QR CodeQR Code

کیا اب بھی پنجاب میں آپریشن کی ضرورت نہیں

28 Mar 2016 10:35

اسلام ٹائمز: پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن اس لئے بھی فوری طور پر شروع کیا جانا چاہیے کہ بہت سے تجزیہ کاروں کی رائے میں دیگر صوبوں میں جاری آپریشنز کے نتیجے میں دہشت گرد اپنے لئے پنجاب کو ایک پناہ گاہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس ضمن میں بہت سی خبریں سامنے آچکی ہیں۔ کوئٹہ میں گرفتار ہونے والے بہت سے دہشت گرد پنجاب سے اپنے مراکز سے رابطوں کا اعتراف کرچکے ہیں۔ کراچی سے فرار کرنے والے بہت سے دہشت گردوں کی پنجاب میں پناہ لینے کی خبریں شائع ہوچکی ہیں۔ اسلام آباد اور اس کے مضافات سے پکڑے جانے والے بہت سے دہشت گردوں کے رابطے اور ناتے پنجاب سمیت دیگر علاقوں کے دہشت گرد نیٹ ورکس سے ثابت ہوچکے ہیں۔


تحریر: ثاقب اکبر

ایک عرصے سے وفاقی اور پنجاب حکومت پر زور دیا جا رہا ہے کہ پنجاب میں بھی ویسا آپریشن لانچ کیا جائے، جیسا کراچی میں جاری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض افراد فقط کراچی کے آپریشن پر اعتراض کے پس منظر میں ایسی بات کرتے ہوں، لیکن سب کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ یہ شک اس لئے بھی درست نہیں کہ اس بات کے پیچھے بہت سے حقائق اور دلائل مضمر ہیں۔ اب جبکہ لاہور میں 27 مارچ 2016ء کو ایک اندوہناک سانحہ رونما ہوگیا ہے، یہ مطالبہ زیادہ زور وشور سے کیا جانے لگا ہے اور اب یہ مطالبہ زیادہ حقیقت پسندانہ قرار پانا چاہیے۔ لاہور گلشن اقبال پارک میں ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 72 افراد شہید ہوئے ہیں جبکہ 315 زخمی ہیں۔ یہ سانحہ اتنا بڑا اور خوفناک تھا کہ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی اور ہسپتالوں کی ایمرجنسی وارڈز میں جگہ کم پڑ گئی۔ کئی بڑے ہسپتالوں کے مردہ خانوں کی گنجائش ختم ہوگئی۔ رات گئے کئی ہسپتالوں نے مزید زخمی قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ شہریوں سے خون دینے کی اپیل کی گئی، تاکہ زخمیوں کی جانوں کو ممکنہ طور پر بچایا جاسکے۔ ملک کے بہت سے شہروں میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص بیشتر شہریوں نے سانحے کے بعد آنے والی رات غم و اندوہ اور تشویش و اضطراب کے عالم میں جاگ کر گزاری۔ پنجاب حکومت نے اس سانحے پر تین روزہ اور سندھ حکومت نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔

اس سے قبل بھی لاہور اور لاہور کے علاوہ پنجاب کے اہم ترین علاقوں، شہروں، مراکز اور تنصیبات پر وحشت ناک اور نہایت نقصان رساں حملے ہوچکے ہیں۔ خود لاہور شہر میں پولیس اور حساس اداروں کے مراکز اور تھانوں تک کو بارہا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر اسی شہر میں حملہ ہوچکا ہے۔ داتا دربار پر بھی ایک خونریز حملہ کیا جاچکا ہے۔ راولپنڈی میں جی ایچ کیو سمیت کئی اہم مقامات پر حملے ہوچکے ہیں۔ ایک جامع مسجد میں حملے کے نتیجے میں اعلٰی ترین فوجی افسر تک جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ کامرہ کا سانحہ فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پٹھان کوٹ کا حالیہ واقعہ جس کے نتیجے میں پاک بھارت مذاکراتی عمل منفی طور پر متاثر ہوا ہے، کے لئے مبینہ طور پر پنجاب کی سرزمین استعمال کی گئی ہے۔ ایسے بہت سے واقعات کے ڈانڈے پنجاب میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس سے جوڑے جاتے ہیں۔ پنجابی طالبان کا مرکز بلوچستان یا کوئی اور صوبہ نہیں پنجاب ہی ہے۔ لشکر جھنگوی کے اصل مراکز جنوبی پنجاب میں ہیں۔ ملک اسحاق کا مرکز جنوبی پنجاب کا آخری شہر رحیم یارخان تھا۔ جیش محمد کا مرکز جنوبی پنجاب ہے اور اب 27 مارچ کے سانحے کا مبینہ خودکش کردار احمد یوسف ولد فرید کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہی ہے۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ اور ایسے بہت سے حقائق منظر عام پر آنے کے بعد آخر وہ کونسی مصلحتیں ہیں، جو پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف ایک جامع اور سریع آپریشن کے راستے میں حائل ہیں۔ گلشن اقبال پارک کے سانحے کے بعد وزیراعظم نے یہ کہہ کر پوری قوم کے حساس دلوں کی ترجمانی کی ہے کہ ’’دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔‘‘ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہر حال میں دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے بھی اس واقعے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وحشی درندوں کو عوام کی زندگیوں سے کھیلنے نہیں دیا جائے گا۔ انھوں نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو فوری کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ البتہ اصل سوال ان بیانات کے بعد بھی باقی ہے اور وہ یہ کہ کیا ہماری حکومت اور فوج پنجاب میں چھپے ہوئے یا بقول بعض دندناتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن کرنے کو تیار ہوچکی ہے یا ابھی نہیں۔

پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن اس لئے بھی فوری طور پر شروع کیا جانا چاہیے کہ بہت سے تجزیہ کاروں کی رائے میں دیگر صوبوں میں جاری آپریشنز کے نتیجے میں دہشت گرد اپنے لئے پنجاب کو ایک پناہ گاہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس ضمن میں بہت سی خبریں سامنے آچکی ہیں۔ کوئٹہ میں گرفتار ہونے والے بہت سے دہشت گرد پنجاب سے اپنے مراکز سے رابطوں کا اعتراف کرچکے ہیں۔ کراچی سے فرار کرنے والے بہت سے دہشت گردوں کی پنجاب میں پناہ لینے کی خبریں شائع ہوچکی ہیں۔ اسلام آباد اور اس کے مضافات سے پکڑے جانے والے بہت سے دہشت گردوں کے رابطے اور ناتے پنجاب سمیت دیگر علاقوں کے دہشت گرد نیٹ ورکس سے ثابت ہوچکے ہیں۔ دہشت گردی کے مظاہر اور نیٹ ورکس پر نظر رکھنے والے بہت سے ماہرین پنجابی طالبان کی قوت اور فعالیت کو بیان کرچکے ہیں۔ پنجاب میں موجود تخریب کاروں اور دہشت گردوں کی تربیت کے لئے وہی علاقے استعمال ہوتے رہے ہیں، جہاں ان دنوں فوجی کارروائی جاری ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے صرف چند علاقوں کو دہشت گردوں سے آزاد کروانا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے ملک کے ہر علاقے میں موجود دہشت گردوں کا خاتمہ ضروری ہے۔

پنجاب حکومت کو اپنے صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے لئے خود دوسروں سے بڑھ چڑھ کر پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تو پنجاب حکومت کی اپنی آئینی ذمہ داری ہے، لیکن دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس پر یہ الزام ہے کہ اس کے بعض دہشت گرد گروہوں سے رابطے ہیں۔ خاص طور پر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کے دہشت گردوں کے ساتھ رابطے ہیں اور وہ انھیں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے بروئے کار لاتے ہیں۔ وہ اگرچہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں لیکن پنجاب میں دہشت گردی کے اتنے بڑے بڑے اور ہولناک سانحات رونما ہونے کے باوجود دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف کسی موثر اور جامع آپریشن کا نظرنہ آنا بہرحال سوال انگیز ضرور ہے۔

ہم اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اگر واقعاً آج آپ کا دل خون کے آنسو رورہا ہے اور شہید ہونے والے آپ کے بچے بچیاں اور بہن بھائی ہیں تو پھر پنجاب میں مزید بچے بچیوں اور بہن بھائیوں کو شہید ہونے سے بچانے کے لئے ایک منظم، وسیع، جامع اور فوری آپریشن کے آغاز کا فیصلہ کریں۔ یہی پنجاب آپ کی اور آپ کے بھائی کی اصل قوت کا نام ہے۔ ویسے تو سارا پاکستان اور پاکستان کا ہر علاقہ اور ہر علاقے کا ہر بچہ آپ کی ذمہ داری میں آتا ہے، لیکن آج پنجاب آپ کی فوری توجہ کا طلبگار ہے۔ پنجاب میں چھپے یا پناہ حاصل کئے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف ویسا ہی بے رحمانہ آپریشن کرنے کی ضرورت ہے، جیسا بے رحمی اور وحشت گری کا مظاہرہ وہ ہمارے لوگوں کے خلاف کر رہے ہیں۔ ان درندوں نے ہماری عورتوں اور بچوں کو چن کر نشانہ بنایا ہے۔ ہاں یہ وہی عورتیں اور بچے ہیں جنھیں عالمی جنگی قوانین بھی جنگ کے دوران میں قتل کی اجازت نہیں دیتے۔ رسول رحمتؐ تو پہلے ہی جنگ میں عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کو قتل کرنے سے منع فرما چکے ہیں۔ وہ تو مشرک حملہ آوروں کی لاشوں کو پامال کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے اور یہ وحشی ہماری ماؤں بہنوں کو چیتھڑے بنا کر اڑا دیتے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 530043

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/530043/کیا-اب-بھی-پنجاب-میں-آپریشن-کی-ضرورت-نہیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org