0
Sunday 17 Apr 2016 20:30

پاک ایران دوستی کو کمزور کرنے کی سازش آخر کیوں؟

پاک ایران دوستی کو کمزور کرنے کی سازش آخر کیوں؟
تحریر: علامہ سید شاہد حسین نقوی

پاک ایران دوستی کی بنیاد جغرافیائی، اسلامی اور ملی اشتراک و وحدت ہے، جسے جھٹلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے کمزور کرنے کی ناکام کوشش ثمر آور ہوسکتی ہے۔ جو قومیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک اور حصہ دار ہوں، ایک دوسرے کے وطن کو اپنا وطن اور ایک دوسرے کی خوشی اور مصیبت کی گھڑی کو اپنی خوشی و مصیبت جانیں اور ان لمحات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں، پھر یہ کہ کسی ملامت کرنیوالے کی پرواہ نہ کریں، زمانہ جنگ ہو یا امن، وہ زلزلہ ہو یا سیلاب کی تباہ کاریاں یا کوئی اور آفت۔ جمہوریہ اسلامی ایران کی حکومت اور عوام پاکستانی عوام کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہے، حتیٰ کہ رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی آقای خامنہ ای جب بے رحم دہشتگردوں کی دہشتگردی کے نقصانات اور شہداء کے وارثان کے غم و غصہ اور دکھ و درد کو سنتے ہیں یا اس کا نماز جمعہ کے خطبات میں ذکر کرتے ہیں تو اپنے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کے غم میں آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔

جب ایرانی حکومت، عوام اور رہبر اپنے پاکستانی اسلامی بھائیوں اور بہنوں سے اس قدر محبت اور شفقت رکھتے ہیں تو کس طرح وہ ان کا برا سوچ سکتے ہیں؟ ہاں چھپے ہوئے دہشتگرد ”را“ کی صورت میں ہوں یا کسی اور روپ میں، وہ ایرانی سرزمین بھی استعمال کرتے ہیں اور ہماری پاکستانی سرزمین بھی، لیکن اس کا یہ معنیٰ نہیں کہ یہ دونوں حکومتیں دہشتگردوں سے ملی ہوئی ہیں اور ان بے رحم دشمنوں سے کوئی ساز باز رکھتی ہیں۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور بغیر سوچے سمجھے ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر کا آلہ کار بن کر دو برادر اسلامی ممالک میں دوریاں پیدا کرنے کی ناکام کوشش نہیں کرنی چاہیں۔ یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور دینی بھی۔

جب لکھنے اور بولنے کے محرکات اور عوامل حق گوئی نہ ہو تو پھر اس قسم کی تحریریں اور باتیں زبان پر آتی ہیں، لیکن دو اسلامی ملتوں کے درمیان منفی پراپیگنڈہ کرنیوالے اچھی طرح جان لیں کہ پاکستان اور ایران کے عوام بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ان دو برادر اسلامی ملکوں کے درمیان اختلاف ایجاد کرنے کی کوشش کرنیوالے کس فکر و ذہن کے مالک ہیں اور ان افراد کی ہمدردیاں کن اسلام دشمن عناصر کیساتھ رہی ہیں اور ابھی بھی ہیں۔ یہ چند افراد اب کھل کر وطن اور اسلام دشمن عناصر کی حمایت نہیں کرتے، چونکہ پاک فوج نے جس جوانمردی اور ہمت و جرات سے ان ملک دشمن عناصر کو للکارا ہے اور ہر محاذ پر ان وطن و اسلام دشمن عناصر کا قلع قمع کیا جا رہا ہے۔ پاک فوج کی اس للکار سے اب دہشتگردوں اور ان کے حامیوں کی زبانیں گنگ ہوگئی ہیں اور قلم ٹوٹ گئے ہیں، اب ان کے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں رہا، سوائے اس کے کہ وہ وطن دشمنی کا زہر کسی اور بہانے اور طریقے سے اگلیں اور جن ملکوں سے وطن عزیز کے حالات اچھے ہیں، ان حالات میں دراڑیں ڈال کر خدشہ دار کرنے کی ناکام کوشش کریں۔

اسی لئے ”را“ کے ایجنٹ پکڑے جانے کو بہانا بنا کر ان عناصر نے ملک اور اسلام دشمنی کو ایران کیخلاف پراپیگنڈہ کی صورت میں بڑی شد و مد سے پیش کرنا شروع کر دیا۔ ان عناصر کے جھوٹے پراپیگنڈے کا ثبوت یہ ہے کہ ان بعض کالم نگاروں نے بھارت کیخلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھا، مگر ایران کیخلاف موضوع سے متعلق، غیر متعلق ہر بات لکھ ڈالی۔ تمام کا ذکر کرنے کی بجائے ایک آدھ نمونے پر اکتفا کروں گا۔ ایک سفید ریش بزرگ تو جوش میں یہاں تک لکھ گئے کہ پورے ایران میں کسی کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی جاسکتی۔ یہ انکشاف بھی فرمایا کہ ایران میں عورتوں اور اہلسنت کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں (ان باتوں کی صحت سے قطع نظر ان کا بھارتی را ایجنٹ کے قضیہ سے ربط کی داد دیجئے)۔ نظریہء پاکستان کے محافظ روزنامہ کے ایک نوجوان لکھاری نے را کی سرگرمیوں کو ایران کی ”اجازت“ سے وقوع پذیر ہونے کی اپنی تفتیشی رپورٹ سپرد قلم کی۔

حال ہی میں ریٹائرڈ شدہ بیوروکریٹ جو ہمارے شہریوں، بچوں کے قاتل طالبان ہی نہیں بلکہ انبیاء، آل و اصحاب رسول ﷺکے مزارات پر حملے کرنیوالے داعش دہشتگردوں کے بھی مبینہ طور پر حامی و وکیل ہیں اور ہمہ دانی کے زعم باطل میں ہر موضوع پہ رائے زنی اپنا فرض خیال کرتے ہیں، حسب عادت و شہرت تمام صحافتی، اخلاقی ضابطے پامال کرتے ہوئے ایران کی تاریخ و جغرافیہ پر غیر درست تبصرے کرتے ہوئے ایران اور انڈیا کے دو عظیم علمی مراکز قم اور لکھنو کے علمی روابط کو بھی بھارت، ایران دوستی کے ثبوت کے طور پر پیش کرکے اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کی سعی لاحاصل کی ہے۔ حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کے اندر اور باہر کن مدارس میں دہشتگردی کی تعلیم دی جاتی ہے اور کون سے مدارس کسی بھی طرح سے خودکش حملوں میں ملوث ہیں؟ اسی کلبھوشن کی نشاندہی پر ملتان کے مدرسہ سے گرفتار ایرانی بلوچستان کے طلباء ہوں یا بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث خیبر پختونخوا کے ایک معروف مدرسہ کے جہادی طلبا۔ ۔ ۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔باغ تو سارا جانے ہے!

اس سارے معاملے میں زور دو باتوں پر دیا جا رہا ہے، ایک ایرانی سرزمین کا استعمال ہونا، دوسرے ایران کی چشم پوشی یا اجازت۔ سرزمین استعمال ہونا جرم ہے تو سب سے زیادہ ہمارے خلاف ہماری ہی سرزمین استعمال ہوئی ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ایران پر چشم پوشی کا الزام بھی نہیں دھرا جا سکتا۔ انقلاب اسلامی کے بعد سے امریکی کانگریس اعلانیہ طور پر انقلاب کے خاتمے کیلئے بجٹ مختص کرتی ہے، جو کہ تخریب کاری، دہشتگردی کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ایران میں بہت سی اہم شخصیات کے علاوہ پوری پارلیمنٹ کو اراکین سمیت اڑایا گیا تھا، مگر ایران اسے کنٹرول کرنے میں ناکام رہا۔ ایران کے صوبہ بلوچستان میں وہابی، سلفی مسلک کی اکثریت ہے، جن کے ہزاروں طلباء پاکستان میں اپنے ہم مسلک مدارس میں پڑھ رہے ہیں، جن کی ایران مخالف عرب ممالک سے وابستگی ڈھکی چھپی نہیں۔

اسی بنا پر لشکر جھنگوی کی حلیف دہشتگرد تنظیم جنداللہ ایران کے اسی صوبے میں قائم ہوئی، جو ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کے وسیع پیمانے پر اغواء، قتل اور شیعہ، سنی عوام کے قتل میں ملوث رہی۔ اس کا سرغنہ سفاک دہشتگرد عبدالمالک ریگی نہ صرف ہمارے بلوچستان کی سرزمین ایران میں دہشتگردی کیلئے استعمال کرتا رہا، بلکہ اس کے فرضی نام والے اصلی پاکستانی شناختی کارڈ پر کراچی کے ایک معروف دینی مدرسہ کا پتہ درج تھا۔ انہی ایام میں انگریزی کے ایک قومی روزنامے میں یہ سنسنی خیز خبر شائع ہوئی تھی کہ امریکی سی آئی اے بلوچستان میں دہشتگرد بھرتی کر رہی ہے۔ ریگی نے ہماری سرزمین استعمال کی، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان کی اجازت سے۔ تاوقتیکہ ناقابل تردید شواہد سامنے نہیں آتے، را کی ایران میں سرگرمیوں کو جنداللہ کی پاکستان میں سرگرمیوں کے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ کے دوٹوک بیان کے بعد کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ ایران نے تو ہمارے ساتھ اس وقت بھی اپنے سفارتی تعلقات پر آنچ نہ آنے دی، جب ہمارے ملک میں اس کے پچیس کے قریب سفارتکار، عالم، انجینئر اور طلباء دہشتگردی کا نشانہ بنے۔ تہران میں ہمارے سفارتی مشن کو متعدد بار پریشانی کا سامنا کرنے کی اہم وجہ پالیسیوں کا وہ بنیادی فرق تھا، جس کے تحت ہماری حکومتیں امریکہ کی مطیع محض جبکہ ایران اسے دشمن نمبر ایک قرار دیتا تھا اور ہے۔ ایران کی اسلامی حکومت سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے، لیکن پاکستان کیخلاف بھارت سے گٹھ جوڑ وہاں کی اسلامی حکومت کی روح کیخلاف ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ وہ حکومت ایک طرف فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل سے برسر پیکار ہے تو دوسری طرف اس کے مجاہد آل و اصحاب رسول ﷺ کے مزارات پر حملے کرنیوالے دہشتگردوں کے مقابلے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔

ایک طبقہء فکر کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ پاک ایران تعلقات کو بگاڑ کر پاکستان کو ملنے والے ان فوائد کو متاثر کرنا ہے، جو ایران پر عالمی پابندیاں اٹھنے کے بعد ملنے والے ہیں۔ تاجروں کی نمائندہ تنظیموں نے ایران کیساتھ تجارت کو پاکستان کیلئے حد درجہ نفع بخش قرار دیا ہے۔ گذشتہ حکومت کے معاہدہ کے تحت گیس لائن منصوبہ کو نہ صرف ایران نے 2 ارب ڈالر کی خطیر رقم کی لاگت سے ہماری دہلیز پر پہنچا دیا، بلکہ معاہدہ کی خلاف ورزی پر ہمارے اوپر عائد ہونیوالے بھاری جرمانے کو بھی خیر سگالی کے جذبے کے تحت معاف کر دیا ہے۔ ایران کیخلاف بے بنیاد معاندانہ پراپیگنڈہ کرنیوالوں کا سعودی بھارت دوستی کے حوالے سے کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔ اس پر ان تبصرہ نگاروں کا چپ سادھ لینا بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ نریندر مودی کی حالیہ سعودی یاترا میں سعودی عرب کی طرف سے مظلوم کشمیریوں کی حمایت کا ذکر تو درکنار، ان کے قاتل کو اعلٰی ترین سعودی اعزاز سے نوازنا بھی لمحہ فکریہ ہے اور ہم سب کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔
خبر کا کوڈ : 533923
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش