0
Sunday 3 Apr 2016 10:51

جماعت اسلامی کے زیراہتمام منصورہ میں منعقدہ نظام مصطفٰیۖ کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ

جماعت اسلامی کے زیراہتمام منصورہ میں منعقدہ نظام مصطفٰیۖ کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ
رپورٹ: سید محمد ثقلین

جماعت اسلامی پاکستان کے زیر اہتمام منصورہ میں نظام مصطفٰی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، کانفرنس میں ملک بھر کی تمام مذہبی جماعتوں کی قیادت اور رہنمائوں نے شرکت کی۔ کانفرنس کی صدارت جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کی، جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کے سربراہ صاحبزادہ ابولخیر محمد زبیر، جماعۃ الدعوہ پاکستان کے سربراہ حافظ محمد سعید، مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی، اسلامی تحریک پاکستان کے جنرل سیکرٹری علامہ عارف حسین واحدی، عبداللہ گل، ثاقب اکبر اور دیگر نے شرکت کی۔ کانفرنس کے آخر میں تمام قائدین کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ نظام مصطفٰی کانفرنس میں شریک تمام سیاسی و دینی جماعتیں، دینی مدارس کی تنظیمات، ممتاز علماء کرام، مشائخ عظام اور نمائندہ خواتین گذشتہ اجلاس (15 مارچ 2016ء منعقدہ منصورہ لاہور) کے تسلسل میں اعادہ کرتے ہیں کہ:

(1) اسلام، نظریہ پاکستان، آئین پاکستان، جمہوریت، انسانی حقوق، مسلم معاشرہ اور خاندان کو وفاق اور پنجاب حکومت کے اقدامات نے جس طرح کمزور کرنے کی کوشش کی ہے اور جس طرح شریف حکومت نے معاشرے کو لبرل لائز کرنے کے عزم سے لے کر عاشق رسول ۖ شہید ممتاز قادری کو پھانسی پر چڑھانے تک، مغرب اور این جی اوز کے ایجنڈا پر عمل درآمد جاری رکھا ہوا ہے، آج خواتین اسلام، ملت اسلامیہ پاکستان اور دینی قیادت، مغربی ایجنڈے اور حکومتی اقدامات کی ایک مرتبہ پھر شدید مذمت کرتی ہے اور عہد کرتی ہے کہ اسلام، قانون اور آئینی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے حکومت کے اسلام دشمن اقدامات کے خلاف تحریک چلائے جائے گی اور شعائر اسلام، اسلامی معاشرے اور خاندان کو حاصل آئینی تحفظ کا دفاع کرے گی اور کرپٹ اشرافیہ سے نجات، کرپشن فری پاکستان اور نظام مصطفٰی ۖ کے نفاذ تک اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔

(2) نظام مصطفٰی ۖ کانفرنس اعلان کرتی ہے کہ حکومت کو تحفظِ ناموسِ رسالت ایکٹ میں کسی قسم کی ترمیم کی اجازت نہیں دے گی اور نہ ہی قادیانیوں کی عقیدۂ ختم نبوت کے خلاف سازشوں کو کامیاب ہونے دے گی۔ کانفرنس شہید ممتاز قادری کی پھانسی کو عدالتی قتل سمجھتی ہے اور ان کی شہادت کے بعد مظاہرین کو گرفتار کرنے کی مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ انہیں فی الفور رہا کیا جائے اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات ختم کئے جائیں۔

(3) ہم خواتین کے حقوق کے سب سے بڑھ کر حامی ہیں اور ان کے خلاف ہر قسم کے تشدد کے مخالف ہیں، چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا گھر سے باہر، ورک پلیس پر ہو یا کسی خفیہ جگہ پر، حکومت کرے یا غیر حکومتی عناصر، افراد کریں یا ادارے۔ ہم حکومت کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ پنجاب اسمبلی کے پاس کردہ گھریلو تشدد کے بل کے ذریعے خاندانی وحدت کو توڑے اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے کا باعث بنے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ خاندانی اور عائلی مسائل اور جھگڑوں کو چوراہوں، میڈیا اور تھانوں میں لے جا کر خاندانی نظام تتر بتر ہوگا اور طلاق کی شرح میں اضافہ کا سبب بنے گا اور مغربی تہذیب و ثقافت کو پاکستان پر مسلط کر دے گا۔ اس بل کو پاکستان بھر کی خواتین اور تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اور دینی جماعتوں سمیت ایک آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اسلام اور شریعت کے منافی قرار دیا ہے۔ لہٰذا ہم اس بل کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ آئین پاکستان کے مطابق کوئی بھی ایسا قانون جو اسلامی شریعت کے خلاف بنایا گیا ہو، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ دستور پاکستان کے تحت پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور اس سے انحراف غداری ہے، لہٰذا حکومت عوام کے اس مسترد کردہ بل کو فوری طور پر منسوخ کر دے۔

(4) ہم خواتین پر ہر قسم کے تشدد کے خلاف اور قرآن و سنت کے
مطابق عورتوں کو حاصل تمام حقوق کے تحفظ کا ایک ایسا متفقہ بل قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کریں گے، جس کا دائرۂ کار پورا پاکستان ہو۔ یہ بل حقوق نسواں اور خواتین پر ہر قسم کے تشدد کے خاتمے کا حقیقی بل ہوگا۔

(5) میڈیا کے بعض عناصر اسلامی شعائر کا مذاق اڑا رہے ہیں اور جذبات کو بھڑکانے کے ساتھ ساتھ فحاشی و عریانی پھیلا رہے ہیں۔ اس کے سدباب کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے انتہا پسندی کو فروغ مل رہا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک گیر سطح پر فحاشی اور عریانی کے فروغ کے لئے جو مہم چلائی جا رہی ہے اور بھارتی ثقافت کو پروموٹ کیا جا رہا ہے، اس کے سدباب کے لئے مؤثر اقدامات کئے جائیں۔

(6) نظام مصطفٰیۖ کانفرنس، پاکستان میں واقعہ لاہور سمیت ہر اس دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت کرتی ہے جس کا مقصد پاکستان کو نظریاتی، جغرافیائی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی طور پر کمزور کرنا ہے۔ کانفرنس بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کی پاکستان کو کمزور کرنے اور دہشت گردی کے نیٹ ورک بنانے کی مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ بھارتی ''را'' کے پکڑے جانے والے جاسوسوں اور دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے اور ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس حوالے سے حکومت کی مجرمانہ خاموشی بھی قابل مذمت ہے۔

(7) کانفرنس دینی مدارس کے خلاف منفی پروپیگنڈے اور ان کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی بھی شدید مذمت کرتی ہے اور چیلنج کرتی ہے کہ پاکستان کا کوئی دینی مدرسہ دہشت گردی میں ملوث نہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں دینی مدارس کے خلاف آپریشن بند کیا جائے۔

(8) یہ کانفرنس حکومت کے ایسے تمام اقدامات کی مذمت کرتی ہے، جس کے تحت کشمیر کے مسئلہ کو پسِ پشت ڈال کر ایک ایسی بھارتی حکومت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں، جس کے ہاتھ لاکھوں کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ جو بابری مسجد کے قاتل ہیں اور جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ ہم مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر کو متنازعہ مسئلہ تسلیم کئے بغیر بھارت کے ساتھ کسی قسم کی دوستی اور ڈپلومیسی کو تسلیم نہیں کریں گے۔

(9) کانفرنس بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے ملک و قوم کے لئے قربانی دینے والے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے عدالتی قتل کی مذمت کرتی ہے اور حکومت پاکستان کی معنی خیز خاموشی کی مذمت کرتی ہے۔

(10) دینی جماعتوں کے گذشتہ اجلاس میں لیاقت بلوچ کی سربراہی میں حافظ حسین احمد، مولانا عبدالمالک، پیر سید ہارون علی گیلانی، مولانا محمد امجد خان، پیر سید محفوظ مشہدی، ثاقب اکبر، قاری محمد زوار بہادر، علامہ عارف حسین واحدی، مولانا عبدالرئوف فاروقی، ڈاکٹر عبدالغفور راشد، حافظ عبدالرحمن مکی، خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، علامہ امین شہیدی، حافظ عاکف سعید، قاری محمد یعقوب شیخ، سید وقاص جعفری، میاں مقصود احمد، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، مولانا خلیل الرحمن قادری، ذکر اللہ مجاہد، سکینہ شاہد، محترمہ عافیہ سرور، محترمہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اور محترمہ زرافشاں فرحین پر مشتمل ایک سٹیرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ نظام مصطفٰی کانفرنس میں شریک تمام سیاسی و دینی جماعتیں، علماء و مشائخ اور خواتین نے فیصلہ کیا ہے کہ نظام مصطفٰیۖ کے قیام کے لئے یہ سٹیرنگ کمیٹی برقرار رہے گی اور ایک بھرپور تحریک چلانے کے لئے تاریخوں کا اعلان کرے گی۔

(11) علاوہ ازیں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایک رہبر کمیٹی بھی تشکیل دی جائے گی، جس کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

(12) آج کی کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ تحریک نظام مصطفٰی کا آغاز راولپنڈی سے کیا جائے گا۔ جس کے لئے راولپنڈی، کراچی، پشاور، لاہور اور گلگت میں نظام مصطفٰی کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے گا اور اسلام آباد کی طرف ملین مارچ کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 531220
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش