0
Monday 28 Mar 2016 15:19

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اور پاکستانی میڈیا

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اور پاکستانی میڈیا
تحریر: محمد عسکری مقدس

یہ ایران کے موجودہ صدر ڈاکٹر حسن روحانی کا پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔ حجۃ الاسلام حسن روحانی نے 25 اور 26 مارچ کو یہ دورہ کیا۔ یہ دورہ ایسے موقع پر ہوا جب ایران اور عالمی سامراجی طاقتوں کے درمیان اس کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں تنازعہ پر معاہدہ ہوا ہے، جس کے تحت بین الاقوامی طاقتوں کی طرف سے عائد بعض غیر منصفانہ پابندیاں ختم کی گئی ہیں۔ ان پابندیوں کے ہٹائے جانے کے بعد ایران دیگر ممالک کے ساتھ مختلف قسم کے تجارتی اور کاروباری معاہدے کرسکتا ہے۔ چنانچہ گذشتہ کئی مہینوں کے دوران متعدد ممالک کے سربراہان مختلف وفود کے ساتھ ایران کا دورہ کرکے کئی معاہدوں پر دستخط کرچکے ہیں۔ ایرانی صدر نے کابینہ کے اہم وزراء سمیت صنعت و تجارت اور بینکنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے 60 افراد پر مشمل وفد کو لے کر پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ صدر کے وفد میں اتنی بڑی تعداد اور اہم افراد کا ہونا دورے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

حکومت پاکستان کی جانب سے اسلام آباد میں ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کی آمد و رفت کے راستوں پر خیر مقدمی اور تہنیتی الفاظ پر مشتمل بورڈز آویزاں کئے گئے تھے۔ وزیراعظم نواز شریف نے نور خان ائیربیس پر ایرانی صدر کو خیر مقدم کہا اور 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ دونوں ممالک کے وفود کے درمیان مشترکہ اجلاس میں صحت، فارن سروسز، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، تجارت کے شعبوں میں تعاون پر گفتگو ہوئی اور دونوں ممالک کے درمیان دو مزید راہداری کھولنے پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں پانچ سالہ تجارتی تعاون سمیت 6 معاہدوں پر دستخط ہوئے اور 2020ء تک دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 5 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم ظاہر کیا۔ مختلف وفود کی سطح پر ہونے والی ملاقاتوں میں زراعت، مائینز اور دیگر شعبوں سے متعلق کئی ایم او یوز پر دستخط کئے گئے۔ صدر روحانی ہفتے کو اپنا دورہ مکمل کرکے تہران روانہ ہوگئے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے نور خان ائیربیس پر انہیں رخصت کیا۔1

ایران اور پاکستان کے تعلقات گذشتہ چند دہائیوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں، جس کے لئے تجزیہ کار دونوں ممالک کی پالیسیوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ عوامی سطح پر دونوں ممالک خصوصاً پاکستان میں ایران کو انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ چنانچہ رہبر معظم انقلاب نے جب دوران صدارت پاکستان کا دورہ کیا تو پاکستانی عوام نے ان کا تاریخی استقبال کیا تھا۔ اسی طرح صدر خاتمی جب پاکستان کے دورے پر گئے تو جماعت اسلامی کے زیراہتمام لاہور کے شالیمار باغ میں عوامی جلسہ کیا گیا اور صدر خاتمی کا شاندار استقبال ہوا۔ جماعت اسلامی نے صدر احمدی نژاد کے دورے کے موقع پر بھی عوامی سطح پر ان کے استقبال میں جلسہ کرنا چاہا لیکن حکومت کی طرف سے سکیورٹی خدشات کی بناپر اجازت نہیں دی گئی، کیونکہ اس وقت دہشت گردی کے عفریت نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا تھا۔ شاید اصل وجہ صدر احمدی نژاد کی اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر امریکہ اور صہیونیت مخالف تقریریں اور ہولوکاسٹ کے مفروضے پر اٹھائے جائے والے سوالات تھے، جس سے عالمی استکبار کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوگیا تھا۔

عالمی اور علاقائی حکومتوں کی مداخلت کی وجہ سے پاک ایران سربراہان کی ملاقات اور دونوں ممالک کے روابط کی افادیت پر پاکستانی میڈیا میں کماحقہ بحث نہیں کی جاتی۔ صدر روحانی کے اس دورے کو بھی اکثر بڑے اخبارات خصوصاً "جنگ"، "ایکسپریس" اور "نوائے وقت" جیسے اخبارات میں نمایاں کوریج نہ مل سکی۔ ابتدائی دن کی ملاقاتوں اور معاہدوں کو شہہ سرخی میں بیان نہیں کیا گیا، حالانکہ اگر کسی خلیجی یا یورپی ملک کا سربراہ ہوتا تو کئی دنوں پہلے اس کی آمد کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلوں پر ہونے والے ٹاک شوز میں بھی اس دورے کی اہمیت اور پاک ایران تعلقات پر زیادہ گفتگو نہیں کی گئی۔ ایران جیسے عالمی سطح پر ایک اہم طاقت کی حیثیت سے ابھرنے والے ملک کے بارے میں ذرائع ابلاغ کی طرف سے سردمہری کسی بھی لحاظ سے نیک شگون نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ہمارے ذرائع ابلاغ جتنی توجہ بھارت اور افغانستان کے امور پر دیتے ہیں، اگر اس کا بیس فیصد بھی پاک ایران تعلقات کی مختلف جہتوں پر صرف کریں تو پالیسی سازوں کو دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔2

صدر روحانی کے دورے کے موقع پر بلوچستان سے بھارتی ایجنٹ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری میڈیا میں موضوع بحث رہی۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW) ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ کا یہ اہلکار مبینہ طور پر انڈین نیوی کا حاضر سروس کمانڈر ہے۔ یہ شخص حسین مبارک پٹیل کے فرضی نام سے پاسپورٹ بنا کر بلوچستان میں سلیم عمران کے نام سے کئی سالوں سے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف رہا۔ بلوچستان اور سندھ میں پاکستان مخالف جماعتوں کو منظم کیا اور دہشتگردی کے واقعات کا مرتکب ہوا۔ پاک ایران دوستی کے مخالف میڈیا ہاوسز اس بھارتی جاسوس کی مبینہ طور پر ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہونے پر سراپا احتجاج ہیں۔ چنانچہ اکثر بڑے اخبارات نے جنرل راحیل شریف کی طرف سے بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور ایرانی سرزمین کے استعمال پر ہونے والی شکایت کو شہ سرخی میں بیان کیا ہے۔3 جو کہ صدر روحانی کے اس دورے کو ناکام بنانے کی ایک کوشش ہے۔ اگرچہ انگریزی روزنامہ "ڈان" جیسے اخبارات میں صدر روحانی کی طرف سے بجلی اور گیس سمیت توانائی کے دیگر بحران سے نمٹنے کے لئے کی جانے والی پیشکش کو لیڈنگ سٹوری بنایا ہے۔4

تجزیہ کاروں کے مطابق بلوچستان سے بھارتی جاسوس کی گرفتاری کے باعث صدر روحانی کا دورہ گہنا گیا۔5 یہ بات دورے کے حوالے سے اطمینان بخش نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ صدر روحانی نے دورے کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ جب بھی دونوں ممالک سنجیدگی کے ساتھ قربتیں بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، ایسی افواہیں اڑائی جاتی ہیں۔6 بعض نام نہاد محب وطن صحافیوں نے تہران کے ساتھ معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ لینے کی تمنا ظاہر کی اور بھارت کے ساتھ ایران کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ میڈیا کے مطابق بھارتی جاسوس کئی دفعہ ایرانی سرحد پار کرکے پاکستانی حدود میں داخل ہوا اور ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہا۔7 سوال یہ ہے کہ کئی سالوں سے کراچی اور بلوچستان میں دشمن ممالک کی مداخلت کی اطلاعات کے باوجود ہماری خفیہ ایجنسیاں اس جاسوس کو کیوں پکڑ نہ سکیں۔ اگر ایرانی حکومت کا ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا ثابت ہوجائے تو احتجاج پاکستان کا حق بنتا ہے، لیکن اگر ایک فرد ذاتی طور پر ایسے کاموں میں ملوث ہو تو ایران سے زیادہ پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ اپنی سرحدوں کی بہتر نگرانی کرے اور بروقت کارروائی کرکے ایسے افراد کو گرفتار کرے۔ اس معاملے میں ہماری خفیہ ایجنسیاں بھی قصوروار ہیں۔ چنانچہ بعض اخبارات نے اپنے اداریئے میں خفیہ اداروں کی ناکامی پر ذمہ دار اداروں سے باز پرس کا مطالبہ کیا ہے۔8

ان حالات میں ہمارے میڈیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دشمن کے آلہ کار بن کر دوست ممالک سے تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی بجائے ان افراد اور جماعتوں کے خلاف کارروائی کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالے جن کا "را" سے تعلق اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونا ثابت ہوچکا ہے۔ چنانچہ بھارتی جاسوس اور بعض جماعتوں کے اعلٰی عہدیداروں نے صراحت کے ساتھ اقرار کیا ہے۔
1۔ جنگ 2016، 3، 27
2۔ پاکستان 2016، 3، 26
3۔ ایکسپریس، جنگ، نوائے وقت 2016، 3، 27
4۔ ڈان، پاکستان 2016، 3، 27
5۔ نوائے وقت 2016، 3، 26
6۔ جنگ 2016، 3، 27
7۔ جنگ 2016، 3، 27
8۔ پاکستان 2016، 3، 27
خبر کا کوڈ : 530101
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش