1
0
Friday 25 Mar 2016 17:26

ڈی آئی خان، دہشتگرد زعم میں مبتلا

ڈی آئی خان، دہشتگرد زعم میں مبتلا
تحریر: آئی اے خان

دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں، پلانٹڈ بم دھماکوں، کالعدم گروہوں کی سرگرمیوں، جیل کی سلاخوں کے پیچھے بےگناہ شیعہ نوجوانوں کے گلے کاٹنے، جنازوں کی راہوں میں بارود بچھانے، عزاداروں کی راہ میں آگ، جلوسوں کی راہ میں گرم تارکول بچھانے، ٹوٹا شیشہ بچھانے، انتظامیہ کے جانبدارانہ کردار یا اہل تشیع پہ حیات تنگ کرنے کا ذکر کسی بھی پیرائے میں ہو، ذہن میں فوراً سے پیشتر ڈیرہ اسماعیل خان آجاتا ہے، کیونکہ وطن عزیز کا یہی وہ بدنصیب شہر ہے، جہاں اس کے باسیوں پر یہ تمام قیامتیں وقفے وقفے سے ڈھائی گئیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ پولیس و افواج کے دائرے میں بند ڈیرہ اسماعیل خان کے باسیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔؟ کیا وجہ ہے کہ درجنوں انٹیلی جنس ایجنسیاں، سکیورٹی و انتظامی ادارے مل کر بھی ڈی آئی خان میں پائیدار امن کی ضمانت دینے سے قاصر ہیں۔؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وسیع تر ملکی مفاد کو یہاں کے باسیوں کا بےگناہ لہو ہمیشہ سے راس بیٹھتا ہے، جبھی تو دہشتگرد یہاں کبھی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ڈاکٹرز، ایڈووکیٹس، ٹیچرز، پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے آتے ہیں، اور کبھی بسوں، ٹرکوں، فور بائی فور گاڑیوں میں لشکر کی صورت جیلیں توڑنے کیلئے آتے ہیں۔ ذرائع آمدورفت، راستے، ہتھیار، وقت، نعرے، لباس دہشتگردوں کا کیسا ہی کیوں نہ ہو، مگر نشانہ عمومی طور پر ملت تشیع ہی بنی ہے، کبھی سرکاری سرپرستی میں تو کبھی سرکار کی مذمتی بیانات کی ہمراہی میں۔

ایسا نہیں ہے کہ زندگی کے ہر دور میں سندھ کنارے آباد ’’ ڈیرہ پھلاں دا سہرا‘‘ انتشار و تفریق کا شکار تھا، یا ہمیشہ ہی یہاں کی سرزمین اپنے باسیوں کے لہو سے مہکتی رہی۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی دور میں یہاں امن مثالی اور لوگوں کے درمیان اخلاص و محبت قابل دید تھا۔ عیدین، نوروز، میلاد، محرم، چہلم یہاں کے باسی مل جل کر مناتے تھے، پھر ضلعی انتظامیہ کی نظر بد اس شہر کے امن کو چاٹ گئی۔ 1986ء میں نوروز ہی کے دن اللہ ڈتہ ملنگ کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا، عینی شاہدین کے مطابق اہل تشیع پر یہ پہلی گولی پولیس نے ہی چلائی تھی۔ جس سے یہ بےضرر معصوم انسان موقع پر ہی زندگی کی بازی ہار گیا۔ 1987ء میں ایک غلط فہمی کے نتیجے میں اہل تشیع و مہاجروں کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا، تو ضلعی انتظامیہ نے مرکزی حکومت کی ایماء پر اس تنازعہ کو بڑھاوا دیا، اور پورا ایک سال فریقین کے درمیان تنازعہ قائم رہا۔ 1988ء میں انتظامیہ کی آشیرباد سے مرکزی جلوس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ یہاں تک کہ دس محرم کا جلوس برآمد نہ ہوا۔ 30 ستمبر 1988ء پولیس اور ایف سی نے نہتے عزاداروں پر فائرنگ کرکے اہل تشیع کے اجتماعی قتل عام کی بنیاد رکھی، اور اپنی ترجیحات بھی واضح کر دیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں کالعدم سپاہ صحابہ کا جب بیج بویا گیا تو اس کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ دہشت گردی کا یہ بیج بے گناہ شہریوں کا خون اور سرکاری وسائل چوس کر تناور درخت بنتا چلا گیا۔

بالآخر تھوڑے ہی عرصے میں نوبت یہاں تک آگئی کہ سرکاری دفاتر میں دہشت گرد گروہوں کی پرچیوں پر کام ہونے لگے، دہشتگردوں کے پیغامات پر چور اچکے تھانوں سے رہائی پانے لگے، منشیات فروش محفوظ رہنے کیلئے دہشت گرد گروہ کا جھنڈا چھت پر سجانے لگے، یہاں تک کہ ہسپتالوں میں دہشت گردوں کی سفارش پر مریضوں کو ادویات یا بستر ملنے لگے۔ چھوٹے جرائم اور تنازعات کے فریقین کو تھانوں کے انچارج انگلی سے پکڑ کر دہشتگردوں کے ڈیرے پر پہنچانے لگے۔ 2008ء کے انتخابات میں کالعدم سپاہ صحابہ کے سرغنہ کو صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب کرانے کیلئے ہر قسم کے وسائل بروئے کار لائے گئے۔ جعلی ڈگری، تعلیمی قابلیت مکمل نہ ہونے، ڈیفالٹر ہونے کے باوجود نہ صرف الیکشن لڑنے کا حق دیا گیا بلکہ کامیاب بھی کرایا گیا۔ اس کامیابی کے بعد اور اسمبلی کی مدت کے دوران شہر میں ریکارڈ دہشتگردی کی وارداتیں ہوئیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوئے، ہر چیز اظہر من الشمس ہونے کے باوجود انتظامیہ، ادارے مصلحتوں، مفادات کا شکار رہے اور بے گناہ لہو بہتا رہا۔ اس دوران شہر کی ہر گلی، ہر کوچے میں اہل تشیع کا خون بے دردی سے بہایا گیا۔ اداروں کے اندر دہشت گردوں کے اثر و رسوخ کا یہ عالم رہا کہ سرکاری موٹر سائیکل پر سرکاری اسلحہ سے اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ جنازوں پر خودکش حملے کئے گئے۔ جنازوں کی راہوں میں بارود سے بھرے بورے رکھے گئے۔ پولیس کی جانب سے کلیئر کئے جانے والے راستوں میں بم پھٹتے رہے، مگر اہل اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

اہل تشیع کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کیلئے گھروں پر دستی بم حملے ہوئے۔ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے دروازے بند کئے گئے۔ اہل تشیع کے جن گھروں سے دن کی روشنی میں شہداء کے جنازے اٹھے۔ رات کے اندھیرے میں پولیس نے چادر و چاردیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے شہداء کے انہی گھروں پر یلغار کی۔ جو لاشے دفنا کے آئے، انہی پر قتل و اقدام قتل کے جعلی مقدمات قائم کرکے انہیں پابند کیا۔ اہل تشیع کے جوانوں نے جب اس ظلم و بربریت اور جانبدارانہ حکومتی کردار کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو انہیں مشتبہ قرار دے کر پابند سلاسل کیا۔ تشیع نوجوان گھروں سے نکلتے تو جامہ تلاشی کے نام پر انہیں نہتا کیا جاتا، اگر کچھ برآمد ہوتا تو حوالات میں بند اور اگر نہتے ہوتے تو شہر کے کسی نہ کسی موڑ پر کوئی اندھی گولی انہیں چاٹ جاتی۔ وہ جن کو ریاست نے امن قائم رکھنے کی ذمہ داری سونپی تھی، وہی صاحب ثروت تشیع خاندانوں کو مشورہ دیتے نظر آئے کہ حالات خراب ہیں، کسی اور شہر میں چلے جائیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے کئی کیسز ایسے بھی تھے کہ جن کے گواہان کو مکرنے کیلئے پولیس نے مجبور کیا۔ یہاں تک کہ جو اہل تشیع نوجوان قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے، ڈیرہ جیل پر حملے کے دوران انہیں بھی بیدردی سے گلے کاٹ کر شہید کیا گیا اور اس کے ذمہ دار سپاہ صحابہ کے سرپرست کو بحفاظت اپنے گھر میں منتقل کیا گیا۔ انصاف کے تقاضے یوں پورے ہوئے کہ ہونے والی شہادتوں کے مقدمات تک درج نہیں کئے گئے۔ یعنی اہل تشیع سرکاری تحویل میں بھی محفوظ نہیں تھے۔

یہ بات نہیں کہ اس عرصے میں صرف اہل تشیع ہی دہشتگردی کا شکار ہوئے، سرکاری افسران، اہلکار، معتدل اہلسنت افراد کو بھی دہشت گرد گروہوں نے نشانہ بنایا۔ جس وقت یہ قتل و غارت گری جاری تھی، اس وقت کہنے والے یہ کہہ رہے تھے کہ اگر ڈیرہ میں امن سے رہنا ہے، تو ووٹ جے یو آئی کو دینا ہوگا۔ جن نادیدہ قوتوں نے دہشت گردوں کا بیج اس مٹی میں بویا تھا، وہ بھی انہی دہشت گردوں کا شکار بنے۔ ٹارگٹ کلنگ، پولیس موبائلز پر بم حملے، سڑک کنارے دھماکے انہی اداروں کا مقدر بنے، جنہوں نے ان تنظیموں کو چھتری فراہم کی تھی۔ شہر میں اہل تشیع پر زندگی کا دائرہ اتنا تنگ کیا گیا کہ مرکزی بازاروں میں کسی شیعہ تاجر کا کاروبار باقی نہیں رہا۔ سرکاری دفاتر میں سے چن چن کر شیعہ افراد کو نشانہ بنایا گیا، جس کے باعث ملازمین دیگر شہروں میں ٹرانسفرز کرانے پر مجبور ہوئے۔ جو خاندان استطاعت رکھتے تھے وہ اپنا گھر، زمینیں، کاروبار اونے پونے بیچ کر نقل مکانی کرگئے۔ پھر خدا خدا کرکے کوئی امن کیلئے کوششیں شروع ہوئیں۔ روزانہ کی بنیادوں پر دہشتگردوں کے خلاف سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن شروع ہوئے۔ تو دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ شہریوں کا اداروں پر اعتماد بحال ہونا شروع ہوا۔ شہر میں تفریح سرگرمیاں شروع ہوئیں کہ یک لخت پولیس میں اعلٰی پیمانے پر تبدیلیوں کا عمل شروع ہوا۔ نئے ڈی پی او کے آنے کے بعد پہلے پہل شہر میں سٹریٹ کرائم کے واقعات بڑھنا شروع ہوئے۔ بدقسمتی سے ان واقعات پر قابو نہیں پایا جاسکا، کہ اچانک ہی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک ایسے وقت میں چار افراد کو ٹارگٹ کلرز نے نشانہ بنایا، جب شہر میں دفعہ 144 نافذ تھا۔

جشن نوروز پوری دنیا میں آمد بہار کی نوید کے طور پر منایا جاتا ہے، تاہم ڈی آئی خان میں نوروز جشن تاجپوشی امام علی (ع) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دہشت گرد ہر سال نوروز کے موقع پر دہشتگردی کا ایک آدھ تحفہ ضرور دیتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح امسال بھی نوروز کے موقع پر شہر میں خصوصی سکیورٹی پلان بھی تشکیل دیا گیا۔ تاہم نوروز سے محض ایک دن قبل حوالدار اظہر حسین کو درابن روڈ پر لچھرار کے قریب فائرنگ کرکے شہید کیا گیا۔ وہ موٹر سائکل پر ڈی آئی خان سٹی آرہے تھے، کہ موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے سر کی پشت میں نائن ایم ایم پستول سے فائرنگ کی۔ جائے وقوعہ سے سات خول ملے۔ ایک دن کے وقفے سے دن دیہاڑے شہر کے مین بازار میں سید رضی الحسن شاہ ایڈووکیٹ کو معلوم دہشت گردوں نے پشت سے سر میں گولی مار کر شہید کر ڈالا۔ دہشت گردوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج، جس میں دہشت گردوں کے واضح چہرے، موٹر سائیکل کا ماڈل نمبر، وقت باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں، پولیس نے حاصل کرلی۔ اس سے اگلے روز میلہ مویشیاں کی ڈیوٹی پر جانے والے دو پولیس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ یکے بعد دیگرے چار دن میں چار قتل، ان حالات میں سوالیہ نشان ہیں، کہ جب جگہ جگہ ناکے، پولیس چوکیاں، سکیورٹی گاڑیوں کا گشت جاری ہے۔ جا بجا سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ سکولوں کی سکیورٹی کیلئے ہائی الرٹ ہے۔ جہاں جہاں ٹارگٹ کلنگ کے یہ واقعات ہوئے ہیں، وہاں سے پولیس محض دو سے پانچ منٹ کی دوری پر ہے۔

سوال یہ ہے کہ تمام تر شواہد ہونے کے باوجود قاتلوں کی گرفتاری میں تاخیر کیوں۔؟ آئے روز سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کے باوجود دہشت گرد، ٹارگٹ کلرز تاحال محفوظ کیسے اور کیوں۔؟ دہشت گردوں کو پناہ گاہیں اور وسائل فراہم کرنے والے تاحال قانون کی نظروں سے اوجھل کیوں۔؟ شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر سخت نگرانی و چیکنگ کے باوجود دہشت گردوں کی آمدورفت کیسے اور کیوں۔؟ ایک ایسا حساس شہر جہاں بیک وقت درجنوں ایجنسیاں، سکیورٹی، انتظامی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے متحرک ہیں، وہاں کالعدم دہشت گردہ اپنی سرگرمیاں کیسے ممکن بنائے ہوئے ہیں۔ شہری پولیس اور انتظامیہ کے کردار سے متعلق تحفظات کا شکار ہیں، کہ کہیں وسیع تر قومی مفاد میں دوبارہ سے اس شہر کے اندر سرکاری سرپرستی میں آگ و خون کی ہولی کھیلنے کی تیاری تو نہیں کی جا رہی، کیونکہ ایسا ہونا ممکن نہیں کہ ان دہشتگردوں کا ایجنسیز کے پاس ریکارڈ نہ ہو، سی سی ٹی وی فوٹیج میں دہشت گردوں کا اطمینان بتا رہا ہے کہ وہ اس زعم کا شکار ہیں کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ ریاست، اداروں اور قانون کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ اور ادارے دہشت گردوں کے ساتھ بلاشرکت غیرے کارروائی کریں اور کمپرومائز نہ کریں، وگرنہ اب کے نتائج مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 529483
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Ahsan
United Kingdom
Army and Police must answer for Shia massacre in DIK
ہماری پیشکش