0
Friday 8 Apr 2016 14:59

سعودی عرب اور بھارت میں دوستی کی پینگیں

سعودی عرب اور بھارت میں دوستی کی پینگیں
تحریر: ثاقب اکبر

پاکستان کا میڈیا نئے نئے موضوعات کی وجہ سے ایک نہایت اہم موضوع کو سرسری طور پر دیکھ کر آگے بڑھ گیا ہے اور وہ ہے سعودی عرب اور بھارت میں چڑھتی ہوئی دوستی کی پینگیں۔ دونوں ملکوں کی قیادت دوستی اور محبت کے جھولے جھول رہی ہیں۔ محبت آمیز یہ تعلقات اب آسمان کو چھونے لگے ہیں۔ کیا پاکستان ان تعلقات کو ایک اچٹتی نگاہ ڈال کر آگے بڑھ جانے کا رسک مول لے سکتا ہے۔ قومی مفادات اور ریاستی تقاضوں پر رات دن زور دینے والے اینکرز، صحافی، سیاستدان، تجزیہ کار اور دفاعی مبصر اس اہم معاملے کو ان دنوں میں کیسے نظرانداز کرکے آگے بڑھ سکتے ہیں، جب انٹیلی جنس کی دنیا کے نہایت اہم واقعات ہماری سرزمین پر رونما ہو رہے ہیں۔ بھارتی بحریہ کا نہایت اہم افسر "را" کے ایجنٹ کے طور پر سالہا سال سے ہماری زمین پر مصروف رہا اور اُس کے ذریعے سے آگے بڑھنے والے نہایت خطرناک منصوبے طشت ازبام ہو رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ افغان انٹیلی جنس کا ایک نہایت اہم افسر بھی گرفتار ہوچکا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان کی سرزمین سے بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا منصوبہ افغانستان میں تیار کیا گیا تھا، جس کا مقصد پاکستان کو چاروں طرف سے گھیرنا تھا۔ اس دوران میں یہ امر بھی ثابت ہوگیا کہ بھارتی ایجنٹ کلبھوشن بظاہر تو چاہ بہار میں کاروبار کر رہا تھا، لیکن اس کا انٹیلی جنس نیٹ ورک افغانستان سے آپریٹ کرتا تھا۔ اسے افغان انٹیلی جنس کی مدد حاصل تھی۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ ان دنوں میں بھارتی وزیراعظم نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور سعودی عرب کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات کو فروغ دینے کے لئے ایک تفصیلی معاہدہ بھی کیا، لیکن پاکستان میں اس معاملے کو اس طرح سے موضوع سخن نہیں بنایا گیا، جس طرح پاکستان کے ریاستی اور قومی مفادات کا تقاضا تھا۔

ہمیں سعودی عرب کے بھارت سے تعلقات پر اصولی طور پر کوئی اعتراض نہیں، کیونکہ دنیا میں کوئی ملک بھی دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کئے بغیر نہیں رہ سکتا، لیکن پاکستان کے ساتھ بھارت کا معاملہ دیگر ممالک کی نسبت سے مختلف ہے اور خود بھارت بھی پاکستان کے بارے میں دیگر ممالک کی نسبت سے مختلف طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا بھارت فقط سعودی عرب سے تجارتی تعلقات کے فروغ کا خواہاں ہے یا اس کے پیش نظر کچھ اور بھی مقاصد ہیں۔ اگر اس کے مقاصد کا پاکستان سے کوئی ٹکراؤ یا تضاد نہیں، تب بھی ہمیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، لیکن اگر اس کے مقاصد پاکستان سے ٹکراؤ یا تضاد رکھتے ہیں تو پھر ہم ان تعلقات سے صرف نظر نہیں کرسکتے۔ یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات مختلف حوالوں سے بہت گہرے اور بہت اعلٰی سطح پر ہیں۔

آیئے اس امر کا جائزہ لے لیتے ہیں کہ بھارت کا اصل مقصد پاکستان کے دوستوں کے قریب ہونے میں کیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈان نیوز نے رائٹرز اور دیگر اداروں کے حوالے سے جو خبر جاری کی ہے، اس کے مطابق ہندوستان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کا سعودی عرب کا دورہ ایک وسیع تر سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد اسلام آباد کے قریب ترین اتحادیوں میں سے کچھ کے ساتھ تعلقات قائم کرکے پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی، یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں، جب کچھ ماہ قبل انھوں نے پاکستان کے ایک اور اتحادی متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا، جس کے دوران میں دونوں ملکوں کے درمیان سکیورٹی معاملات کے تعاون کے معاہدوں پر دستخط کئے گئے، جن میں اعلٰی سطح کے سکیورٹی مشیروں کی باقاعدگی سے ملاقاتوں کا معاہدہ بھی شامل تھا۔ مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکرٹری رام مادھیو کا کہنا تھا: یہ بہت آسان ہے، ہمیں پاکستان کو ڈیل کرنے کے لئے سب کچھ کرنا پڑے گا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے اتحادی جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مضبوط تعلقات کی بناء پر ہندوستان کو عالمی اور علاقائی فورمز پر مزید ہمدردیاں حاصل ہوں گی، جس کی وجہ سے پاکستان پر دباؤ بڑھے گا۔ بھارت کے حکومتی عہدیداران نے مودی کے دورہ سعودی عرب کو ہندوستان کو پاکستان سے الگ رکھنے کے حوالے سے ایک سفارتی کوشش کے طور پر بیان کیا، خاص کر اس حوالے سے کہ ہندوستان ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک بڑا جغرافیائی و سیاسی کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے یہ دورہ گذشتہ ہفتے کے آخری دو دنوں (2 اور 3 اپریل 2016) میں کیا۔ اس دوران میں انھیں سعودی عرب کے سب سے اعلٰی سول اعزاز شاہ عبدالعزیز میڈل سے نوازا گیا، ان کو یہ اعزاز اتوار کو شاہ سلمان کی طرف سے دیا گیا۔ نریندر مودی نے اس ملاقات کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان کی شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات بہت سود مند رہی ہے۔

پاکستان اور بھارت دونوں کے سعودی عرب سے تعلقات کو اگر اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو بھارت کا پلڑا بہت بھاری نظر آئے گا۔ اعتماد ڈیلی کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان سال 2014-15 میں دو طرفہ تجارت 39 ارب ڈالر تھی، جو بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اب بڑھ کر 48 ارب ڈالر ہوچکی ہے۔ جبکہ دنیا نیوز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تجارت کا حجم 4.8 ارب ڈالر ہے۔ یعنی بھارت کی سعودی عرب سے تجارت کا دسواں حصہ۔ بی بی سی ہی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں تقریباً 30 لاکھ ہندوستانی شہری رہائش پذیر ہیں۔ یہ تعداد سعودی عرب میں دیگر تمام ملکوں کے تارکین وطن کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق یہ تعداد 35 لاکھ ہے۔ دوسری طرف مختلف رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب میں پاکستانی تارکین وطن کی تعداد ایک ملین کے لگ بھگ ہے۔

بھارتی وزیراعظم کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں سکیورٹی معاملات خاص طور پر باہمی دلچسپی کا موضوع رہے، جس کی طرف ہم گذشتہ سطور میں اشارہ کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں بی بی سی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں چند اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ سعودی عرب نے ممبئی حملوں میں ملوث ضبیح الدین انصاری (جو ابو جندل کے نام سے مشہور ہے) کو بھارت کے حوالے کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق انڈین ایجنسیوں نے کئی نوجوانوں کو پکڑا ہے، جن کی انٹرنیٹ کے ذریعے برین واشنگ ہوئی اور جو جہاد میں جا رہے تھے۔ ان وجوہات کی بنا پر بھارت سعودی عرب سے خفیہ اطلاعات تک رسائی حاصل کرنے اور سکیورٹی تعاون بڑھانے پر مجبور ہوا ہے۔ خاص کر سائبر سکیورٹی کے میدان میں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ قبل ازیں سعودی عرب اور بھارت دونوں لشکر طیبہ پر پابندی عائد کرچکے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کا سعودی عرب سے سکیورٹی تعاون بڑھانے میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب میں انڈیا کا نیا سفیر کوئی سابق سفارت کار نہیں بلکہ ایک پولیس اہلکار ہے۔ گویا پاکستان میں تو "را" کو کام کرنے کے لئے زیر زمین نیٹ ورک کی ضرورت پڑتی ہے اور نام بدل کر سکیورٹی آفیسرز کو پاسپورٹ جاری کرنا پڑتا ہے، لیکن سعودی عرب میں بالاواسطہ پولیس اہلکار کو سفیر متعین کیا جاسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 532269
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش