹ گھر بیٹھی تنخواہوں اور مراعات کی مد میں اربوں روپیہ حرام کر رہی ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق سالانہ اکتہر ارب روہے کا خسارہ ان سپیئر پارٹس کی خریداری کے باعث ہے جو ایمرجنسی میں خریدے گئے، مگر سارا سال استعمال نہیں ہوئے اور ان سے متعلق طیارے قومی ائیر لائن کے پاس سرے سے ہیں ہی نہیں۔ تقریباً اکیاسی ملین روپے ایک ایم ڈی کو معاف کر دیئے گئے۔ بزنس پلان تیس سے زائد طیاروں کو مدنظر رکھ کے ترتیب دیا جاتا رہا جبکہ فقط اٹھارہ طیارے آپریشنل ہیں۔

یورپی یونین نے سیفٹی کے مسائل کے باعث تمام ملکوں کیلئے پی آئی اے پر پابندی لگائی، جو کہ کئی مہینے برقرار رہی۔ فضائی سیفٹی ایجنسی نے بھی پی آئی اے کی مینٹیننس اپروول خارج کی جو کہ کثیر جرمانہ ادائیگی کے بعد بحال ہوئی۔ ایسے جمبو طیارے خریدے گئے جن کے انجن ہی نہیں تھے۔ بعد ازاں ان کے انجن مہنگے خرید کر منٹیننس کے نام پر کثیر رقم ہڑپ کی گئی۔ بڑے جمبو طیاروں کو شارٹ روٹس پر چلایا گیا، جو کہ نقصان کا باعث بنا۔ ایک ایم ڈی کی بیٹی کی نوزائیدہ کمپنی کو فائدہ دینے کیلئے ہر طیارے کی دم پر نئے ڈیزائن بنائے گئے اور کروڑوں کی ادائیگی کی گئی۔ بے نظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر دو دفعہ دو سو ارب خرچے گئے۔ اسلام آباد ائیر پورٹ کی لاگت کا تخمینہ تیس سے بڑھ کر سو ارب تک پہنچایا گیا اور پھر وزیراعظم کی نواسی کے داماد کو ٹھیکہ بخشا گیا، سیدھا سیدھا ستر ارب کی پاکستان نے وزیراعظم کے داماد کو سلامی دی۔

لاہور ائیر پورٹ پر دھند میں روشنی کے نظام کی تنصیب جس کی اصل لاگت پانچ ملین تھی، وہ پچیس ملین ڈالر میں لگائی گئیں، پھر بھی کوئی ائیر لائن دھند میں جہاز اتارنے کو تیار نہیں۔ راتوں رات صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قومی ائیر لائن کو پرائیویٹ کمپنی میں تبدیل کرکے تمام نفع بخش قومی و بین الاقوامی روٹس اتحاد اور عرب ائیر لائن کو کوڑیوں کے مول بیچ دیئے گئے۔ قومی ائیر لائن کو پرائیویٹ کمپنی میں بدل کے بیچنے کا اکلوتا مقصد نیو یارک میں روز ویلٹ ہوٹل، اور پیرس میں سکائی ہوٹل کی فروخت ہے، جو کہ موجودہ حکمران خود ہی بیچ کے خود ہی خرید رہے ہیں۔ روز ویلٹ ہوٹل کا شمار امریکہ کے تاریخی ہوٹلوں میں ہوتا ہے، جس کی اوپننگ 1924ء میں ہوئی اور یہ دنیا کے مہنگے ترین علاقے مین ہیٹن نیویارک میں واقع ہے۔ اس میں 1015 کمرے ہیں اور 52 لگژری سوئیٹس ہیں۔ 1979ء میں پی آئی اے نے اس ہوٹل کو اس وقت لیز پر لیا، جب اس کا بزنس کچھ مندا چل رہا تھا۔

پی آئی اے کے انوسٹمنٹ آرم نے ایک سعودی پرنس کے ذریعے یہ شاندار ڈیل کی، جس کے مطابق 20 سال بعد پی آئی اے اس ہوٹل کو خرید سکتا تھا۔ 90 کی دہائی میں ہوٹل کے مالک نے کورٹ میں مقدمہ کر دیا کہ جس معایدے کے تحت پی آئی اے یہ ہوٹل خریدنے جا رہا ہے، اس سے ملنے والی رقم مارکیٹ ویلیو سے بہت کم ہے۔ پی آئی اے کی انتظامیہ اپنے سفارتخانے کے ہمراہ امریکی کورٹ میں گئی اور مقدمہ جیت لائی۔ جس کے نتیجے میں 1999ء میں پی آئی اے کو صرف ساڑھے 36 ملین ڈالر میں یہ ہوٹل مل گیا۔ 2005ء میں مشرف دور میں پی آئی اے نے سعودی پرنس کو 40 ملین ڈالر دے کر اس کے روز ویلٹ ہوٹل میں موجود چند پرسنٹ شئیرز بھی خرید لئے۔ مشرف دور میں 2006ء اور 2007ء میں پی آئی اے نے اس ہوٹل کی تزئین و آرائش پر 65 ملین ڈالر خرچ کر دیئے۔ 2009ء میں پی آئی اے نے اس ہوٹل کی مارکیٹ ویلیو کروائی اور اسے 1 بلین ڈالر، یعنی 1000 ملین ڈالر کے عوض بیچنے پر لگا دیا۔

اس ہوٹل کے اردگرد واقع کچھ ہوٹل 2015ء کے آخری چند ماہ میں فروخت ہوئے ہیں، جس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ہوٹل سیکٹر میں انویسٹمنٹ آج کل پھر گرم ہوچکی ہے۔ روز ویلٹ کے سٹینڈرڈ کے جتنے بھی ہوٹل مین ہیٹن کے علاقے میں پچھلے ڈیڑھ سال میں فروخت ہوئے ہیں، ان کی اوسط قیمت 10 سے 14 لاکھ ڈالر فی کمرہ رہی ہے۔ روز ویلٹ میں 1015 کمرے ہیں اور 52 انتہائی لگژری سویٹس۔ اس حساب سے اس ہوٹل کی قیمت کم سے کم بھی 1200 ملین ڈالر یعنی 1 اعشاریہ 2 بلین ڈالر تک آنی چاہیے۔ حکومت نے اس ہوٹل کا سودا اپنے قریبی فرنٹ مین میاں منشا کے ساتھ کیا ہے۔ یہ ہوٹل جس کی مارکیٹ ویلیو 1 اعشاریہ 2 بلین ڈالر ہے، وہ نواز شریف نے تقریباً 9 ملین ڈالر میں بیچا ہے، یعنی اصل قیمت کا ایک پرسنٹ سے بھی کم۔ جس ملک میں حکمرانوں کا یہ چلن ہو، اس معاشرے میں اخلاص، دیانت، صاف گوئی قصہ پارینہ بن جاتے ہیں، وطن عزیز کی طرح۔  
خبر کا کوڈ : 528544
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش